ڈنکی سے یورپ جانے کا خواب: ’پاکستان میں بھوکے رہ لو، میں بیٹا گنوا بیٹھی ہوں‘

ڈنکی

’میرے بڑے بیٹے کا نام سیف اللہ تھا۔ دیہاڑی کرتا تھا۔ گھر والوں کا احساس کرتا تھا۔ کہتا تھا باہر جا کر کماؤں گا۔ حالات ٹھیک ہو جائیں گے۔ بہنوں کی شادی کریں گے۔ چار دن فون آتا رہا، پھر (فون) بند ہو گیا۔۔۔‘

اٹلی میں کشتی حادثے میں مارے جانے والے غیر قانونی تارکینِ وطن میں شامل پاکستانی شہری سیف اللہ کی والدہ کہتی ہیں کہ ’وہ (ان کا بیٹا) کہتا تھا امی ہمارے حالات اچھے ہو جائیں گے۔ بہنوں کو پڑھائیں گے، پھر شادی کر دیں گے۔ میں اگلے ملک جاؤں گا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ جانے سے پہلے سیف اللہ دیہاڑی پر مزدوری کرتا تھا۔

’جو پیسہ ہو گھر لاتا تھا۔ تنگ نہیں کرتا تھا۔ پہلے بھی گیا تھا۔ 25 دن بعد پکڑا گیا تو واپس آ گیا۔ پھر اس کا ویزا نہیں لگا، اس کے دوستوں کا لگ گیا تھا۔ کہتا تھا اب ویزا نہیں لگانا۔ فون آیا تو کہتا ڈنکی اچھی جا رہی ہے۔ 10 دن میں پہنچ جاوں گا۔‘

سیف کی والدہ بتاتی ہیں کہ اس سفر میں سیف اللہ ’پیدل بھی چلا۔ تھوڑا گاڑی میں بھی سفر کیا۔ پھر بتایا میرا جوتا ٹوٹ گیا۔ تھک جاتا تھا تو موبائل پر فون کرتا تھا۔ ویسے کہتا تھا میں خوش ہوں، کھانا مل جاتا ہے۔‘

سیف اللہ کی جانب سے بھیجی جانے والی آخری ویڈیو کو یاد کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں ’پھر ایک جگہ سے مووی بھیجی جہاں جنگل میں اس کے پاس ٹماٹر اور ہری مرچیں پڑی تھیں۔ بولا کچھ نہیں۔۔۔ بس دو انگلیاں دکھائیں۔ اس کے چوتھے دن فون آ گیا۔‘

سیف کو یاد کرتے ہوئے بار بار اشک بار ہوتے ہوئے ان کا کہنا تھا ’کہتا تھا امی گھبرانا نہیں۔ آپ کی مجبوری ختم ہو جائے گی۔ آپ کا علاج کروائیں گے آپ ٹھیک ہو جائیں گی۔‘

بیٹے کو رخصت کرنے کے لمحات یاد کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں ’لڑکوں نے مشورہ کیا اور منصوبہ بنا لیا۔ مجھ سے مشورہ نہیں کیا۔ اس نے کہا کچھ کپڑے رکھ دو۔ مجھے سمجھ نہیں آیا کیسے میں اس کی باتیں مانتی چلی گئی۔‘

گذشتہ ہفتے اٹلی کے قریب کشتی ڈوبنے کے واقعے میں متعدد پاکستانی بھی ملوث تھے جو غیر قانونی طریقے سے یورپ داخل ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔

ڈنکی

،تصویر کا کیپشن

تارکینِ وطن کو غیر قانونی طریقے سے دوسرے ملکوں تک لے جانے کے عمل کو پنجابی میں ڈنکی کہا جاتا ہے اور یہ کام کرنے والے ڈنکر کہلاتے ہیں

وہ کہتی ہیں ’میرے بیٹے نے مجھے بتایا نہیں تھا جب پہلی ڈنکی سے لوٹا۔ کہنے لگا گاڑی کا ٹائر پنکچر ہوا تو واپس آنا پڑا۔ مجھے پتا نہیں تھا۔ ہمیں تو ان ملکوں کے ناموں کا بھی نہیں پتا تھا۔‘

’آخری بار مجھے کہہ کر گیا یا تو میں کاروں میں ملوں گا یا اخباروں میں ملوں گا۔‘

وہ کہتی ہیں ہیں ’کہتا تھا سب یار دوست چلے گئے ہیں میں بھی چلا جاؤں گا۔‘

اپنے بیٹے کو کھونے کے بعد وہ کہتی ہیں کہ وہ سب کو ایسے سفر کا خطرہ مول لینے سے منع کرتی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’مجھ سے کوئی پوچھے تو میں کہوں گی نہ جاؤ۔ یہیں بھوکے رہو پاکستان میں۔ میں تو اس کے شوق میں اپنا بیٹا گنوا بیٹھی ہوں۔ میرا بیٹا چلا گیا۔‘

ان کا کہنا تھا ’میرا دل اتنا ڈر گیا ہے کہ میں کہتی ہوں کوئی جہاز پر بھی نہ جائے۔ آدھی روٹی کھا لو۔ دیکھو اب میں رو رہی ہوں۔‘

سیف کی والدہ کہتی ہیں کہ انھیں پہلے سیف کی وفات کے بارے میں نہیں بتایا گیا تھا۔ ’مجھےاس دن پتا چلا جب لاش آنی تھی۔ مجھے نہیں پتا تھا میرا بیٹا فوت ہو گیا ہے۔‘

21 سالہ سیف اللہ کے والد محمد اشرف کا کہنا تھا ’راستہ تو خطرناک تھا لیکن بہن بھائی کی خاطر کہتا تھا ڈنکی لگانی ہے۔ مہنگائی ہے گزر مشکل ہے۔‘

’حادثے میں ایک شخص ہمارے گاؤں کا تھا۔ وہ بچ گیا تھا۔ اس نے بتایا کہ سیف اللہ فوت ہو گیا ہے۔‘

’جوان بیٹا کھویا ہے، آسان نہیں ہے۔‘

’ہمیں بھیڑ بکریوں کی طرح بیچ دیتے ہیں‘

ایسا ہی سفر کرنے والے مدثر علی، ساڑھے چھ سال سعودی عرب گزارنے کے بعد سنہ 2016 میں پہلی بار ڈنکی گئے۔ ترکی میں تین ماہ گزارنے کے بعد لوٹے۔ انھیں ترکی کی سرحد پر پکڑ لیا گیا تھا۔

وہ کہتے ہیں ’انھوں نے بہت مارا، لوہے کے پائپوں سے مارا اور پھر پہاڑوں سے نیچے پھینک دیا۔ ہم لڑکے ایک دوسرے کو سہارا دے کر واپس آئے۔ ہمارے وہاں تک لے جانے والے ڈنکر آئے کر ہمیں واپس لے گئے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ وہ ایران کی سرحد عبور کر چکے تھے لیکن ترکی کے فوجیوں نے پکڑ کر ایرانیوں کے حوالے کر دیا۔ ’ایرانی فوجیوں نے بہت مارا۔ ‘

’ہم نے پھر ایک بار رسک لیا۔ لیکن ایران کی سرحد پر ہی ہم پکڑے گئے۔ پھر ان ڈنکروں سے رابطہ کیا تو انھوں نے رقم مانگی اور کہا ہم تمھیں واپس بھیج دیں گے۔ ہمیں گاڑیوں میں لا کر جیل میں ڈال دیا۔ جہاں ایک ہفتے رہے۔ پھر وہ ہمیں پاکستانی فوجیوں کے حوالے کر گئے۔‘

مدثر علی کہتے ہیں کہ وہ ’ترکی ایران کی سرحد تک پہنچانے کے ڈھائی لاکھ لیتے ہیں۔ کھانا پینے کا خرچہ اپنا ہوتا ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’اٹلی جانے کا ارادہ تھا، ڈنکی بہت مشکل ہے۔ اس میں بہت حادثے ہوتے ہیں، ننانوے فیصد جان جانے کا خطرہ رہتا ہے۔ بچ گئے تو ٹھیک ہے۔ ڈنکی کا نام آسان ہے، لگانی مشکل ہے۔‘

وہ بتاتے ہیں ’ڈنکی غیر قانونی سفر ہے۔ اس میں جان جانے کا خطرہ ہوتا ہے۔ میں نے راستے میں لاوارث مرے ہوئے لوگ دیکھے ہیں۔ یہ آخری سانسوں تک بندے سرحد کے پار پہنچاتے ہیں۔‘

’بندہ ڈنکی لگا کر کسی ملک پہنچ بھی جاتا ہے تو وہاں سے واپس تبھی آ سکتے ہیں جب کاغذ بنتے ہیں۔ بندہ واپس نہیں آ سکتا۔ ڈنکی کی زندگی بد تر ہوتی ہے۔‘

مدثر

،تصویر کا کیپشن

مدثر علی اپنے ڈنکی کے مشکل سفر کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ انھیں اپنی آنکھوں سے سامنے اپنی موت نظر آئی

مدثر علی اپنے ڈنکی کے مشکل سفر کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’سب سے مشکل وقت جو آج بھی آنکھوں کے سامنے آتا ہے وہ تب ہے جب ایرانی فوجیوں نے گولیوں کی برسات کی۔

’ایسا لگ رہا تھا جنگ ہو رہی ہے۔ ڈنکر راستہ بتا دیتے ہیں اور کہتے ہیں یہاں سے بھاگتے جانا ہے، رکنا نہیں۔ ہم بھاگ رہے تھی کہ ایک طرف سے فائر ہوا۔ ہم نہیں رُکے تو چاروں طرف سے فائرنگ ہونے لگی۔ جو رک گئے انھیں بندوقوں سے زد و کوب کیا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’میں نے اپنا خواب پورا کرنے کے لیے سب سے قیمتی چیز کھوئی، وہ گھر والوں کا اعتبار ہے۔‘ وہ کہتے ہیں ’ہم تھوڑا کھا لیتے، یہاں کوئی کام ڈھونڈ لیتے۔‘

سفر کی تفصیلات بتاتے ہوئے مدثر علی نے بتایا کہ ’وہ ہمیں کوئٹہ سے آگے بھیج دیتے ہیں۔ ہم راستے میں بِک جاتے ہیں۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد ہم بِک جاتے ہیں۔ نہ کھانے کو ملتا ہے۔ ہمیں پہاڑوں میں چھوڑ کر یہ خود گھروں میں چلے جاتے ہیں۔

’پانی ختم ہو جائے تو پانی نہیں ملتا۔ کچھ لوگ ڈر کر، کچھ بھوک سے مر جاتے ہیں۔ کچھ پہاڑوں سے گر جاتے ہیں، انھیں گہری چوٹیں لگ جاتی ہیں۔ لٹیرے بھی ملتے ہیں جو چیزیں چھین لیتے ہیں۔ (ڈنکر) ہمیں بھیڑ بکریوں کی طرح بیچ دیتے ہیں۔ ‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’وہ اکثر ظلم کرتے ہیں۔ پیسے چھین کر گھر والوں سے مزید پیسے منگوانے کو کہتے ہیں۔ اور کہتے ہیں تبھی آگے یا واپس بھیجیں گے۔‘

مدثر نے بتایا کہ ’کوئٹہ سے آگے تفتان سرحد سے 50 کلو میٹر پہلے خفیہ راستے سے پیدل 12 گھنٹے کا سفر کر کے سرحد تک جاتے ہیں۔ سرحد عبور کر کے ڈالوں میں 40 بندہ سوار کر کے پہاڑوں میں گاڑیاں بھگاتے ہوئے لے جاتے ہیں۔ کچھ لوگ گاڑیوں سے گر بھی جاتے ہیں، وہ انھیں دیکھتے تک نہیں۔‘

ان کے بقول ’پھر 24 گھنٹے پیدل چل کر گاڑیوں تک لے جاتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے کمروں میں رکھتے ہیں۔ نہ کچھ کھانے کو نہ پینے کو۔ رات 12 بجے کے بعد لینے آ جاتے ہیں کہ آگے جانا ہے۔

’ترکی کی سرحد کے پاس پھر سے پیدل چلنا پڑتا ہے۔ ترکی کی سرحد کراس کر کے کبھی پیدل کبھی گاڑیوں پر استنبول تک لے جاتے ہیں۔‘

مدثر کہتے ہیں کہ ’میں تو دوبارہ یہ غلطی کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔‘

’میں نے دو بار ڈنکی میں سات لاکھ لگائے۔ مجھے ان سات لاکھ کا دُکھ نہیں۔ خوشی یہ ہے کہ میں اپنے گھر والوں کے ساتھ ہوں۔ اور بالکل ٹھیک ہوں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’ایجنٹ ہمیں جو سبز باغ دکھاتے ہیں یہ حقیقیت نہیں۔‘

مدثر کہتے ہیں کہ واپس آکر انھوں نے ایسا کام دوبارہ کبھی نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔

’پاکستانی سرحد میں آ کر جب موبائل کے سنگل آئے تو گھر کال کی، بیٹیوں سے بات کی۔ تب میرے دل کو سکون ہوا۔ تبھی سوچ لیا تھا کہ زندگی میں ایسی غلطی کبھی نہیں کروں گا۔‘

ڈنکی

،تصویر کا کیپشن

اس مشکل سفر میں کئی ملکوں کی سرحد غیر قانونی طریقوں سے پار کی جاتی ہے

ڈنکی کیا ہے جس نے پاکستانیوں کو بڑے خواب مگر المناک حقیقت دکھائی

حسن زیدی غیر قانونی تارکین وطن اور ان کے پُرخطر سفر پر دستاویزی فلم بنا چکے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’غیر قانونی تارکینِ وطن کو دوسرے ملکوں تک لے جانے کے عمل کو پنجابی میں ڈنکی کہا جاتا ہے اور یہ کام کرنے والے ڈنکر کہلاتے ہیں۔‘

’ترکی سے یونان بذریعہ پانی سفر کے لیے چھوٹی کشتیاں استعمال ہوتی تھیں۔ ان کشتیوں سے پنجابی لفظ ڈنکی بنا۔‘

’انسانی سمگلروں کا ایک بہت بڑا نیٹ ورک ہے۔ یہ لوگ یورپ میں داخل ہونے کے لیے ایک بڑی رقم ادا کرتے ہیں۔‘

حسن زیدی کا کہنا ہے کہ وہ گذشتہ دس سال سے غیر قانونی تارکین وطن اور انسانی سمگلنگ کے حوالے سے تحقیق کرتے آئے ہیں۔ انھوں نے تارکینِ وطن کو درپیش مشکلات کے حوالے سے دستاویزی فلم بنائی جس کے لیے انھوں نے ایسے آٹھ ممالک پر براستہ سڑک سفر کیا جن سے یہ لوگ یورپ میں داخل ہوتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں ’ان کی سوچ ہوتی ہے کہ یورپ میں اچھا کمائیں گے۔ مشکلات دور ہوں گی۔ ان کا طرز زندگی اچھا ہو جائے۔ لیکن میں نے دیکھا کہ یورپ پہنچنے والے اکثر لوگ جو خواب لے کر یورپ آئے وہ پورے نہیں ہوئے ۔تو ان کی صورتحال بہت خراب تھی۔‘

انھوں نے بتایا کہ پہلے ہنگری اور سربیا کی سرحد سے لوگ یورپ داخل ہوتے تھے لیکن اب وہاں باڑ لگا دی گئی ہے، اس لیے اب نیا راستہ لیبیا سے ہے جہاں سے لوگ جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ’زیادہ پیسے دیں تو ایجنٹ لیبیا تک ویزا لگا دیتے ہیں اور اس سے آگے غیر قانونی سفر کا انتظام کرتے ہیں۔‘

حسن زیدی بتاتے ہیں کہ ’پاکستان میں جو اس غیر قانونی سفر کو ڈیل کرتے ہیں وہ خود بھی ایسے ہی یورپ گئے۔ اسی لیے وہ ان تعلقات کو استعمال کر کے مزید لوگوں بھی بھیجتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’غیر قانونی تارکین وطن کے موضوع پر بات نہیں کی جاتی کیونکہ اس میں بین الاقوامی سرحدیں ملوث ہوتی ہیں۔ میں چاہتا تھا کہ لوگوں کو مشکلات کا پتا چلے تاکہ وہ یہ راستے اختیار نہ کریں۔‘

’یورپ میں داخلے سے پہلے ان ممالک میں تارکینِ وطن کے حالات زندگی بہت بُرے ہیں۔ این جی اوز انھیں کھانے کی چیزیں دیتی ہیں۔ یہ چونکہ ان ممالک میں غیر قانونی ہوتے ہیں اس لیے ان کے کوئی حقوق نہیں ہوتے۔ یہ آپ کو وہاں جنگل میں ملیں گے۔ پلوں کے نیچے یا پارکنگز میں خیمے لگا کر بیٹھے ہوتے ہیں۔ شہروں میں نہیں جاسکتے کیونکہ پھر پولیس پکڑ لیتی ہے۔‘

حسن زیدی بتاتے ہیں کہ ’پولیس کو بھی پتا ہوتا ہے کہ آج 400 لوگ داخل ہوئے ہیں ۔ ان کے پاس جیل بھر چکے ہیں۔ لیکن انھیں پولیس کہیں لے جا نہیں سکتی۔ جو جگہیں ہیں وہ بھر چکی ہیں، یہ یورپ کے لیے بھی بحران ہے۔‘

ڈنکی

ان کے بقول ’یورپ جا کر دیکھیں تو کئی سال تک یہ چھپ کر کام کرتے ہیں۔ اس کی ضمانت نہیں کہ انھیں اجرت ملے گی، کتنی ملے گی۔ آجر جب دل کرے گا جتنا دل کرے گا پیسے دے گا۔ کیونکہ انھیں بھی پتا ہے کہ یہ غیر قانونی تارکین وطن ہیں۔‘

’کئی لوگ چھ، سات مہینے تک کام کرتے ہیں۔ انھیں اجرت نہیں ملتی۔ لیکن وہ ان کے خلاف قانونی کارروائی نہیں کر سکتے۔ یہ یہاں سے خواب تو بڑے بڑے لے کر جاتے ہیں لیکن اس کی حقیقت بہت المناک ہے۔‘

ان کے مطابق پاکستان سے یورپ داخل ہونے کے لیے یہ لوگ اپنی جان کو ِخطرے میں ڈالتے ہیں۔ ’یہ بھیڑ بکریوں کی طرح سفر کرتے ہیں۔ یہ بغیر خوراک کے سرحد پر بارڈر پولیس کی فائرنگ سے بچتے ہوئے اپنی زندگی کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔‘

’جن سے بات کی ان میں سے 90 فیصد لوگ کہتے ہیں کہ انھیں دوسرا موقع ملے تو اس طرح نہیں آئیں گے۔ وہ قرض لے کر یا ماؤں کے زیور بیچ کر آئے ہیں۔ وہ واپس جانا چاہتے ہیں لیکن جا نہیں سکتے۔‘

حسن کہتے ہیں کہ ’سرحدی فورسز کی جانب سے پکڑے جانے والے لوگوں پر جسمانی تشدد کیا جاتا ہے۔ میں نے دیکھا کہ ہنگری کی سرحد پر فورسز لوگوں پر تربیت یافتہ کتے چھوڑ دیتے ہیں۔ کئی لوگ زخمی ہو کر واپس بھاگ جاتے ہیں۔‘

’سردی میں سرحد عبور کرنے کی کوشش کرنے والے کی تارکینِ وطن کے جسمانی اعضا کو اتنا نقصان پہنچا کہ کاٹنے پڑے۔ جو لوگ مر جاتے ہیں ڈنکر انھیں وہیں کہیں جنگل میں پھینک جاتے ہیں کیونکہ وہ لاش ساتھ لے جانے کا رسک نہیں لے سکتے۔‘

’اس سارے سفر میں جان کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا موسمیاتی خرابی، شدید سردی اور فورسز کی فائرنگ کا ڈر ہوتا ہے۔ خاص طور پر ایران اور ترکی کی سرحد پر پہاڑے علاقوں میں بہت زیادہ سردی ہوتی ہے۔‘

اس کے علاوہ ایک اور خطرہ بھی ہے۔ ’کئی پاکستانی ترکی میں اغوا بھی ہوئے جہاں ان کی ویڈیوز بنا کر ان کے گھر والوں کو بھیجی گئیں کہ پیسے بھیجیں۔‘

ڈنکی

،تصویر کا کیپشن

تارکین وطن چھوٹی کشتیوں پر سمندری سرحد پار کرتے ہیں مگر اس دوران کئی حادثے بھی ہوتے ہیں

’نیٹ ورک پکڑنے کے لیے بین الاقوامی تعاون کی ضرورت ہے‘

ایف آئی اے کے سابق اہلکار سجاد مصطفیٰ باجوہ کا کہنا ہے کہ انسانی سمگلرز بہت منظم ہیں۔ ’اس لیے انھیں پکڑنے کے لیے منظم عملہ چاہیے۔ ان کا نیٹ ورک مختلف ممالک میں پھیلا ہوتا ہے۔ اس کے لیے وسائل اور ممالک کا تعاون درکار ہوتا ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’ایف آئی اے میں بھی کرپشن ہے۔ تفتیشی اہلکاروں کے تبادلے کا مسئلہ ہے۔ آج کوئی شخص تفتیش کرتا ہے تو وہ تبدیل ہوجاتا ہے اور ایک ایسا فرد آ جاتا ہے کہ جسے شروع کے معاملے کا پتا نہیں ہوتا۔‘

انھوں نے ترکِ وطن کے رجحان میں اضافے کی وجوہات بتاتے ہوئے کہا کہ ’تربیلا اور منگلا کے لوگ باہر گئے، ان کی حالت بہتر ہوئی تو ان کے دیکھا دیکھی لوگ باہر جانے لگے۔

’باہر جانے والے دوسروں کو سہانے خواب دکھاتے ہیں۔ جو جاتے ہیں وہ دوستوں کو ایڈوینچر کے بارے میں بتاتے ہیں۔ اور سمگلرز بھی انھیں جھوٹی امیدیں دلاتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’کچھ معاملات میں دوستوں کے کہنے پر بچے جاتے ہیں۔ انھیں پتا بھی نہیں ہوتا کہ ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ کئی معاملات میں والدین کو پتا بھی نہیں ہوتا کہ ان کے بچوں کے ساتھ کیا ہوا۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’گجرات میں مجھے انسانی سمگلنگ کا قلع قمع کرنے کا ٹاسک دیا گیا۔ میں نے وکٹمز کے خاندانوں کو بلایا اور انھیں مقدمات کی پیروی کے لیے تیار کیا۔ زندہ بچ جانے والوں کو بلایا ان کے بیانات لیے۔ ان سے پتا چلا کے کون ایجنٹس ہیں۔ کچھ لیبیا میں تشدد کرتے تھے۔ لیبیا میں کشتی پر سوار کرنے والوں کا بھی پتا چلایا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اس معاملے میں بین الاقوامی تعاون نہ ہونے کی وجہ سے مشکل ہوجاتی ہے۔ ‘

انھوں نے بتایا کہ اس وقت سیالکوٹ، گجرات اور منڈی بہاؤ الدین کے زیادہ لوگ غیر قانونی طور پر یورپ جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ’لیبیا کے لیے فضائی راستے سے بھی جاتے ہیں۔ وہاں سے ان کو کشتی میں سوار کیا جاتا ہے۔ اسی طرح دبئی سے لیبیا لے جایا جاتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اگر یہ تحقیقات کی جائیں گے کہ دبئی سے لیبیا کس طرح سے گئے، ویزا کیسے حاصل کیا گیا۔۔۔ جب تک یہ نیٹ ورک نہیں پکڑا جائے گا اسے روکنا مشکل ہے۔ ایران، ترکی، لیبیا اور دبئی کا تعاون ضروری ہے۔‘

سجاد مصطفیٰ نے الزام عائد کیا کہ ’ایف آئی اے میں بھی ایسے لوگ ہیں جو ان سمگلروں کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔ اس لیے سمگلرز پکڑے نہیں جاتے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’امیگریشن آرڈیننس کے تحت سات سے 14 سال قید کی سزا تھی۔ لیکن اس پر سزائیں بہت کم ملی۔ عدالتیں بھی نرمی برتتے ہوئے کم سزائیں دیتی ہیں۔ ‘

ان کا کہنا تھا کہ سمگلرز کو پکڑنے کی راہ میں ’ایف آئی اے میں عملے کی کمی کے ساتھ ساتھ مقامی پولیس کے تعاون کی کمی بھی ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ مقامی پولیس کے ساتھ کام کرنے میں معلومات لیک ہو جاتی ہیں۔‘

مگر کیا وجہ ہے کہ پاکستان کے بعض شہری غیر قانونی راستوں سے یورپ جانے اور اپنی زندگی بدلنے کا خواب دیکھتے ہیں۔ ماہر بشریات ندیم عمر تارڑ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ نوجوان یورپ کی زندگی سے متاثر ہیں اور اپنے حالات سے پریشان ہیں۔

’ان کے سامنے ایسی مثالیں ہوتی ہیں کہ کچھ لڑکے انھی راستوں سے یورپ پہنچے اور انھوں نے اپنے خاندانوں کے لیے نئے راستے تلاش کیے اور پورے خاندان کو سنوار لیا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ایسے لوگوں کو ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا ہے کہ جنھوں نے خاندان کے لیے اپنی جان داؤ پر لگا دی۔ ’ایسے واقعات لوگوں کی سماجی یادداشت کا حصہ ہیں۔ ان کرداروں کو یاد رکھا جاتا ہے کیسے ان افراد نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر خاندان کی خاطر جھنڈے گاڑھے۔‘

ان کے مطابق نوجوان ملک میں رہتے ہوئے محنت کرنے کے بجائے اسی جنون میں یہ خطرہ مول لیتے ہیں۔

BBCUrdu.com بشکریہ