افغانستان میں اشرف غنی حکومت کے خاتمے سے قبل مچی افراتفری، جب صدارتی محل سے ہدایات آنا بند ہو گئیں
- محمد مادی، احمد خالد اور سید عبداللہ نظامی
- بی بی سی نیوز
جلال آباد میں 15 اگست 2021 کو طالبان ایک گاڑی میں سوار گشت کر رہے ہیں
طالبان نے اقتدار کھونے کے 20 سال بعد اب پھر افغانستان میں نئی حکومت قائم کرنے کا اعلان کیا ہے۔
ایک ایسی نسل جو تعلیم، بین الاقوامی سرمایہ کاری، اور جمہوری مستقبل کی امید کے ساتھ بڑی ہوئی، ان کے لیے یہ اعلان شاید ناقابلِ یقین ہو۔
لیکن سوال یہ ہے کہ صدر اشرف غنی کی حکومت اتنی جلدی کیسے گِر گئی؟
طالبان نے ملک میں کسی بڑے شہر کا کنٹرول سنبھالنے سے کابل کے دروازے تک پہنچنے میں صرف دس دن لگائے۔
مگر خیال کیا جا رہا تھا کہ دارالحکومت کا معاملہ ذرا مختلف ہو گا۔ زیادہ تر تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ جب تک مذاکرات کے ذریعے معاہدہ ہو گا تب تک کابل پر طالبان کا قبضہ نہیں ہو سکے گا۔
مگر اتوار 15 اگست کو سب کچھ بدل گیا۔
چند ہی گھنٹوں میں صدر اور اعلیٰ عہدے دار فرار ہو چکے تھے۔ افغان فوج اور پولیس کے اہلکاروں میں جو بچ گئے، انھوں نے اپنے یونیفارم اتارے اور کہیں چھپ گئے۔
کھربوں ڈالر کی عسکری امداد اور بیس سال کی تربیت والی مغربی ممالک کی حمایت یافتہ افغان حکومت ایسے غائب ہو گئی جیسے کہ برف پگھل جاتی ہے۔
مختلف ذرائع سے انٹرویو کر کے بی بی سی نے افغان حکومت کے آخری چند گھنٹوں کی کہانی جاننے کی کوشش کی ہے۔
سنیچر 14 اگست
افغانستان کے سابق صدر اشرف غنی اور سابق افغان وزیر دفاع جنرل بسم اللہ خان محمدی 14 اگست سنہ 2021 کو کابل میں کور ہیڈ کوارٹر کے دورے پر آئے تھے
اعلیٰ سطحی ذرائع کے مطابق اس صبح اشرف غنی کے قریبی لوگ پریشان تھے مگر وہ خوفزدہ نہیں تھے۔
دارالحکومت کو محفوظ بنانے کے لیے ایک پلان تشکیل دیا جا چکا تھا اور یہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل علی زئی اور افغانستان میں اعلیٰ ترین امریکی ملٹری افسر ایڈمیرل ویسلی کے درمیان زیرِ بحث تھا۔ اس منصوبے میں مرکزی نقطہ طالبان کو کابل کے باہر روکنے کے لیے مذاکرات تھے۔
ملک کے سب سے بڑے صوبے ہلمند کے سابق کمانڈر سمیع سادات کو کابل کی نئی سکیورٹی ٹیم کا سربراہ مقرر کیا جانا تھا۔ پلان کے مطابق اگر ضرورت پڑی تو افغان فوج طالبان سے لڑائی لڑے گی مگر کوشش یہ تھی کہ پُرامن طریقے سے مذاکرات کے ذریعے طالبان کو کابل میں داخل نہ ہونے کے لیے راضی کیا جائے۔
اور اگر ایسا نہ ہو سکا تو کابل انتظامیہ کم از کم انخلا کے لیے وقت لے گی۔
مگر جب لفٹیننٹ جنرل سادات ابھی اپنی ٹیم سے مل ہی رہے تھے کہ طالبان شمال میں سب سے بڑے شہر مزارِ شریف پر قبضہ کر رہے تھے اور مشرقی شہر جلال آباد میں گھس رہے تھے۔ یہ دونوں شہر بالکل انتہائی محدود مزاحمت کے بعد طالبان کے کنٹرول میں آ گئے۔
کابل طالبان کے قبضے میں آنے والا آخری شہر رہ گیا تھا۔
آئی ایم ایف کے سابق اہلکار اشرف غنی ستمبر 2014 سے افغانستان کے صدر منتخب ہوئے تھے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ انھوں نے طالبان کے خطرے کا آخری چند ہفتوں میں کئی بار غلط اندازہ لگایا۔
مگر ان کے ذہن میں افغانستان کے سابق صدر محمد نجیب اللہ کا انجام ضرور ہو گا۔ اشرف غنی نے اس بات کا ذکر اس وضاحتی پیغام میں بھی کیا جس میں انھوں نے بتایا کہ انھوں نے ملک کیوں چھوڑا۔
صدر نجیب اللہ کو افغان طالبان نے اس وقت گرفتار کیا تھا جب 1996 میں انھوں نے کابل پر قبضہ کیا تھا۔ نجیب اللہ سنہ 1992 میں مستعفی ہو گئے تھے، وہ افغان مجاہدین کے کابل پر قبضے کے بعد ملک سے باہر نہ جا سکے۔
اس لیے انھوں نے اقوام متحدہ کی عمارت میں پناہ لے لی تھی۔ سنہ 1996 میں طالبان نے انھیں کابل میں اقوام متحدہ کے کمپاؤنڈ سے گھسیٹ کر نکالا اور قتل کرنے کے بعد صدارتی محل کے باہر ٹریفک لائٹ پر ان کی لاش کو لٹکا دیا گیا۔
اتوار اگست 15
کابل میں 15 اگست کو افغان عوام عزیزی بینک کے باہر رقم نکلوانے کے لیے قطار لگائے کھڑے تھے
جیسے جیسے دن چڑھتا گیا، کابل کے رہائشیوں میں طالبان کے شہر کے دروازوں پر پہنچنے کی اطلاعات پھیل رہی تھیں۔ ایسی اطلاعات سن کر بے چینی بڑھنے لگی۔ ہوائی اڈے اور بینکوں پر قطاریں لگنا شروع ہو گئیں۔
مگر ابھی تک اشرف غنی کے قریبی ساتھیوں کا خیال تھا کہ کابل کا فوری طور پر سقوط نہیں ہو گا۔ کابل میں صدارتی محل میں کام کرنے والا سٹاف کے ارکان بھی عام دنوں کی طرح ڈیوٹی پر پہنچ گئے۔
گذشتہ دن ہونے والے مذاکرات کی وجہ سے بھی لوگوں کو حوصلہ ضرور ملا تھا کہ اتنی جلدی غیر یقینی کی صورتحال پیدا نہیں ہو گی۔ اشرف غنی کے قریبی ساتھی سلام رحیمی طالبان کے ساتھ پسِ پردہ بات چیت کر رہے تھے اور انھوں نے اس بات پر اتفاق کروا لیا تھا کہ طالبان طاقت کے زور پر کابل حاصل نہیں کریں گے اور اس کے بدلے انھیں عبوری حکومت میں مشترکہ اقتدار کی پیشکش کی گئی تھی۔
اس سے غیر ملکیوں کو ملک سے نکلنے کا وقت مل جاتا اور قطر میں جاری مذاکرات کے بھی کامیاب ہونے کا امکان بن جاتا۔
اشرف غنی 15 اگست سنہ 2021 کو فیس پک پر ایک ویڈیو میں نظر آئے
کابل کے رہائشیوں کو حوصلہ دینے کے لیے اشرف غنی کی ٹیم نے اتوار کو ایک ویڈیو شیئر کی جس میں انھیں اپنے وزیر داخلہ کے ساتھ شہر کے حفاظتی نظام پر بات چیت کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔
انھیں اپنی میز پر بیٹھے وزیر داخلہ کے ساتھ سپیکر پر فون پر بات کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔ اس ویڈیو سے ایسے لگ رہا تھا کہ طالبان کے ساتھ معاہدہ ہونے والا ہے اور کابل میں لڑائی نہیں ہو گی۔
مگر شاید یہ پیغام ان کے سینیئر وزرا کا بھی حوصلہ نہیں بڑھا سکا۔
بی بی سی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ صدر اپنی ٹیم کے سینیئر لوگوں تک بھی نہیں پہنچ پا رہے تھے۔ نائب صدر امراللہ صالح پہلے ہی پنجشیر وادی جا چکے تھے اور وزیر دفاع بسم اللہ خان سے رابطہ نہیں ہو رہا تھا۔ ان کا منصوبہ بگڑنے لگا تھا۔
ادھر ایک درجن بھر افغان سیاستدان ایک کمرشل پرواز سے اسلام آباد جانے کی تیاری کر رہے تھے۔ ان میں سابق نائب صدر کریم خلیلی، اور قومی اسمبلی کے سپیکر میر رحمان رحمانی موجود تھے۔
اس وفد کے ایک رکن اور وزارتِ ذراعت کے اہلکار ثاقب شریفی نے بعد میں یہ تسلیم کرنے سے انکار کیا کہ ان کا دورہ انخلا کی کوشش تھی۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ہمارا مقصد پاکستانی حکومت کی جانب سے مداخلت کی بات کر کے خون خرابا رکوانا تھا۔‘
مگر اشرف غنی نہیں چاہتے تھے کہ وہ جائیں۔ ثاقب شریفی کہتے ہیں کہ اشرف غنی کو خوف تھا کہ ہم کہیں کسی ایسے معاہدے کو منظور نہ کر لیں جس میں وہ اقتدار سے باہر ہو جائیں۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ہو سکتا ہے کہ صدر مزید افراتفری روکنے کے لیے ملک کے پارلیمانی سپیکر کو ملک چھوڑنے کی اجازت نہیں دینا چاہتے ہوں گے۔
ثاقب شریفی کہتے ہیں کہ وفد کے ساتھ ہوائی اڈے پر جاتے ہوئے انھوں نے شہر میں بڑے پیمانے پر خوف و ہراس دیکھا۔
کابل کے مضافتی علاقوں میں 15 اگست سنہ 2021 کے روز ٹریفک کا ہجوم
‘ہم نے سنا تھا کہ طالبان کابل کے دروازوں پر آ چکے ہیں مگر ہمارا خیال تھا کہ یہ اتنا جلدی نہیں ہو گا۔ پچھلی رات انتہائی پریشانی میں گزری تھی اور ہم اپنے ہتھیاروں کے ساتھ سوئے تھے۔‘
‘بینکوں کے باہر لوگوں کی قطاریں تھیں اور ڈالر نکالنے کی کوششیں جاری تھیں۔ ایئرپورٹ کے قریب بہت ٹریفک تھی۔‘
ٹریفک اتنی زیادہ تھی کہ نائب صدر خلیلی کو اتر کر پیدل 15 منٹ چلنا پڑا تاکہ وہ وقت پر ایئر پورٹ تک پہنچ سکیں۔
جب یہ لوگ ایئر پورٹ پہنچے تو انھیں طالبان کی پیش قدمی کی متواتر خبریں مل رہی تھیں۔ ‘ہر لمحے خبریں آ رہی تھیں کہ طالبان نے شہر کے اہم حصوں پر قبضے کر لیا ہے۔ یہ انتہائی خوفناک تھا۔‘
‘ایئر پورٹ کے اندر تمام نظم و ضبط تباہ ہو سکتا تھا۔‘
کابل ایئرپورٹ پر 15 اگست سنہ 2021 کو لوگوں کا ایک ہجوم جمع ہو چکا تھا
بی بی سی کے ایک رپورٹر نے لوگوں کو آخری کمرشل پروازوں کے لیے ٹکٹیں خریدنے کے لیے بھاگتے دیکھا۔ جیسے جیسے وی آئی پی آ رہے تھے، کچھ لوگوں کی ٹکٹوں کو منسوخ بھی کیا جا رہا تھا۔
آہستہ آہستہ سرحدی حکام اور ایئرپورٹ سکیورٹی اہلکار بھی غائب ہونا شروع ہو گئے اور لوگ ٹارمیک پر جانے لگے۔
آخرکار یہ وفد پی آئی اے کی ایک فلائٹ پر سوار ہو گیا۔ مگر اس طیارے کو ایئر ٹریفک کنٹرول نے اُڑنے کی اجازت نہیں دی۔
شریفی کہتے ہیں کہ ‘ہمارا خیال تھا کہ کسی لمحے بھی طالبان ایئرپورٹ پر قبضے کر لیں گے۔ ہم یہ سوچ رہے تھے کہ اگر وہ طیارے پر چڑھ آئے تو ہم اپنا دفاع کیسے کریں گے۔ مجھے بھاری چیز صرف لیپ ٹاپ کی بیٹری نظر آ رہی تھی۔‘
اتوار کی دوپہر
ادھر صدارتی محل میں، حالات بھی بگڑ رہے تھے۔ اشرف غنی ابھی تک دلیری کے ساتھ دفاع اور وزارت داخلہ میں اپنے اعلیٰ عہدیداروں تک پہنچنے کی کوشش کر رہے تھے۔ لیکن ظاہر ہے کہ انھیں کامیابی حاصل نہیں ہو رہی تھی۔
ایک سینیئر حکومتی عہدیدار نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘ایسا لگتا تھا کہ پوری حکومتی مشینری منہدم ہو چکی ہے اور لوگ، بشمول اعلیٰ عہدیداروں کے، گروہوں میں بٹ گئے ہیں۔ ان گروہوں میں سے کسی کو بھی دوسروں کے بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا۔’
‘ہم صدارتی محل سے رہنمائی کی توقع کر رہے تھے۔ لیکن وہاں سے کوئی ہدایت نہیں آرہی تھی۔’
خود اشرف غنی کے اردگرد کا حلقہ تیزی سے چھوٹا ہو رہا تھا جو باقی لوگوں سے الگ تھلگ ہو رہا تھا۔ کئی ذرائع نے بی بی سی کو بتایا کہ غنی کے ساتھ اہم فیصلے کرنے والے صرف ان کے قومی سلامتی کے مشیر حمد اللہ محب اور ان کے چیف آف سٹاف فضل فضلی تھے۔
امریکہ میں 38 سالہ مغربی تعلیم یافتہ سابق افغان سفیر حمد اللہ محب اشرف غنی کے سب سے قابل اعتماد معاون تھے۔ باوجود اس کے کہ محب کا کوئی فوجی یا سکیورٹی پسِ منظر نہیں ہے، اشرف غنی نے انھیں سنہ 2018 میں اپنا قومی سلامتی کا مشیر بنایا اور انھیں اہم فوجی فیصلے لینے کا اختیار دیا تھا۔
محل کے اندر ذرائع نے ہمیں بتایا کہ دوپہر کے قریب حمد اللہ محب نے زبردستی انخلا کے لیے زور دینا شروع کیا۔ ایک گھنٹہ پہلے محل کے باہر گولیوں کی آوازیں سنی گئی تھیں۔ وہاں موجود لوگوں کے مطابق اشرف غنی خود جانے سے گریزاں تھے۔ مسٹر محب نے صدر کو بتایا کہ ان کی جان کو خطرہ ہے۔
محل کے ایک اندرونی شخص نے کہا کہ ‘محب نے غنی کو بتایا کہ طالبان صدارتی محل کے راستے پر ہیں اور وہ انھیں پکڑ کر قتل کر دیں گے۔ وہ بہت پریشان تھے۔’
اسی دوران پورے کابل میں غیر یقینی صورتحال کا احساس گہرا ہوتا جا رہا تھا۔
افغانستان کے صوبے لغمان میں 15 اگست سنہ 2021 کے روز طالبان قابض ہو چکے تھے
کابل کے ایک رہائشی نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘میں دفتر میں تھا، تقریباً دوپہر کو دو بجے تک سوشل میڈیا شہر کے اندر طالبان جنگجوؤں کی موجودگی کی تصویروں سے بھرا ہوا تھا۔ ساتھیوں نے ملک چھوڑنے کے لیے اپنی چیزیں جمع کرنا شروع کر دی تھیں۔
’ہم ایک دوسرے سے بات نہیں کر رہے تھے۔ جب میں دفتر سے نکلا تو سڑکیں ہجوم سے بھری ہوئی تھیں۔ دکانیں بند تھیں۔ میں نے فائرنگ کی آوازیں سنی تھیں۔’
متعدد ذرائع بتاتے ہیں کہ صدر کے ذاتی سکیورٹی گارڈ ان کے محل سے فرار ہونے کے منصوبے کے خلاف تھے۔ جب تین ہیلی کاپٹر صدر غنی، ان کی اہلیہ اور ان کے ساتھیوں کو لے جانے کے لیے محل پر پہنچے تو جہاز میں سوار اور جو محافظ باقی تھے ان کے درمیان زور زور سے بحث کا شور مچ گیا تھا۔
عینی شاہدین کے مطابق جب لوگ ہیلی کاپٹر میں سوار تھے تو بیگ کو زمین پر پھینکے جانے کی اطلاع ملی تھی۔ کچھ رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ان میں موجود رقوم گارڈز کی ادائیگی کے لیے استعمال کی جانی تھیں۔ حالانکہ ان اکاؤنٹس کی تصدیق ناممکن ہے۔
مسٹر غنی نے خود متحدہ عرب امارات پہنچنے کے بعد پیغام میں ان الزامات کی تردید کی کہ انھوں نے کافی تعداد میں رقوم چھوڑی تھیں۔
تقریباً ساڑھے تین بجے صدر غنی اور ان کے قریبی ساتھی، بشمول حمد اللہ محب اور فضلی، ہیلی کاپٹروں میں سوار ہو کر محل سے روانہ ہو چکے تھے۔
انھوں نے ازبکستان کے شہر ترمذ کا رُخ کیا اور پھر وہاں سے وہ متحدہ عرب امارات کی جانب روانہ ہوئے۔ اس فرار کے بعد فاتح لیکن واضح طور پر حیران طالبان جنگجوؤں کی صدارتی محل میں اسی میز پر بیٹھے تصویروں کو دنیا بھر میں نشر کیا گیا جس پر چند گھنٹے پہلے صدر غنی چند بیٹھے تھے۔
ایک کتاب جو غنی کی صبح کی کانفرنس کال کے دوران میز پر موجود تھی، اب بھی وہاں ان تصویروں میں نظر آ رہی تھی۔ اسی صفحے پر بک مارک کیا گیا ہے، یعنی غنی کے جانے کے بعد شاید اُسے ابھی تک کسی نے چھوا تک نہیں تھا۔ لیکن اب طالبان ایک نئے باب کا آغاز کر رہے تھے۔
دوسری جانب ایئرپورٹ پر حکومت کے دیگر اعلیٰ عہدیدار اشرف غنی کا انتظار کر رہے تھے۔ غنی کے فرار ہونے کی خبر ابھی تک باہر نہیں نکلی تھی۔
ایک سینیئر حکومتی عہدیدار نے کہا کہ ‘میں لفظی طور پر دو درجن انتہائی اعلیٰ عہدیداروں کو گن سکتا ہوں، جن میں وزرا بھی شامل ہیں، جو ایئرپورٹ کے ٹارمک کے پاس بیٹھے انتظار کر رہے ہیں۔ ہر کوئی ایک دوسرے سے صدر غنی کے بارے میں پوچھ رہا تھا۔ لیکن ایسا لگتا تھا کہ کوئی نہیں جانتا کہ وہ کہاں ہیں۔‘
پی آئی اے کی پرواز پی کے 6250، شریفی اور ان کے وفد کے دیگر ارکان کے ہمراہ، پہلے سوار ہونے والے مسافروں کے ساتھ ساڑھے چار گھنٹے سے ایئرپورٹ پر ہی پھنسی ہوئی تھی۔ ایئر پورٹ کا ایئرٹریفک کنٹرول خاموش ہو گیا تھا۔
پائلٹ کو فیصلہ کرنا تھا۔
ایئرپورٹ کی دوسری جانب فوجی چنوک ہیلی کاپٹر میں اور دیگر امریکی فوجی طیاروں میں سوار ہو کر مسلسل روانہ ہو رہے تھے۔
اس کے بعد پائلٹ مقصود بجارانی نے بغیر اجازت اُڑان کے فیصلے پر زور دیا، یہ اُن کا ایک ایسا جرات مندانہ فیصلہ تھا جس کی وجہ سے انھیں بعد میں پاکستان میں ایک ہیرو تسلیم کیا گیا۔ انھوں نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ انھوں نے بس رن وے پر دو فوجی طیاروں کا پیچھا کیا تھا۔
مسٹر شریفی نے بعد میں افغان وفد کی اس حالات سے نجات کی کہانی بیان کی۔
’ہم بہت خوش تھے کہ ہماری پرواز آخر کار روانہ ہوئی، لیکن ہم ایک ہی وقت میں اداس بھی تھے کیونکہ ہمیں یقین نہیں تھا کہ ہم کب واپس آ سکیں گے۔‘
انھیں اس وقت تک اس بات کا علم نہیں تھا کہ صدر پہلے ہی فرار ہو چکے ہیں۔
کچھ دنوں بعد صدر اشرف غنی متحدہ عرب امارات سے فیس بک پر براہ راست نمودار ہوئے، جہاں انھیں ‘انسانی وجوہات’ کی بنا پر قیام کی اجازت دی گئی تھی۔
ان پر اب بہت زیادہ تنقید کی جارہی ہے کہ وہ ضرورت کی گھڑی میں اپنے ملک سے بھاگ گئے۔ اشرف غنی نے فیس بک پر اپنے بیان میں اپنے ملک سے فرار ہونے کے فیصلے کے بارے میں ریکارڈ درست کرنے کی کوشش کی۔
انھوں نے کہا کہ ‘کابل چھوڑنا میرا فیصلہ نہیں تھا۔ یہ میری قریبی سیکورٹی ٹیم کا فیصلہ تھا۔ اگر میں رہتا تو خونریزی ہوتی۔’
‘اور جو 25 سال پہلے افغانستان میں ہوا تھا وہ دوبارہ ہونے والا تھا۔ مجھے افغانستان کے لوگوں کی آنکھوں کے سامنے پھانسی پر لٹکا دیا جاتا اور یہ ہماری تاریخ کی ایک خوفناک تباہی ہوتی۔’
اگرچہ اتوار کی دوپہر طالبان نے جس رفتار سے کابل پر قبضہ کیا وہ کچھ لوگوں کے لیے حیران کن تھا، لیکن ملک کے دیگر خطوں میں بھی اسی قسم کی تیزی دیکھنے میں آئی۔
بی بی سی نیوز نے مقامی مذاکرات کے بارے میں کچھ معلومات حاصل کی ہیں جن کے مطابق، ایک جنوبی صوبہ طالبان کے حوالے کیا گیا۔
پاکستان کی سرحد پر واقع صوبہ زابل میں طالبان کے ایک ذرائع نے بتایا کہ سنہ 2014 میں اس صوبے سے امریکی فوج کے انخلا نے افغان فوج کو بغیر کسی مدد کے چھوڑ دیا تھا۔
زابل کے ضلع شنکے میں طالبان کی مذاکراتی ٹیم نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘جب امریکی افواج زابل آئیں تو انھوں نے پیشہ ورانہ چوکیوں اور اڈوں کا انتظام کیا۔ لیکن جب وہ چلے گئے تو افغان فوج ان لوگوں کو سپلائز پہنچانے میں ناکام رہی۔ طالبان نے ان کی سپلائی لائنز کاٹ دیں اور افغان فوج کے لیے کام کرنا ناممکن بنا دیا۔’
طالبان جنگجو، جنھوں نے پہلے ہی دیہی علاقوں کے بیشتر حصے پر کنٹرول حاصل کر لیا تھا، وہ آہستہ آہستہ چوکیوں پر قبضہ کر رہے تھے اور افغان فوج کو واپس اپنی بیرکوں میں داخل ہونے پر مجبور کر دیا تھا۔
سنہ 2021 کے وسط جون تک، زابل میں صورتحال واضح طور پر طالبان کے حق میں ہو گئی تھی۔
زابل کے ضلع شنکے میں طالبان کی ایک ایسی مذاکراتی ٹیم کے ایک رکن نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘ہم نے اپنی مقامی روایات کے مطابق قبائلی جرگے کے ساتھ مذاکرات کا فیصلہ کیا ہے۔‘
مذاکرات 15 جون سے دو دنوں کے لیے ہوئے تھے اور ہر طرف سے درجنوں نمائندے شامل تھے، جن کی قیادت ایک مقامی طالبان کمانڈر مخلص نے کی جس کی اور صدارت زابل کے نائب گورنر عنایت اللہ ہوتک نے کی۔ میز پر دو اہم موضوعات تھے: افغان فوج کی حفاظت کی ضمانت کیسے دی جائے، اور طالبان اور مقامی لوگوں کے درمیان ہتھیاروں کی تقسیم کیسے کی جائے۔
اگلے دن ایک معاہدہ طے پایا جس میں قبائلی رہنماؤں نے افغان فوج اور اسلحہ طالبان کے حوالے کرنے پر اتفاق کیا، جنھوں نے انھیں صوبائی دارالحکومت قلات کے محفوظ راستے سے لوٹنے کی ضمانت دی تھی۔
فوجیوں میں سے ہر ایک کو 5000 افغانی (تقریبا 55 ڈالر) ادائیگی، ذاتی تحفظ کے لیے ایک ہلکا ہتھیار اور شہر کو خالی کرنے کے لیے کافی گاڑیاں بھی حاصل تھیں۔
افغان فوج کے سینکڑوں اہلکاروں نے 16 جون کو طالبان کی نگرانی میں قلات جانے کے لیے شنکے چھوڑ دیا۔
ہمارے ذرائع کا کہنا ہے کہ ایک ایک کر کے زابل میں کئی اور مقامی بیرکوں نے اسی طرح کے معاہدوں پر دستخط کیے جو محفوظ راہداری کی ضمانت دیتے تھے۔
کچھ دن بعد، کابل پر بھی طالبان کا قبضہ ہو گیا۔
افغانستان میں بہت سے لوگوں کے لیے اتوار 15 اگست کا دن ان کی زندگی کا ایک ایسا موڑ ہے جہاں سے انھوں نے ایک روشن مستقبل والے دور سے بے یقینی والے مستقبل کی جانب سفر کا آغاز کیا۔
کابل کے ایک رہائشی نے ہمیں بتایا کہ جیسے جیسے رات گزری، ایک احساس ہوا کہ حالات ہمیشہ کے لیے بدل چکے ہیں۔
‘اب باہر ایک پُرسکون اندھیرا ہے اور خاموشی ہے۔ یہ اب تک کی سب سے افسوسناک رات ہے۔ کابل کی سانس رُک گئی ہے۔’
Comments are closed.