سپریم کورٹ میں پنجاب انتخابات کے حوالے سے الیکشن کمیشن کی نظرثانی درخواست پر سماعت شروع ہو گئی ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ سماعت کر رہا ہے، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر بینچ میں شامل ہے۔
الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی نے کہا ہے کہ ایک آرٹیکل پر عمل کرتے ہوئے دوسرے کی خلاف ورزی نہیں ہو سکتی، آرٹیکل 254 سے 90 دن کی تاخیر کو قانونی سہارا مل سکتا ہے، انتخابات میں 90 دن کی تاخیر کا مداوا ممکن ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ مداوا ایسے بھی ہو سکتا ہے ساڑھے 4 سال کے لیے نگراں کے بجائے منتخب حکومت آسکتی ہے، آئین میں کیسے ممکن ہے کہ منتخب حکومت 6 ماہ اور نگراں حکومت ساڑھے 4 سال رہے؟
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ 90 دن کا وقت بھی آئین میں دیا گیا ہے، نگراں حکومت 90 دن میں الیکشن کرانے ہی آتی ہے، آئین میں کہاں لکھا ہے کہ نگراں حکومت کا دورانیہ بڑھایا جاسکتا ہے؟ نگراں حکومت کی مدت میں توسیع آئین کی روح کے منافی ہے۔
وکیل سجیل سواتی نے کہا کہ عدالت کی آبزرویشن سے متفق ہوں، آئین کی منشاء منتخب حکومتیں اور جہموریت ہی ہے، ملک منتحب حکومت ہی چلا سکتی ہے، جہموریت کو بریک نہیں لگائی جا سکتی، 1973 میں آئین بنا تو نگراں حکومتوں کا تصورنہیں تھا۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ آئین بنا تو مضبوط الیکشن کمیشن تشکیل دیا گیا تھا، نگراں حکومتیں صرف الیکشن کمیشن کی سہولت کے لیے آئین میں شامل کی گئیں، شفاف انتحابات کرانا الیکشن کمیشن کی ذمے داری ہے، الیکشن کمیشن نہیں کہہ سکتا کہ فنڈز نہیں ہیں تو انتخابات نہیں کراسکتے۔
جسٹس منیب اختر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پنجاب اسمبلی کی تحلیل کے بعد سابق اسپیکر نے سپریم کورٹ سے انتخابات کے لیے رجوع کیا، اب نظرثانی میں آپ خود سپریم کورٹ آئے تو سماعت کر رہے ہیں، یہ نہ سمجھیں کہ خیبرپختونخوا کو ہم نے سائیڈ پر کیا ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ الیکشن کمیشن سیاسی باتیں کر رہا ہے۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن خودمختار اور آزاد ادارہ ہے، سیاسی بات نہیں کر رہے،
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ کب تک انتخابات میں تاخیر کی جاسکتی ہے؟ انتخابات میں تاخیر سے منفی قوتیں ایکٹو ہو جائیں گی، منفی قوتیں چالیں چلنا شروع ہو جاتی ہیں، بطور آئین کے محافظ عدالت کب تک خاموش رہے گی؟ آرٹیکل 224 کو سرد خانے میں کتنے عرصے تک رکھ سکتے ہیں؟
الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ 9 مئی کے واقعات سے الیکشن کمیشن کے خدشات درست ثابت ہوئے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ عدالت نے خدشات کی نہیں آئین کے اصولوں کی بات کرنی ہے۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عام انتخابات کا مطلب صرف قومی اسمبلی کا الیکشن نہیں ہوتا، ایک ساتھ انتخابات میں 5 جنرل الیکشن ہوتے ہیں، وزیر اعظم اور وزراء اعلیٰ 6 ماہ بعد اسمبلیاں تحلیل کردیں تو کمیشن کیا کرے گا؟ وزیر اعظم اور وزراء اعلیٰ کے پاس اسمبلی تحلیل کرنے کی ویٹو پاور ہے، وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ جب چاہیں اسمبلیاں تحلیل کر سکتے ہیں، آئین کے اصولوں کو مدنظر رکھ کر بتائیں الیکشن کمیشن کا مؤقف کیا ہے؟
وکیل سجیل سواتی نے کہا کہ 8 اکتوبر کی تاریخ حقائق کے مطابق دی تھی۔
جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ 8 ستمبر کو الیکشن کمیشن کہے کہ اکتوبر میں الیکشن ممکن نہیں تو کیا ہو گا؟ الیکشن کمیشن 2 سال کہتا رہے گا کہ انتخابات ممکن نہیں، انتخابات کروانا الیکشن کمیشن کا فرض ہے، صوابدید نہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کب تک انتخابات آگے کر کے جمہوریت قربان کرتے رہیں گے؟ کئی مرتبہ جمہوریت قربان کی گئی اور کئی سال اس کے نتائج بھگتے، الیکشن کمیشن کے فیصلے میں صرف وسائل نہ ہونے کا ذکر تھا، الیکشن کمیشن کب کہے گا کہ اب بہت ہو گیا، انتخابات ہر صورت ہوں گے۔
Comments are closed.