بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

نور قتل کیس، ملزم ظاہر جعفر کو پنجاب فرانزک لیبارٹری لاہور پہنچا دیا گیا

نور مقدم قتل کیس کے ملزم ظاہر جعفرکو پنجاب فرانزک لیبارٹری لاہور پہنچا دیا گیا ہے۔

اسلام آباد پولیس ملزم ظاہر جعفر کو لے کر لاہور پہنچی، اسلام آباد پولیس کے انسپکٹر عبدالستار ملزم کو ٹیم کے ہمراہ لاہور لائے۔

عدالت نے مسماۃ عصمت آدم جی، ذاکرجعفر اور ملازمین افتخار اور جمیل کو اڈیالہ جیل بھیج دیا۔

لاہور کی فرانزک لیبارٹری میں ملزم کی رہائش گاہ سے لی گئی ویڈیو کا فرانزک تجزیہ کیا جائے گا، ویڈیو میں موجود ملزم ظاہرجعفر کی شناخت سے متعلق فرانزک ٹیم تجزیہ کرے گی۔

ملزم کا فرانزک لیبارٹری میں پولی گرافک ٹیسٹ بھی کیا جائے گا اور یہ بھی تجزیہ کیاجائے گا کہ ویڈیو میں ایڈیٹنگ کرکے کوئی ردو بدل تو نہیں کیا گیا۔

پاکستانی سفارتکار کی بیٹی نور مقدم کے قتل کیس کے ملزم ظاہر جعفر کے والدین کو بھی گرفتار کرلیا گیا ہے۔

یاد رہے کہ دو روز قبل اسلام آباد کی عدالت نے  نور مقدم قتل کیس کے مرکزی ملزم ظاہرجعفر کو مزید تین روز کے جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کیا تھا۔

سرکاری وکیل ساجد چیمہ نے عدالت کو بتایا کہ وقوعہ کی سی سی ٹی وی وڈیوز حاصل کرلی ہیں، ملزم کو لاہور لے کرجانا ہے، سی سی ٹی وی فوٹیج کا فارنزک کرانا ہے لہذا مزید ریمانڈ دیا جائے۔

پولیس نے پاکستانی سفارتکار کی بیٹی نور مقدم کے قتل کیس کے ملزم ظاہر جعفر کے والد ذاکرجعفر اور والدہ عصمت آدم جی کو ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی عدالت نے پیش کردیا۔

وکیل کی استدعا پر عدالت نے ملزم ظاہر جعفر کا مزید 3 روز کا جسمانی ریمانڈ منظور کیا تھا، ملزم ظاہرجعفر کو 31 جولائی کو عدالت کے سامنے پیش کیا جائے گا۔

خیال رہے کہ  20 جولائی کو تھانہ کوہسار کی حدود ایف سیون فور میں 27 سالہ لڑکی نور مقدم کو تیز دھار آلے سے قتل کیا گیا تھا۔

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں پاکستانی سفارتکار کی بیٹی نور مقدم کیس کی تفصیلات اور اپڈیٹس کیلئے فیملی نے ٹوئٹر پر اکاؤنٹ بنالیا۔

اسلام آباد پولیس نے 20 جولائی کی رات ملزم ظاہر کو ان کے گھر سے گرفتار کیا تھا جہاں نور کے والدین کے مطابق ملزم نے تیز دھار آلے سے قتل کیا اور سر جسم سے الگ کیا تھا۔

مقدمہ میں سابق پاکستانی سفیر شوکت علی نے بتایا کہ ان کی بیٹی نور مقدم کو ملزم ظاہر نے تیز دھار آلہ سے قتل کیا،پولیس کے مطابق مقتولہ کے جسم پر تشددکے نشانات پائے گئے جب کہ سر دھڑ سے الگ تھا۔

بشکریہ جنگ
You might also like

Comments are closed.