hookup que significa california hookup bar asian girls hookup sites like craigslist gina valentina melissa moore hookup hotshot hookup Millerton hookup Monmouth Junction NJ

بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

’سیاستدان مجھ سے جھوٹی خبریں پھیلانے کا کام لیتے ہیں‘

فلپائن الیکشن اور فیک نیوز: ’سیاستدان مجھ سے جھوٹی خبریں پھیلانے کا کام لیتے ہیں‘

  • کیلین ڈیولن
  • بی بی سی مانیٹرنگ

Anonymous person at a computer

،تصویر کا ذریعہGetty Images

جنوب مشرقی ایشیائی ملک فلپائن میں جھوٹی خبروں اور سوشل میڈیا پر افواہوں کے سلسلے کے درمیان عوام پیر کو ملک کا نیا صدر چننے جا رہے ہیں۔

جان (فرضی نام) ایک ایسی صنعت کا حصہ ہیں جس کا ملک کے نئے صدر کو چننے میں کلیدی کردار ہو سکتا ہے۔

وہ اپنا تعارف کرواتے ہوئے کہتے ہیں کہ ‘میں خود کو ایک ٹرول سمجھتا ہوں اور سیاسی نقطہ نظر سے بات کی جائے تو میں سوشل میڈیا مارکیٹنگ کنسلٹنٹ ہوں۔’

وہ کہتے ہیں کہ وہ اکثر دنوں صبح 10 بجے سے تین بجے تک کام کرتے ہیں اور اس دوران سینکڑوں فیس بک پیج اور جعلی اکاؤنٹ چلاتے ہیں جن سے ان کے کلائنٹس، سیاست دانوں اور ان کی مہم چلانے والوں، کا فائدہ ہوتا ہے۔

ان کا دعویٰ ہے کہ ان کی خدمات حاصل کرنے والوں میں گورنرز، کانگریس اراکین اور میئرز شامل ہیں۔

پیر کو فلپائن کے عوام نہ صرف اگلے صدر بلکہ دیگر عہدوں کے لیے نامزد امیدواروں کو بھی ووٹ ڈالیں گے۔

یہ سنہ 2016 میں صدر روڈریگو دوترتے کے انتخاب کے بعد سے پہلے انتخابات ہیں اور اُن انتخابات کے بارے میں ناقدین بارہا یہ بات کر چکے ہیں کہ یہ جھوٹی خبروں کے ایک سلسلے کی بدولت جیتا گیا تھا۔

Fake IDs

،تصویر کا ذریعہPhoto supplied

مواد پر جائیں

پوڈکاسٹ
ڈرامہ کوئین
ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

الیکشن کی نگرانی کرنے والوں اور جعلی خبروں پر نظر رکھنے والے ماہرین کے مطابق صورتحال اس کے بعد سے بہتر نہیں ہوئی، بلکہ بدتر ہو گئی ہے۔

جعلی خبروں کا نظام

جان جعلی خبروں کے ایکوسسٹم کا حصہ ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان کے لیے تقریباً 30 ‘ٹرولز’ کام کرتے ہیں۔ ان کا مقصد اپنے گاہکوں کے لیے حمایت اکٹھی کرنا ہے چاہے اس دوران وہ جھوٹی خبریں ہی کیوں نہ پھیلا رہے ہوں۔

وہ کہتے ہیں کہ وہ خفیہ طور پر اس طرز کا کام کئی برسوں سے کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کبھی کبھار وہ مخالفین کے بارے میں ایسی خفیہ معلومات تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو ان کے لیے شرمندگی کا باعث بن سکتی ہے۔

یہ مخالفین کے خلاف تحقیق کرنے کے لیے ایک عام روایت ہے۔ تاہم دیگر موقعوں پر وہ بہت ساری باتیں خود سے گھڑ لیتے ہیں۔

وہ ایک سیاستدان کے مخالف کے بارے میں غلط معلومات پھیلانے پر کہتے ہیں کہ ‘سنہ 2013 میں ہم نے ایک ایسے صوبے میں جعلی خبریں پھیلائیں جس کی نگرانی میں کر رہا تھا۔

‘ہم نے ایک مشہور سیاستدان کا فون نمبر حاصل کیا اور اسے فوٹو شاپ کر کے اس سے ایک پیغام بھیجا جس میں ان کا روپ دھار کر یہ کہا گیا کہ مجھے ایک داشتہ کی ضرورت ہے۔ آخرکار اس سے میرے کلائنٹ کو فائدہ ہوا۔’

Facebook accounts

،تصویر کا ذریعہPhoto supplied

اس دعوے کی تصدیق کے لیے بی بی سی کو ان فیس بک اکاؤنٹس کی ویڈیوز بھیجی گئی ہیں جو ان کی جانب سے چلائی جاتی ہیں۔

اس کے علاوہ جن افراد کے ساتھ وہ کام کرتے ہیں ان کے ساتھ گفتگو کے واٹس ایپ سکرین شاٹس، بینک سلپس اور جعلی شناختی کارڈ اور سم کارڈ بھی بھیجے گئے تاکہ فیس بک کے تصدیق کے مراحل سے آسانی سے آگے بڑھا جا سکے۔

ان کی جانب سے اپنے تحفظ کے بارے میں خدشات ظاہر کرنے کی بنا پر ہم ان کی شناخت کو مخفی رکھ رہے ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ اس کے علاوہ ایک اور طریقہ جو وہ استعمال کرتے ہیں وہ غیر سیاسی پیجز اورگروپس بنانا ہے جو آخر کار سیاسی پراپیگنڈا پھیلانے کا باعث بنتے ہیں۔

میٹا کا کہنا ہے کہ فلپائن میں اس نے متعدد ایسے نیٹ ورکس کو ہٹایا ہے جنھوں نے لوگوں کو جعلی خبروں کی ذریعے دھوکہ دینے کی کوشش کی۔ ان میں 400 اکاؤنٹ، پیج اور گروپس شامل ہیں جنھوں نے فیس بک کی پالیسیوں کی خلاف ورزی کی۔

Leni Robredo

،تصویر کا ذریعہGetty Images

کھلا راز

ملک میں ہونے والے انتخابات سے قبل اکثر رہنماؤں نے جھوٹی خبروں کے نتائج پر ہونے والے اثرات کے حوالے سے اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے۔

فلپائن کے ایک نیوز چینل کو دیے گئے انٹرویو میں صدارتی امیدوار لینی روبریدو کا کہنا تھا کہ آغاز میں ان کی جانب سے جعلی خبروں کو نظر انداز کرنے کی روش ‘ناکام’ رہی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘بار بار دہرائے جانے والے جھوٹ، سچ بن جاتے ہیں۔’

ایک اور صدارتی امیدوار اور سابق باکسر مینی پیکیاؤ نے بھی فیک نیوز اور جعلی خبروں کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے بات کی ہے۔

ہارورڈ یونیورسٹی میں ایسوسی ایٹ پروفیسر اور جعلی خبروں کے پھیلاؤ سے متعلق تحقیق کرنے والے جانیتھن کارپس اونگ کہتے ہیں کہ ‘جو ہم دیکھ رہے ہیں وہ پیلٹ فارمز، فیکٹ چیکرز اور محققین کے درمیان ایک بلی اور چوہے کی لڑائی جیسی ہے جو اس قسم کی جعلی خبریں پھیلانے والوں کو بے نقاب کر رہے ہیں اور یہ آپریٹرز خفیہ رہنے کی کوشش کر رہے ہیں۔’

سنہ 2018 میں اونگ ایک ایسی رپورٹ کے شریک مصنف تھے جس میں ایک سال کے عرصے میں متعدد خفیہ انٹرویوز کیے گئے جن میں ایسے سٹریٹیجسٹس اور ڈیجیٹل ورکرز سے بات کی گئی تھی جو فلپائن میں جعلی خبریں پھیلانے والوں کی پشت پر تھے۔

اس رپورٹ میں وہ ان خیالات کا اظہار کرتے ہیں کہ جعلی خبریں پھیلانے میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جس میں تشہیر کرنے والے اور رائے عامہ سے متعلق حکمت عملی بنانے والے افراد شامل ہیں جو انفلوئنسرز اور جعلی اکاؤنٹ بنانے والوں کو اکٹھا کرتے ہیں۔

اونگ کا دعویٰ ہے کہ یہ ایک ‘کھلا راز’ ہے کہ یہ لوگ کون ہیں، حالانکہ ان کی جانب سے کی گئی ادائیگیاں خفیہ طریقے سے کی جاتی ہیں۔

People in the Philippines celebrating martial law

،تصویر کا ذریعہFacebook/BBM Youth

منظم انداز

فلپائن میں ایسے گروپس بھی موجود ہیں جو جعلی خبروں کے خلاف کام کر رہے ہیں جن میں وکلا، چرچ لیڈرز، یونیورسٹیاں اور میڈیا کے ادارے شامل ہیں۔

بی بی سی کی جانب سے اس بارے میں چند ماہرین سے بات کی گئی ہے جن میں سیلین سیمسن شامل ہیں جو ویرا فائلز نامی ادارے میں فیکٹ چیکرز کی ٹیم کی سربراہ ہیں۔ ٹوی لا ویدا سے بھی بات کی گئی جو ڈس انفارمیشن مخالف تحریک کے سربراہ ہیں۔

دونوں نے ہی منظم انداز میں جھوٹی خبریں پھیلانے کی نشاندہی کی جن میں متعدد پیجز سے بار بار پوسٹ کرنے کے علاوہ پلیٹ فارمز پر ایک مخصوص وقت میں پوسٹ کرنے کی حکمت عملی واضح ہے۔

رواں برس کے آغاز میں ایک تحقیق شائع کی گئی تھی جس میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ اس وقت صدارتی دوڑ میں سب سے آگے فرڈیننڈ ’بونگ بونگ‘ مارکوس جونیئر کو فیک نیوز سے سب سے زیادہ فائدہ ہو رہا ہے جبکہ ان کی مخالف لینی روبریدو اس سے سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہیں۔

مارکوس سینیئر کا دورِ اقتدار، جو سنہ 1986 تک دو دہائیوں پر محیط تھا، کو ماورائے عدالت ہلاکتوں اور مخالفین پر تشدد کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ اس دوران 70 ہزار افراد کو جیل بھیجا گیا، 34 ہزار پر تشدد کیا گیا اور 3240 کو ہلاک کیا گیا۔

سیمسن کہتی ہیں کہ ’ہم نے سنہ 2021 میں الیکشن سے متعلق جھوٹی خبروں کے بارے میں تحقیق کی اور اس سے ہمیں یہ معلوم ہوا کہ اس میں سے زیادہ تر بونگ بونگ مارکوس کی حمایت میں کی گئی تھی۔ اس میں ان کے خاندان کے بارے میں یہ بتایا گیا تھا کہ وہ حکومتی خزانے سے دولت چوری نہیں کرتے تھے اور ان کے والد کا کبھی انسانی حقوق کی پامالیوں میں کوئی حصہ نہیں تھا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم نے (سوشل میڈیا پر) روبریدو پر ہونے والے کئی حملوں کو بھی دیکھا جس میں انھیں نااہل یا غیر منطقی بیانات دینے والی کے طور پر دکھایا گیا تھا۔‘

Ferdinand 'Bong bong' Marcos Jr

،تصویر کا ذریعہGetty Images

’فیملی ری برانڈنگ‘

کیمبرج اینالٹیکا کے بارے میں انکشافات کرنے والی برٹنی کیسر کا سنہ 2020 میں فلپائن کے خبروں کے ادارے ریپلر کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہنا تھا کہ مارکوس جونیئر نے سنہ 2016 میں کمپنی سے اپنے خاندان کا بہتر تاثر پیش کرنے کے لیے مدد مانگی تھی۔

بونگ بونگ مارکوس کے ترجمان نے اس وقت ان دعوؤں کی تردید کی تھی اور اسے ’مکمل طور پر جھوٹا، جعلی اور گمراہ کن قرار دیا تھا۔‘

اس سال کے آغاز میں ٹوئٹر نے اعلان کیا تھا کہ ان کی جانب سے ایسے سینکڑوں اکاؤنٹس کو بند کیا گیا ہے جو بونگ بونگ مارکوس کے حمایتی ہیں اور ٹوئٹر کی پالیسیوں کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

ہم نے جب مارکوس جونیئر کی انتخابی مہم سے اس بارے میں بات کی تو ان کی جانب سے اس خبر کی اشاعت سے پہلے تک کوئی جواب نہیں آیا۔

انٹرویوز کے دوران بونگ بونگ مارکوس کہتے ہیں کہ وہ فیکٹ چیکرز کے ’نشانے پر ہیں‘ جن کا ان کے نزدیک اپنا ’سیاسی ایجنڈا‘ ہے۔ انھوں نے اپنی مہم کے لیے ٹرول اکاؤنٹس کے استعمال کی تردید کی ہے۔

Voters in the Philippines

،تصویر کا ذریعہGetty Images

کیا پلیٹ فارمز روک تھام کے لیے کام کر رہے ہیں؟

جان، جو خود کو ٹرول کہتے ہیں، بتاتے ہیں کہ انھیں ان کے ایک دوست کی جانب سے ایک صدارتی امیدوار کے لیے جھوٹی خبریں پھیلانے کے لیے کہا گیا تو انھوں نے منع کر دیا۔ بی بی سی کی جانب سے اس دعوے کی آزادانہ تصدیق نہیں کی جا سکی۔

جان نے اس صدارتی امیدوار کا نام نہیں بتایا تاہم یہ کہا کہ وہ بونگ بونگ مارکوس نہیں تھے۔

ٹوئٹر اور فیس بک کی جانب سے متعدد اکاؤنٹس اور پیجز کے خاتمے اور معطلی کے بعد یوٹیوب جس کی ملکیت گوگل کے پاس ہے کا کہنا ہے کہ فروری 2021 اور جنوری 2022 کے درمیان فلپائن سے اپ لوڈ کی جانے والی چار لاکھ وڈیوز ہٹائی گئی ہیں۔

تاہم اس حوالے سے سوال اب بھی موجود ہے کہ کیا یہ کافی ہے۔

سیمسن کہتی ہیں کہ ’جتنی دیر میں کوئی جعلی خبر بنائی جاتی ہے اس سے کہیں زیادہ وقت اسے جھوٹا ثابت کرنے میں لگتا ہے۔‘

اضافی رپورٹنگ: میکائیلا پاپا

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.