ہفتہ 4؍شعبان المعظم 1444ھ25؍فروری 2023ء

جیمزویب دوربین کے انکشاف سے کہکشاؤں کی تشکیل کے مروجہ ماڈل ناکام ہوگئے

پیساڈینا، کیلیفورنیا: جیمزویب خلائی دوربین سے دیکھی گئی کچھ اہم ترین کہکشاؤں کو دیکھ کر معلوم ہوا ہے کہ انہیں اپنے ابتدائی درجے میں ہونا چاہیئے تھا لیکن وہ مکمل طور پر نموپذیر اور بڑی ہیں۔

جدید ترین خلائی رصدگاہ سے اب ہم نے چھ ایسی کہکشائیں دیکھی ہیں جو کائنات کی پیدائش کی وجہ بننے والے بگ بینگ واقعے کے انتہائی ابتدائی دور یعنی 50 سے 70 کروڑ سال پہلے بن گئی تھیں۔ اب تک ہم سمجھتے رہے تھے کہ اس مختصر مدت کے بعد بننے والی کہکشائیں اپنے ابتدائی درجے میں ہوں گی لیکن اس مختصر عرصے میں بھی وہ بھرپور تشکیل سے گزررہی ہیں اور مکمل طور پر نموپذیرکہکشاں ہیں۔

ہفت روزہ سائنسی جریدے نیچر میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق یہ دریافت کہکشاں کے بننے کے متعلق ہمارے مروجہ نظریات کو چیلنج کرتی ہے۔ پینسلوانیا اسٹیٹ یونیورسٹی کے ماہرِ فلکیات جویئل لیجا اور ان کےساتھیوں کہ کائنات بننےکے فوراً بعد ہم بہت چھوٹی، ابتدائی اور بچہ کہکشاں کی توقع کررہے تھے لیکن وہاں تو ہماری اپنی (ملکی وے) جیسی کہکشاں ہی ملیں جو حیرت انگیز بات ہے۔

جیمزویب کی انوکھی خاصیت

ہم جانتے ہیں کہ جیمزویب عام مرئی (وزیبل) روشنی کی بجائے، زیریں سرخ (انفراریڈ) روشنی دکھاتی ہے۔ اس کے حساس اور جدید ترین آئینے اتنی دور دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں کہ ہم ماضی میں پیچھے جاکر تخلیقِ کائنات کی ابتدائی صورت میں بھی جھانک سکتے ہیں۔ جدید تحقیقات بتاتی ہیں کہ اب سے 13.7 ارب سال قبل کائنات بگ بینگ سے وجود میں آئی تھی جبکہ جیمزویب خلائی دوربین 13.5 ارب سال قدیم عکس بھی دکھاسکتی ہے اور دکھا بھی رہی ہے۔

پروفیسر جوئیل کے مطابق مٹھی بھر ان کہکشاؤں نے ہمارے مروجہ 99 فیصد ماڈلوں کو یکسرمسترد کردیا ہے جو ہم نے کہکشانی تشکیل کے متعلق سوچ رکھے تھے۔ اب ہمیں کہکشاؤں کی پیدائش، ارتقا اور تشکیل کے عمل پر نئے سرے سے غورکرنا ہوگا۔ ان نظریات کی اکثریت بتاتی ہے کہ کہکشائیں گیس اور بادلوں کے چھوٹے بادل کے اجتماع سے بنتی ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ فروغ پاتی رہتی ہیں، تاہم اس میں بہت وقت لگتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ابتدائی کائنات میں کہکشاں کی تشکیل کے نظریات پر کئی سوالات اٹھ گئے ہیں۔

واضح رہے کی جیمزویب سے یہ تصاویر گزشتہ برس جولائی میں سامنے آئی تھیں جن یہ ستاروں بھری کہکشائیں روشنی کے بڑے نقطوں کی صورت میں دکھائی دے رہی تھیں۔ پہلے ماہرین اسے غلطی سمجھیں لیکن بار بار ڈیٹا پروسیسنگ کے باوجود کہکشائیں اتنی ہی بڑی اور واضح نکلیں۔

پھر ماہرین نے احتیاط سے ڈیٹا کا طیف (اسپیکٹرم) پڑھا اور ان کی دوری کی بار بار تصدیق بھی کی۔ یوں اب معلوم ہوا ہے کہ ابتدائی کائنات کی کمیت ہماری توقع سےبھی 100 گنا زائد ہے اور اب یہ مسئلہ ماہرین کو طویل عرصے تک سوچ وبچار میں مصروف رکھ سکتا ہے۔

You might also like

Comments are closed.