’اسرائیلی حملے‘ میں مارے جانے والے حزب اللہ کے ایلیٹ یونٹ ’رضوان‘ کے سینیئر کمانڈر وسام التویل کون ہیں؟

وسام

،تصویر کا ذریعہHEZBOLLAH MEDIA OFFICE

لبنان میں ایرانی حمایت یافتہ عسکری گروہ حزب اللہ نے تصدیق کی ہے کہ ملک کے جنوبی علاقے میں ہونے والے ایک حملے میں اس کے سینیئر کمانڈر کی ہلاکت ہوئی ہے۔

وسام حسن التویل حزب اللہ کے ایلیٹ فوجی یونٹ ’رضوان‘ کے سینیئر کمانڈرز میں سے ایک تھے۔

حزب اللہ کا کہنا ہے کہ وسام جس گاڑی میں سوار تھے اسے جنوبی لبنان میں نشانہ بنایا گیا۔ دھماکے کے بعد تباہ شدہ گاڑی کی تصاویر جاری کی گئی ہیں۔

فی الحال حزب اللہ نے وسام التویل کی موت سے متعلق مزید تفصیلات نہیں دیں تاہم خبر رساں اداروں ’روئٹرز‘ اور ’اے ایف پی‘ نے لبنان کے سکیورٹی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ انھیں اسرائیلی حملے میں ہلاک کیا گیا۔

وسام التویل پر حملہ ایک ایسے وقت میں ہوا جب اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو لبنان کے قریب اسرائیل کی شمالی سرحد کا دورہ کر رہے تھے۔

تین سکیورٹی ذرائع نے روئٹرز کو بتایا کہ حزب اللہ کے ایلیٹ یونٹ رضوان کے سینیئر کمانڈر کو شمالی لبنان میں اسرائیلی حملے میں ہلاک کیا گیا۔

لبنان کی سرکاری خبر رساں ایجنسی نے کہا کہ ’البدشہ‘ نامی علاقے میں مقامی وقت کے مطابق 10 بج کر 15 منٹ پر ایک ’اسرائیلی ڈرون حملہ‘ ہوا جس میں دو افرار مارے گئے ہیں تاہم اس رپورٹ میں ہلاک ہونے والوں کے نام نہیں بتائے گئے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ حملے کے بعد گاڑی تباہ ہو گئی اور اس میں آگ بھڑک گئی۔

جائے وقوعہ سے لی گئی تصاویر میں سڑک کے کنارے ایک جلی ہوئی کار کے ملبے کو دکھایا گیا ہے۔

لبنانی سیکورٹی ذرائع نے بتایا کہ حملے میں ہلاک ہونے والوں میں سے ایک وسام التویل تھے جبکہ دوسرا شخص بھی حزب اللہ کا جنگجو تھا۔

دوسری جانب خبر رساں ایجنسی اے ایف پی نے ایک اور ذریعے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ لبنان کے جنوب میں حزب اللہ کی کارروائیوں میں وسام التویل کا اہم کردار تھا۔

بعد ازاں حزب اللہ نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے وسام التویل کی موت کا اعلان کیا اور انھیں ایک اہم ’کمانڈر‘ قرار دیا۔ تاہم اس بات کی تصدیق نہیں کی گئی کہ وہ اس ڈرون حملے میں مارے گئے بلکہ صرف اتنا کہا کہ وہ ’بیت المقدس کی راہ کے ایک شہید ہیں۔‘

اسرائیلی حکام نے تاحال حزب اللہ کے کمانڈر کی موت پر تبصرہ نہیں کیا۔

وسام التویل

،تصویر کا ذریعہHEZBOLLAH MEDIA OFFICE

تاہم مبینہ ڈرون حملے کے واقعے کے کچھ ہی دیر بعد اسرائیل نے ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ اس کی افواج نے شمالی اسرائیلی قصبے کریات شمونہ کی طرف ٹینک شکن میزائل داغے جانے کے بعد ’لبنانی علاقے کے متعدد علاقوں کو نشانہ بنایا ہے۔‘

بیان میں مزید کہا گیا کہ ’اس کے علاوہ (اسرائیلی فضائیہ) کے لڑاکا طیاروں نے لبنان میں حزب اللہ کے دہشت گردوں کے اہداف کو نشانہ بنایا جس میں وہ ٹھکانے بھی شامل ہیں جہاں سے حزب اللہ کے دہشت گرد کارروائیاں کرتے تھے۔‘

حزب اللہ ایک ایرانی حمایت یافتہ گروپ ہے جو لبنان میں فوجی اور سیاسی طاقت رکھتا ہے۔ اسے اسرائیل، برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک نے دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہے۔

سات اکتوبر کو غزہ کی پٹی میں اسرائیل اور فلسطینی گروپ حماس کے درمیان جنگ شروع ہونے کے بعد سے اس کے جنگجوؤں کا سرحد پر تقریباً ہر روز اسرائیلی فورسز کے ساتھ فائرنگ کا تبادلہ ہوتا رہا ہے۔

اسرائیل کے وزیر اعظم نے پیر کے روز لبنان کے ساتھ سرحد پر تعینات فوجیوں کو بتایا کہ وہ ’شمال میں امن کی بحالی کے لیے ہر ضروری اقدام کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔‘

حزب اللہ کا ایلیٹ یونٹ رضوان کیا ہے؟

رضوان یونٹ

وسام التویل کے بارے میں یہ کہا گیا ہے کہ وہ حزب اللہ کے ایلیٹ یونٹ رضوان کے سینیئر ڈپٹی کمانڈر تھے۔

ایرانی پاسدارانِ انقلاب کے قریب سمجھے جانے والے ذرائع ابلاغ نے امریکی حملے میں ہلاک ہونے والے القدس فورس کے کمانڈر قاسم سلیمانی کے ساتھ اُن کی تصاویر شائع کی ہیں۔ ان کی بعض تصاویر حزب اللہ کے اہم ارکان حسن نصراللہ اور عماد مغنیہ کے ساتھ بھی ہیں۔

رضوان یونٹ میں حزب اللہ کی سب سے تجربہ کار اور باصلاحیت افراد کو شامل کیا جاتا ہے جن کے بارے میں خیال ہے کہ یہ اس سے قبل شام میں تعینات رہ چکے ہیں۔

حماس کے اسرائیل پر سات اکتوبر کے حملے کے بعد ایسی اطلاعات سامنے آئی تھیں کہ لبنان اور اسرائیل کے سرحدی علاقوں میں رضوان یونٹ کے دستوں کو تعینات کیا گیا۔

یہ سمجھا جاتا ہے کہ رضوان کا نام حزب اللہ کے بانی رکن عماد مغنیہ کی عرفیت ’حاج رضوان‘ سے لیا گیا ہے۔ وہ 2008 کے دوران شام کے دارالحکومت دمشق میں ایک دھماکے میں ہلاک ہوئے تھے۔

ایرانی میڈیا کے مطابق اندازاً 2500 افراد پر مشتمل یہ یونٹ جدید اسلحے سے لیس ہے اور اس میں حملوں کی صلاحیت موجود ہے۔

متعدد ذرائع کے مطابق شام کی جنگ میں رضوان یونٹ کو میدان جنگ میں خاص طور پر قصیر اور قلمون کی لڑائیوں میں شاندار تجربہ حاصل ہے۔ اس لڑائی میں اس یونٹ نے باقاعدہ شامی افواج کے شانہ بشانہ حصہ لیا تھا۔

یکم جنوری 2023 کو حزب اللہ کے جنگی انفارمیشن یونٹ نے کنکریٹ کی دیوار کے ایک حصے کو اڑا کر رضوان یونٹ کے جنگجوؤں کی اسرائیلی علاقے میں دراندازی کی ایک مشق کی ویڈیو شائع کی تھی۔

گذشتہ سال مئی میں بھی حزب اللہ نے اسرائیل پر حملے کی مشق کرتے ہوئے رضوان یونٹ کی ایک اور ویڈیو شائع کی تھی۔ اس مشق میں ایک فوجی پریڈ اور ڈرون یا دراندازی کے ذریعے اسرائیل کو نشانہ بنانے والے حملے شامل تھے۔

یہ ویڈیو کلپ اس وقت اسرائیل کے چیف آف سٹاف ہرزی ہیلیوی نے نشر کیا تھا جس میں انھوں نے انٹیلیجنس اہلکاروں کو ’رضوان‘ یونٹ کی حد سے حد سے زیادہ تشہیرکے خلاف خبردار کیا تھا۔

لبنان اور اسرائیل کے درمیان سرحدی جھڑپیں کئی ماہ سے جاری ہیں۔ مگر بیروت میں حماس کے سینیئر رہنما صالح العاروری کی ہلاکت کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔

اسرائیلی حکومت کے ترجمان نے الزام لگایا کہ حزب اللہ نے غیر ضروری طور پر لبنان کو اس جنگ میں دھکیلا ہے۔

اس سے قبل شام میں ایرانی پاسدارانِ انقلاب کے کمانڈروں میں سے ایک ’سید رازی‘ کے نام سے جانے جانے والے رازی موسوی کی رہائش گاہ پر میزائل حملے نے بھی خطے میں جنگ کے پھیلنے کا خطرہ بڑھا دیا تھا۔

رازی موسوی ’شام میں مزاحمتی تحریک کی حمایت کے ذمہ دار تھے‘ اور انھیں لبنان کی حزب اللہ کے قریبی شخصیات میں شمار کیا جاتا تھا۔

رضوان یونٹ

یہ بھی پڑھیے

خطے میں جنگ پھیلنے کا خطرہ

گذشتہ روز حزب اللہ نے اعلان کیا کہ تھا اس نے ایک کامیاب آپریشن میں اسرائیلی بیرکوں اور شمالی اسرائیل میں ایک ریڈار تنصیب سمیت فوجی ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔

پیر کی سہ پہر اسرائیلی فوج نے ایک بیان میں کہا تھا کہ لبنان سے ایک ’مشتبہ فضائی حملے‘ جس سے کفار بلم کے علاقے میں سائرن بجنے لگے تھے کے بعد وہاں جوابی فضائی کارروائی کی گئی ہے۔

اس کا مزید کہنا تھا کہ ماؤنٹ ڈو کی جانب کیے گئے ٹینک شکن حملے میں ایک اسرائیلی فوجی معمولی زخمی ہوا تھا۔

اس میں مزید کہا گیا کہ ایک اسرائیلی فوجی بھی ٹینک شکن میزائل سے ہلکا زخمی ہوا جسے ماؤنٹ ڈوف کی طرف فائر کیا گیا۔

اسرائیلی فوج کا بھی کہنا ہے کہ رات کے وقت اس نے بھی ’حزب اللہ کے متعدد اہداف‘ پر حملہ کیا ہے۔

اس صورتحال کے باعث خطے میں کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے جبکہ دمشق میں ایران کے سفیر حسین اکبری نے کہا ہے کہ خلیج فارس کے ایک ملک کا وفد امریکہ کا پیغام لے کر 10 دن پہلے ایران پہنچا ہے۔

شام میں ایرانی سفیر کے مطابق یہ پیغام ایران کو ’خطے کے مسائل حل کرنے کے لیے‘ بھیجا گیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ ایران نے اس خط کا جواب دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ ’تہران کے اتحادیوں کو حق خود ارادیت، عمل کی آزادی اور سیاسی آزادی حاصل ہے اور ہم اس معاملے میں ان کے متبادل نہیں ہیں۔‘

واضح رہے کہ گذشتہ تین ماہ کے دوران سرحد پار سے ہونے والے دو طرفہ حملوں میں حزب اللہ کے درجنوں جنگجوؤں کے ساتھ ساتھ کئی اسرائیلی فوجی اور اسرائیلی اور لبنانی شہری بھی مارے جا چکے ہیں۔ لیکن اب تک حزب اللہ نے اسرائیل کے ساتھ مکمل جنگ سے بچنے کے لیے اپنے اقدامات کو محدود رکھا ہے۔

گذشتہ ہفتے حزب اللہ کے مضبوط گڑھ بیروت میں اسرائیلی حملے میں حماس کے نائب رہنما صالح العاروری اور چھ دیگر افراد کی ہلاکت پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے حسن نصر اللہ نے اسرائیلی حکام کو تنازع شروع کرنے کے خلاف خبردار کیا تھا۔ انھوں نے کہا تھا کہ جو بھی ہمارے ساتھ جنگ کا سوچے گا وہ پچھتائے گا۔

تاہم یہ بات بھی اہم ہے کہ حزب اللہ کے رہنما کی طرف سے اپنی کارر وائیوں کو بڑھانے کی کوئی دھمکی نہیں دی گئی تھی۔

لبنان میں بہت سے لوگوں کو 2006 میں اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان ایک ماہ تک جاری رہنے والے تنازع کی وجہ سے ہونے والی تباہی اب بھی یاد ہے اور لبنان ایک بڑے معاشی بحران سے دوچار ہے۔ اور ایسے میں وہاں کسی عسکری تصادم کے لیے عوامی حمایت نہیں ہے۔

پیر کو وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو نے کریات شمونہ کے ایک اڈے پر فوجیوں سے کہا کہ وہ ’حزب اللہ کو پیغام بھیجنا چاہتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’حزب اللہ نے 2006 میں ہمارے ساتھ لڑ کے ایک بہت بڑی غلطی کی تھی اور وہ اب بھی ایسا ہی کر رہا ہے۔ اس نے سوچا کہ ہم ’مکڑی کے جالے‘ کی طرح آسان ہدف ہیں۔ جلد ہی اس کا پتا چل گیا کہ یہ کس قسم کی ’مکڑی‘ تھی۔ اسے یہاں لوگوں کی اتحاد کی بڑی قوت دکھائی دیتی ہے جو شمال میں امن اور سیکورٹی کی بحالی کے لیے ہر ضروری اقدام اٹھانے کا عزم رکھتے ہیں۔‘

امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن، جو اپنے حالیہ علاقائی دورے پر عرب رہنماؤں سے ملاقاتیں کر رہے ہیں، کشیدگی میں کمی لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

BBCUrdu.com بشکریہ