’پیچیدہ شخصیت، روبوٹک انداز‘: رون ڈی سانٹس صدارتی امیدوار کی دوڑ میں ٹرمپ کو شکست دے سکیں گے؟

امریکہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, انتھونی زرچر
  • عہدہ, نامہ نگار شمالی امریکہ

سنہ 2024 میں ریپبلکن جماعت کی جانب سے صدارتی امیدوار کون ہو گا؟ امریکہ میں اس سیاسی مقابلے کا وقت آن پہنچا ہے جس کا مدت سے انتظار کیا جا رہا تھا۔

سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس دوڑ میں پہلے سے ہی شامل ہیں لیکن اب ان کے خلاف ایک ایسے سیاست دان میدان میں اترے ہیں جو ٹرمپ کے مرکزی حریف ثابت ہو سکتے ہیں: یعنی رون ڈی سانٹس۔

ڈی سانٹس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بھی ٹرمپ کی طرز کے قدامت پسند ہیں لیکن ان کا ماضی قدرے صاف ہے۔ تاہم فلوریڈا کے گورنر ڈی سانٹس جس دوڑ میں شامل ہوئے ہیں اس میں اب بھی ٹرمپ کو سبقت حاصل ہے۔

ڈی سانٹس کی اس مہم کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ انھوں نے کنزرویٹیو یعنی قدامت پسندوں کے ایجنڈے پر ایسے کام کیے ہیں جنھیں کامیابیاں شمار کیا جا سکتا ہے جبکہ دوسری جانب ٹرمپ کے چار سالہ صدارتی دور میں ایسی کم ہی قانونی فتوحات حاصل کی گئیں۔

بطور گورنر ڈی سانٹس نے ایسے قوانین متعارف کروائے جن کے تحت اسلحہ رکھنا آسان ہوا، سکولوں میں سیکس اور صنف کی شناخت پر تعلیم کو محدود کیا گیا، اسقاط حمل پر پابندیاں عائد کی گئیں اور ووٹنگ قوانین کو سخت کیا گیا۔

انھوں نے اکثر ایسی بڑی کاروباری کارپوریشنز سے ٹکر لی جو ان کے نزدیک لبرل ایجنڈا کی حمایت کرتی ہیں اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ڈی سانٹس کے نزدیک ریپبلکن ووٹر کے لیے ثقافتی معاملات روایتی کاروبار دوست پالیسیوں سے زیادہ اہم ہیں۔

یہ ایک جوا ہے جس کی ایک ڈرامائی مثال ڈزنی کمپنی سے ان کا جھگڑا ہے۔ ایک سال کی یہ طویل جنگ اس وقت شروع ہوئی تھی جب ڈزنی کمپنی نے فلوریڈا کے اس قانون پر تنقید کی تھی جس کے تحت سکولوں میں سیکس اور صنفی شناخت پر اساتذہ کی جانب سے بات چیت کو محدود کیا گیا تھا۔

امریکہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

مائرا ایڈمز ایک کالم نگار اور سیاسی ماہر ہیں جو فلوریڈا سے تعلق رکھتی ہیں اور سنہ 2004 اور 2008 میں ریپبلکن صدارتی مہم کا حصہ رہ چکی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’ڈی سانٹس ایک ثقافتی جنگجو ہیں جو ہمیشہ سے ہی قدامت پسند رہے ہیں جن کا خیال ہے کہ وہ ٹرمپ کے ووٹرز کو اپنی جانب راغب کر سکتے ہیں۔‘

ڈی سانٹس کی مہم میں ان کو ایک فاتح کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے جو کانگریس اور گورنر کے عہدے کی دوڑ میں ناقابل شکست رہے ہیں۔

دو ہفتے قبل ریاست آئیوا کے دورے کے دوران ڈی سانٹس نے کہا کہ ’ہمیں شکست کے اس کلچر کو مسترد کرنا ہو گا جس نے حالیہ برسوں میں ہماری جماعت کو نقصان پہنچایا ہے۔ بہانوں کا وقت گزر چکا ہے۔‘

یہ غالباً ٹرمپ پر طنز تھا جو اب تک سنہ 2020 کے صدارتی الیکشن میں اپنی شکست کو تسلیم نہیں کرتے اور جن کو ریپبلکن جماعت کی اکثریت گذشتہ سال کے کانگریشنل الیکشن کے برے نتائج کا ذمہ دار ٹھہراتی ہے۔

ان تمام وجوہات کی وجہ سے ڈی سانٹس مضبوط امیدوار نظر آتے ہیں – کم از کم کاغذوں کی حد تک لیکن الیکشن مہم کاغذ پر نہیں بلکہ براہ راست جیتے جاگتے ووٹر اور قومی میڈیا کے سامنے لڑی جاتی ہے۔

امریکہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

گذشتہ سال نومبر میں ان کی متاثرکن جیت کے بعد بظاہر وہ ایک ایسی طاقت لگ رہے تھے جسے اب روکا نہیں جا سکے گا۔ تاہم اب معاملہ مختلف ہے۔

گذشتہ سال کے پول کے مطابق ڈی سانٹس اور ٹرمپ مقبولیت کے حساب سے ساتھ ساتھ تھے۔ چند سرویز کے مطابق ڈی سانٹس ٹرمپ سے آگے تھے۔

تاہم ریپبلکن ووٹرز کے حالیہ سروے ٹرمپ کی سبقت دکھا رہے ہیں۔

ان کا اس وقت چیلنج یہ ہے کہ وہ ٹرمپ کے نسبتاً کم پرجوش حامیوں کو اس بات پر آمادہ کر سکیں کہ وہ ’ٹرمپ ازم‘ کی اصلی سے بہتر شکل ہیں۔

یہ ایک مشکل کام ہو گا کیوںکہ متعدد امیدوار بالکل الٹ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جنوبی کیرولائنا کی گورنر نکی ہیلی نے بدھ کے دن جاری ہونے والی ایک ویڈیو میں ڈی سانٹس کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ’امریکہ کو بازگشت کی نہیں بلکہ انتخاب کی ضرورت ہے۔‘

ٹرمپ کی حمایت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ ڈی سانٹس ذاتیات کی سیاست سے گریز کرتے ہیں اور اتنے جوشیلے نہیں ہیں۔ حال ہی میں جب ڈی سانٹس نے بین الاقوامی سٹیج پر اپنے آپ کو فعال دکھانے کے لیے بیرون ملک کا دورہ کیا تو اس کا زیادہ اثر نہیں ہوا۔

نکی ہیلی کی الیکشن مہم کی مینیجر کے ایک لیک شدہ میمو میں ڈی سانٹس کو ’بغیر کشش کے ٹرمپ‘ قرار دیا۔

مائرا ایڈمز کا کہنا ہے کہ بہت سے ڈونر، جنھوں نے ایک کمرے میں ڈی سانٹس کے ساتھ موجود ہونے کے لیے کافی پیسہ دیا، ناراض ہیں کیوں کہ ان کو وقت نہیں دیا گیا۔ ’وہ روبوٹک ہیں۔ ان کی شخصیت پیچیدہ ہے۔‘

امریکہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

کاغذ پر ناقابال شکست نظر آنے والا امیدوار کاغذی شیر ثابت ہو سکتا ہے۔

مائرا ایڈمز کا کہنا ہے کہ وہ ایک جوان، سمارٹ ٹرمپ ہو سکتے ہیں لیکن اعداد و شمار سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ ٹرمپ کو کیسے مات دیں گے۔

لیکن اعداد و شمار بدل بھی سکتے ہیں۔ سابق صدر ٹرمپ کو درپیش قانونی مسائل شاید ان کو لے ڈوبیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ حالات ڈی سانٹس کے حق میں پلٹا کھا جائیں۔

اور ٹرمپ کی مہم واضح طور پر فلوریڈا کے گورنر کو سب سے بڑا خطرہ سمجھ رہی ہے۔ یہ واضح نہیں کہ ٹرمپ کی حمایت کرنے والے آزاد گروپ کتنا پیسہ اکھٹا کر چکے ہیں لیکن کئی اہم ریاستوں میں مہینوں سے ڈی سانٹس پر ٹی وی کے ذریعے حملے کیے جا رہے ہیں۔

دوسری جانب فلوریڈا کے گورنر کے پاس اپنا کافی پیسہ ہے۔

گذشتہ ماہ کے اختتام پر ’فرینڈز آف ڈی سانٹس‘ نامی فنڈ میں، جو ان کے گورنر الیکشن کے لیے اکھٹا کیا گیا تھا اور صدارتی امیدوار کے الیکشن کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے، 88 ملین ڈالر موجود تھے۔

اس کے علاوہ ایک آزادانہ کمیٹی کے پاس 30 ملین ڈالر موجود ہیں جسے ان کے حمایتی مہم میں استعمال کر سکتے ہیں۔

ان کے مقابلے میں ٹرمپ 2023 کے پہلے تین ماہ میں تقریبا 19 ملین ڈالر اکھٹا کر سکے۔ دیگر ری پبلکن امیدوار اس سے بھی کم پیسے رکھتے ہیں۔

امریکہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

فلوریڈا کے گورنر ری پبلکن نامزدگی کے مقابلے سے قبل اہم ریاستوں میں مقامی حکام اور طاقتور حلقوں سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ آئیوا کے حالیہ دورے کے دوران تین درجن سے زیادہ مقامی قانون ساز ان کی حمایت کا اعلان کر چکے ہیں۔

بدھ کے دن ان کی مہم کا باقاعدہ آغاز ایک اور موقع ہے۔ ٹوئٹر پر ایلون مسک سے گفتگو اور فوکس نیوز کو انٹرویو دینا ان کی جانب سے اپنی مہم کو ایک پراثر انداز میں شروع کرنے کی کوشش ہے۔

جب گرد بیٹھ جائے گی تو شاید ڈی سانٹس ہی ری پبلکن امیدوار بن جائیں۔ لیکن اس وقت ان کو جو بائیڈن اور ڈیموکریٹس کا مقابلہ کرنے کے لیے نئے چیلنجز کا سامنا ہو گا۔

قدامت پسند پالیسیوں کی حمایت ری پبلکن ووٹر کے لیے تو شاید کافی ہو لیکن اسقاط حمل جیسے معاملات پر ان کا موقف اعتدال پسند ووٹر کے لیے ہضم کرنا مشکل ہو گا۔

لیکن یہ اگلے سال کا مسئلہ ہے۔ آنے والے چند ماہ کے دوران ڈی سانٹس کے لیے اور کافی مسائل ہیں۔

BBCUrdu.com بشکریہ