برسوں تک کیوبا کے لیے جاسوسی کرنے والے سفارت کار کا کیس، جس نے امریکی حکومت کو ہلا کر رکھ دیا

روچا

،تصویر کا ذریعہAFP VIA GETTY IMAGES

،تصویر کا کیپشن

مینوئیل روچا پر الزام ہے کہ وہ 1981 سے کیوبا کو امریکہ کے خلاف معلومات فراہم کرنے میں مدد کر رہے تھے

جب امریکہ کے سابق سفیر مینوئیل روچا کو حال ہی میں میامی میں گرفتار کیا گیا اور امریکی حکومت نے اُن پر کیوبا کے ایجنٹ کے طور پر 40 سال سے زیادہ عرصہ کام کرنے کا الزام عائد کیا، تو یہ اس صدی کے سب سے بڑے جاسوسی سکینڈلز میں سے ایک تھا۔

امریکی اٹارنی جنرل میریک گارلینڈ نے روچا کے مبینہ جرائم کو ’ایک غیر ملکی ایجنٹ کی جانب سے امریکی حکومت کی سب سے زیادہ اور طویل عرصے تک جاری رہنے والی دراندازیوں میں سے ایک‘ قرار دیا۔

اگرچہ مینوئل روچا نے ابھی تک کوئی درخواست دائر نہیں کی لیکن بہت سے مبصرین اس بات پر حیران ہیں کہ وہ اتنے طویل عرصے تک یہ سب کیسے کرتے رہے اور امریکہ کے خفیہ اداروں کی آنکھوں سے کیسے اوجھل رہے۔ نہ صرف یہ بلکہ وہ کیسے امریکی سفارتی اہلکار کے طور پر اتنا اونچا مقام حاصل کر سکتے تھے۔

بظاہر ایک سخت گیر قدامت پسند کے طور پر شہرت حاصل کرنے والے روچا خفیہ طور پر کیوبا کے انقلاب سے گہری وفاداری رکھتے تھے۔

ایف بی آئی کے ایک خفیہ افسر کی جانب سے ریکارڈ کیے گئے شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ امریکہ کو ’دشمن‘ قرار دے رہے ہیں، کیوبا کے مرحوم رہنما فیڈل کاسترو کی تعریف کر رہے ہیں اور دہائیوں تک اپنی دوہری شناخت کو کامیابی کے ساتھ برقرار رکھنے پر فخر کر رہے ہیں۔

ایک شخص جو اس سب معاملے کے سامنے آنے کے بعد حیران نہیں ہوئے، وہ سینٹرل انٹیلیجنس ایجنسی (سی آئی اے) میں کاؤنٹر انٹیلیجنس کے سابق سربراہ جیمز اولسن تھے۔ ان کے پاس کیوبا کی انٹیلیجنس سروس جنرل ڈائریکٹوریٹ آف انٹیلیجنس (ڈی جی آئی) سے متعلق کافی معلومات ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’میں انھیں شاید سب سے زیادہ خطرناک انٹیلیجنس سروس کے طور پر درجہ دوں گا جس کے خلاف میں نے اب تک کام کیا۔‘

سی آئی اے کے سابق ایجنٹ اولسن کا کہنا ہے کہ یہ خیال کہ کیوبا نے مبینہ طور پر چار دہائیوں تک روچا کو ’چلایا‘ وہ ان کے طریقہ کار کا حصہ ہے، خاص طور پر نظریاتی جاسوسوں کے ساتھ جو کرائے کے جاسوسوں کے برعکس تھے۔

روچا

،تصویر کا ذریعہREUTERS

،تصویر کا کیپشن

بہت سے مبصرین اس بات پر حیران ہیں کہ مینوئل روچا اتنے طویل عرصے تک یہ سب کیسے کرتے رہے

’انھوں نے ہمیں مارا‘

جیمز اولسن بتاتے ہیں کہ جون 1987 میں کیوبا کے ایک جاسوس فلورنٹینو سپیلاگا ویانا میں امریکی سفارتخانے میں داخل ہوئے۔ انھوں نے امریکیوں کو جو گواہی دی اس نے امریکی انٹیلیجنس کے سربراہوں کو حیران کر دیا اور فیدل کاسترو کے جاسوسی نیٹ ورک کی وسعت اور صلاحیت کا انکشاف کیا۔

اولسن یاد دلاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’سپلاگا نے مجھے کچھ بہت پریشان کن باتیں بتائی تھیں۔ انھوں نے کہا کہ کیوبا کے ڈی جی آئی نے کامیابی کے ساتھ ہمارے خلاف 38 ڈبل ایجنٹ چلائے ہیں۔ لہٰذا ہر وہ ایجنٹ جس کے بارے میں ہم نے سوچا تھا کہ ہم نے جزیرے پر بھرتی کیا، درحقیقت ڈی جی آئی کے کنٹرول میں تھا۔‘

یہ بات اب بھی سی آئی اے کے ریٹائرڈ اہلکار کو پریشان کرتی ہے کہ ان کے اپنے اعتراف کے مطابق کیوبا کے لوگوں نے اس سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔

’وہ ہمارے مالک تھے۔ انھوں نے ہمیں مارا۔ یہ ایک وجہ ہے کہ مجھے کیوبا کی انٹیلیجنس سروس کے خلاف ذاتی بغض ہے کیونکہ وہ ہمارے خلاف کارروائی کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔‘

یہ بھی پڑھیے

واضح رہے کہ امریکہ اور کیوبا کے تعلقات 60 سال قبل اس وقت سردمہری کا شکار ہو گئے تھے جب فیدل کاسترو کی سربراہی میں باغیوں نے امریکہ نواز حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔ 1960 میں کیوبا میزائل بحران کے وقت امریکہ نے بحری ناکہ بندی بھی کر دی تھی۔

تاہم سابق امریکی صدر باراک اوبامہ اور کیوبا کے راول کاسترو نے 2015 میں تعلقات بحال کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے لیکن پھر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں ان اقدامات پر پیشرفت ختم کر دی گئی۔

ایک اعلی سفارتکار کی حیثیت سے، مینوئل روچا کو خفیہ اور حساس انٹیلیجنس معلومات تک رسائی حاصل تھی۔ امریکی حکومت اب اس بات کا تعین کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں رہتے ہوئے انھوں نے مبینہ طور پر کیوبا کے ہینڈلرز کو اس رقم کا کتنا حصہ دیا۔

دوسری جانب کیوبا نے مینوئل روچا، ان کی گرفتاری یا میامی میں ان پر عائد الزامات کے بارے میں کوئی تبصرہ نہیں کیا۔

جب بھی جاسوسی یا اس کا ذکر کیا جاتا ہے تو کیوبا کا بنیادی موقف یہ ہوتا ہے کہ وہ کمیونسٹ کے زیر انتظام حکومت کو اقتدار سے ہٹانے کی کوشش کرنے والی 60 سال سے زائد عرصے سے مسلسل امریکی انتظامیہ سے انقلاب کا دفاع کرنے کے لیے ہر طریقہ استعمال کرنے پر مجبور ہے۔

کیوبا کے سب سے مشہور سابق جاسوسوں میں سے ایک جیرارڈو ہرنینڈز ہیں۔ وہ کیوبا کے پانچ انٹیلیجنس افسران کے ایک گروہ کے سربراہ تھے جنھوں نے 1990 کی دہائی میں فلوریڈا میں کاسترو مخالف کیوبا کے امریکی گروہوں میں دراندازی کی تھی۔

انھیں 1998 میں جاسوسی کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا اور انھوں نے 16 سال جیل میں گزارے تھے جس کے بعد اوبامہ دور میں ہوانا کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے ایک حصے کے طور پر رہا کیا گیا تھا۔

ہوانا میں ایک خصوصی انٹرویو میں جیرارڈو ہرنینڈز نے الزام عائد کیا کہ امریکہ کاسترو مخالف مسلح گروہوں کو اپنی سرزمین پر ’آزادانہ طور پر‘ کام کرنے کی اجازت دے رہا ہے، جس سے کیوبا کو ’اس قسم کی (خفیہ) معلومات حاصل کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔‘

جاسوس
،تصویر کا کیپشن

کیوبا کے سب سے مشہور سابق جاسوسوں میں سے ایک جیرارڈو ہرنینڈز ہیں

اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ وہ ایک انٹیلیجنس افسر کی حیثیت سے بہت پہلے ریٹائر ہو چکے ہیں، انھوں نے تسلیم کیا کہ کیوبا اور امریکہ کی جاسوسی ان کے کھلے عام مخالفانہ دوطرفہ تعلقات کا ایک اہم حصہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اگر اس وقت کیوبا کے خلاف دہشت گردی کی منصوبہ بندی کرنے والے لوگ موجود ہیں تو شاید کیوبا کے محب وطن وہ معلومات حاصل کر رہے ہوں گے جو ہمیں اپنے ملک کی حفاظت کے لیے درکار ہیں۔‘

مینوئل روچا کے مقدمے کی سماعت سے قبل کیوبا کی کونسل آف سٹیٹ کے بااثر رکن جیرارڈو ہرنینڈز نے اس کیس کے بارے میں خاموشی اختیار کر رکھی ہے اور کہا ہے کہ وہ صرف وہی جانتے ہیں جو انھوں نے خبروں میں پڑھا۔

تاہم، اسی کے ساتھ ساتھ وہ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ نظریاتی جاسوس، جیسا کہ وہ خود 1990 کی دہائی میں تھے، ان کا سراغ لگانا مشکل ہوتا ہے اور وہ ان لوگوں کے مقابلے میں اپنی تجارت میں زیادہ مہارت رکھتے ہیں جو پیسے کے لیے اس میں شامل ہوتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’جو شخص پیسے یا منافع سے نہیں بلکہ اپنے سکون کے لیے کچھ کرتا ہے وہ اس شعبے میں ہمیشہ ایک خاص مقام رکھتا ہے۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ