جب لندن کی سڑکوں پر شراب کا جان لیوا سیلاب آیا

لندن

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

19ویں صدی کے اوائل میں لندن کا ایک منظر

  • مصنف, وقار مصطفیٰ
  • عہدہ, صحافی و محقق

شراب کی ٹینکی میں نصب لوہے کا کڑا پھسلنا اور اس کی مرمت معمول کی بات تھی۔ اسی لیے جب 17 اکتوبر 1814 کی سہ پہر لندن کی ’ہارس شُو بریوری‘ کے نگران نے ایک ٹنکی کا کڑا اُترا دیکھا تو مرمت کے لیے پیغام لکھنے چلے گئے۔

1764 سے قائم یہ بریوری صرف سیاہ رنگ کی بیئر ’پورٹر‘ ہی بناتی تھی۔ اس مشروب کی مقبولیت کی وجہ سے برطانیہ کی دو بڑی کمپنیوں میں سے ایک، ہنری میو اینڈ کمپنی کی ملکیت اس بریوری میں سال بھر میں ایک لاکھ بیرل پورٹر تیار ہوتی تھی۔

صحافی کرسٹوفر کلین لکھتے ہیں کہ بریوری کے سٹور ہاؤس میں لکڑی کی 22 فٹ اونچی ٹنکیوں میں پورٹر کا خمیر اٹھایا جاتا تھا۔

’ان کے گرد لوہے کے کئی بھاری چھلے ہوتے۔ کچھ چھلوں کا وزن ایک ٹن تک ہوتا۔ بھری ہوئی ایک ٹنکی میں تقریباً 3,555 بیرل (پانچ لاکھ لیٹر سے زیادہ) بیئر ہوتی تھی۔‘

مرمت کا پیغام ابھی نگران کے ہاتھ ہی میں تھا کہ شام 5.30 بجے انھوں نے سٹور کی جانب سے بہت زور سے کسی چیز کے گرنے کی آواز سُنی۔ وہ آواز کی جانب لپکے۔

صحافی مارٹن کورنل نے لکھا ہے کہ وہاں وہ یہ دیکھ کر خوفزدہ ہو گئے کہ وہی مرمت طلب ٹینکی پھٹ چکی تھی اور اس حادثے میں بریوری کی 25 فٹ اونچی دیوار اور زیادہ تر چھت گر چکی تھی۔

اس سے بڑھ کر یہ کہ سٹور ہاؤس کا سپرنٹنڈنٹ اور ان کا اپنا بھائی، کئی دوسرے زخمی کارکنوں کے ساتھ ملبے تلے بے حرکت پڑے تھے۔‘

اینٹوں اور ملبے کی بارش سے قریبی نیو سٹریٹ میں دو مکانات منہدم ہو گئے اور ایک اندازے کے مطابق چھ سے 14 لاکھ لیٹر بیئر لیے 15 فٹ بلند بپھری لہر بریوری سے نکل پڑی۔

اس کا رُخ فیکٹری کے پیچھے واقع کچی آبادی سینٹ جائلز رُوکری کی طرف تھا۔

سینٹ جائلز، 17ویں صدی میں ایک امیر خاندان برین برِج، کی مغربی لندن میں زمین پر آباد ہوئی تھی۔

’منافع کے لالچ میں اس پر تیز رفتار مگر ناقص تعمیر ہوتی گئی۔ نتیجہ تاریک گلیوں اور گنجان کھولیوں کی صورت میں نکلا۔ اٹھارویں صدی تک یہ گنجان آباد رُوکری لندن کی جرائم کے لیے بدنام کچی آبادیوں میں سے ایک شمار کی جانے لگی۔ یہاں غریب، بے روزگار، مجرم اور بہت سے آئرش تارکین وطن رہتے تھے۔

’ان مکانات میں لوگ یوں بھرے ہوتے کہ راہداریوں اور کچن میں بھی ان کی رہائش ہوتی۔ بعض اوقات کئی خاندان ایک ہی کمرے میں رہتے۔‘

جان ڈنکوم ’دی ڈینز آف لندن ‘ میں لکھتے ہیں کہ انیسویں صدی کی ابتدا تک جائلز میں جرائم، جسم فروشی اور گندگی کا عروج تھا۔

’کیجنگ ہاؤسز‘ کہلانے والے مرغیوں کے دڑبوں جیسے گھر تھے جہاں آوارہ منش افراد پناہ لیتے۔ پولیس بھی بھول بھلیوں جیسی گلیوں اور ان میں بنی کھولیوں کا رخ نہ کرتی۔‘

جائلز میں اس روز ابھی شام نہیں ہوئی تھی لوگ اپنی روزمرہ زندگی میں مصروف تھے۔

ناقص نکاسی آب یہاں عام طور پر غیر صحت بخش حالات اور بیماری کے پھیلاؤ کا باعث بنتی تھی۔ شراب کا سیلاب آیا تو اس کی وجہ سے گھر بھی ڈوبے اور یہ لوگ بھی۔

ایسے میں بچاؤ کی کوششیں تیزی سے شروع ہوئیں۔ لوگ کمر تک بیئر میں ڈوبے بچ جانے والوں کی تلاش کر رہے تھے۔ تباہی کا خوفناک اثر واضح تھا، زخمی اور پریشان لوگ سڑکوں پر تھے، رو رہے تھے اور پھنسے ہوئے اپنے پیاروں کی چیخیں سُن کر تیزی سے ان کے اوپر سے ملبہ اٹھانے لگے۔

اس حادثے کی تباہی کے بارے میں پتا 19 اکتوبر 1814 کو ہونے والی کورونر تحقیقات میں گواہوں کے بیانات سے چلتا ہے۔

لندن

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ابتدا میں یہ خدشہ تھا کہ مرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہو گی کیونکہ سینٹ جائلز میں تقریباً ہر تہہ خانہ آباد تھا تاہم، جب سیلاب تھما تو معلوم ہوا کہ کل آٹھ افراد ہلاک ہوئے۔ ان میں سے زیادہ تر خواتین اور بچے تھے۔

بہت سے لوگ زخمی ہوئے جن میں بریوری کے 31 کارکن بھی شامل تھے۔ آفت کے قریب ہونے کے باوجود، ان میں سے کوئی بھی کارکن ہلاک نہیں ہوا۔

تحقیقات کے دوران ہی میں تماشائیوں کا ایک بڑا ہجوم سیلاب کا منظر دیکھنے پہنچ گیا۔ یہاں تک کہ کلین کے مطابق شراب خانے کے کارکنوں نے حادثے کی جگہ کو دیکھنے کے لیے لوگوں سے معاوضہ لینا بھی شروع کر دیا۔

کارنل کا کہنا ہے کہ آج بھی یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ لواحقین نے مرنے والوں کی لاشوں کو دیکھنے آنے والوں سے بھی معاوضہ لیا اور یہ کہ لوگ اتنی بڑی تعداد میں اس عمارت میں گھس گئے کہ وہ فلور جہاں لاشیں رکھی گئی تھیں گر گیا اور یہ ’سیاح‘ نیچے بیئر سے بھری کوٹھری میں جا گرے۔‘

’انیسویں صدی میں لاشیں یقینی طور پر سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہوتی تھیں لیکن اس بات کا کوئی عصری ثبوت نہیں ہے کہ ایسا بیئر کے اس سیلاب کے بعد بھی ہوا تھا۔‘

کورونر تحقیقات سے پتا چلا کہ سیلاب کی شدت اس وجہ سے زیادہ تھی کہ ایک ٹینکی کے پھٹنے سے دوسری ٹنکیوں پر دباؤ اتنا بڑھا کہ وہ بھی قائم نہ رہ سکیں۔ تحقیقات میں یہ طے پایا کہ اموات بریوری کی غلطی سے نہیں بلکہ ’اتفاق سے حادثاتی طور پر اور بدقسمتی سے‘ ہوئی تھیں۔

یوں ان خاندانوں کو کوئی معاوضہ ادا نہیں کیا گیا جنھوں نے اپنے پیاروں، اپنے گھروں اور اپنے مال کو کھو دیا۔

یہ بھی پڑھیے

لندن

،تصویر کا ذریعہThe Rookeries of London: Past, Present, and Prospective. by Thomas beames

کلین کے مطابق کمپنی کو نقصان کا تخمینہ 23 ہزار پاونڈ ( آج کی رقم میں دس لاکھ پاونڈ سے زیادہ) لگایا گیا۔ اسے دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے، حکومت نے پیشگی لیا گیا ایکسائز ٹیکس واپس کرتے ہوئے کمپنی کو 7250 پاونڈ ادا کیے جو آج کے تقریباً چار لاکھ پاونڈ بنتے ہیں۔

حکومت سے تو متاثرین کو مدد نہ ملی مگر لندن کے دیگر علاقوں سے آنے والے لو گوں نے جن میں سے زیادہ تر خود غریب تھے جو بن سکا عطیہ دیا تاکہ مرنے والوں کی مناسب تدفین ہو سکے۔

بین جانسن کی تحقیق ہے کہ ایک افواہ تسلسل سے یہ اڑتی رہی کہ سیلاب کے بعد کے دنوں میں مقامی لوگ گلیوں میں بہتی بیئر کی ندیوں سے نشے میں دھت ہوتے رہے۔ یہاں تک کہا گیا کہ ’کچھ لوگوں نے اتنی پی لی کہ موت کے منھ میں چلے گئے۔‘

تاہم، سیلاب کے بعد بڑے پیمانے پر عوامی نشے کی یہ بات مارٹن کارنیل تسلیم نہیں کرتے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس قسم کے رویے کی کوئی ہم عصر اخباری رپورٹس نہیں ملتیں۔

’متاثرہ علاقہ میں آئرش تارکین وطن بڑی تعداد میں رہتے تھے۔انھیں لندن والے ناپسند کرتے تھے۔ اگر اس طور سے شراب نوشی کی گئی ہوتی تو وہاں کے اخبارات کیا انھیں بُرا بھلا کہنے کا موقع گنوا دیتے؟‘

بہرحال انیسویں صدی میں سینٹ جائلز اور دیگر کچی آبادیوں کو گرا کر نیو آکسفورڈ سٹریٹ بنائی گئی۔ یہ آج لندن کا مہنگا کاروباری علاقہ ہے۔ بریوری بھی نہ رہی اور اب وہاں ڈومینین تھیئٹر ہے۔

ایک تبدیلی اور بھی آئی۔

امریکی لکھاری ٹام کلیون کے مطابق ’لندن بیئر فلڈ‘ کہلائے گئے حادثے کے بعد لکڑی کی بڑی ٹینکیوں کو شراب کی تیاری سے مرحلہ وار باہر کر دیا گیا اور ان کی جگہ کنکریٹ کی ٹینکیوں نے لے لی۔ شاید اسی لیے پچھلے 210 سال میں ایسا کوئی حادثہ پھر رونما نہیں ہوا۔

BBCUrdu.com بشکریہ