افغانستان میں طالبان کی پیش قدمی میں تیزی، صدر اشرف غنی واشنگٹن پہنچ گئے
کئی علاقوں میں شہری بھی طالبان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں
افغانستان کے صدر ڈاکٹر اشرف غنی ایک اعلیٰ سطحی وفد کے ہمراہ جمعرات کو امریکہ کے دو روزہ دور پر واشنگٹن پہنچے ہیں جہاں وہ امریکہ کے صدر جو بائیڈن سے ملاقات کریں گے۔
کابل میں صدارتی محل سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا کہ صدر غنی امریکی صدر جو بائیڈن کے علاوہ کانگریس اور سینیٹ کے ممبران اور متعدد دیگر عہدیداروں سے بھی ’دوطرفہ تعلقات اور ان تعلقات کا ایک نیا باب‘ شروع کرنے پر بات چیت کریں گے۔
صدارتی بیان کے مطابق ان مذاکرات میں خاص طور پر افغان سکیورٹی فورسز اور دفاعی دستوں کی حمایت جاری رکھنے پر بات چیت کی جائے گی۔
دوسری جانب افغانستان میں امریکہ اور نیٹو افواج کے انخلا کی آخری تاریخ گیارہ ستمبر کے قریب آنے کے ساتھ ساتھ طالبان کی پیش قدمی میں تیزی آ گئی ہے اور تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ملک کے 421 اضلاع میں سے 85 اضلاع پر طالبان اپنے قبضہ جما چکے ہیں۔
افغان وفد میں صدارتی محل کے مطابق نائب صدر امراللہ صالح، قومی مفاہمتی کونسل کے چیئرمین عبداللہ عبد اللہ، وزیر خارجہ حنیف اتمر، مشیر قومی سلامتی حمد اللہ محب کے علاوہ دو خواتین اور افغان آزاد انسانی حقوق کمیشن کے سربراہ بھی شامل ہیں۔
بی بی سی افغان سروس کے مطابق بیان میں مزید کہا گیا کہ ’تعلقات میں ایک نیا باب شروع کرنے، سفارتی تعلقات کو مستحکم کرنے، افغان افواج کو مالی وسائل اور اسلح فراہم کرنے، انسداد دہشت گردی اور افغانستان کے ساتھ اقتصادی اور ترقیاتی تعاون پر زور دینے کا مطالبہ کیا جائے گا۔‘
امریکہ اور نیٹو افواج کے افغانستان سے چلے جانے کے بعد کابل حکومت کے مستقبل کے بارے میں شدید خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
ڈاکٹر اشرف غنی کے واشنگٹن پہنچنے پر امریکی اخبار وال سٹریٹ جرنل نے ان خدشات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ افغان حکومت امریکی فوج کے انخلا کے چھ ماہ بعد ہی گر سکتی ہے۔
دریں اثنا بی بی سی افغان سروس کی تازہ ترین اطلاعات کے مطابق طالبان نے غزنی میں قرباغ، فاریاب میں گریزیوان اور اروزگان صوبے میں چرچینوں پر قبضہ حاصل کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
بی بی سی افغان نے روزگان کے گورنر کے حوالے سے اطلاع دی ہے کہ فوجی کمیشن نے چارچینیو ضلع میں فوجی اڈے کو ترننکوٹ منتقل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
سرکاری عہدیداروں نے دوسرے اضلاع کے بارے میں کوئی تبصرہ نہیں کیا لیکن صرف غزنی کے ضلع قرباغ کے رہائشیوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس خبر تصدیق کی کہ یہ ضلع طالبان کے کنٹرول میں ہے۔
طالبان کے ساتھ دوحہ میں مذاکرات کے بعد افغانستان سے امریکی اور نیٹو ممالک کی افواج کے انخلا کی تاریخ 21 مئی مقرر کی گئی تھی لیکن بعد میں امریکہ میں نئی انتظامیہ کے اقتدار میں آنے کے بعد انخلا کو 11 ستمبر تک مکمل کرنے کا اعلان کیا گیا۔
طالبان نے انخلا کی تاریخ کو مؤخر کیے جانے کو دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی قرار دتیے ہوئے نتائج کے بارے میں خبردار کیا تھا۔
مئی کے مہینے میں طالبان ہر ہفتے کسی نئے ضلع پر قبضہ کر رہے تھے لیکن یکم جون کے بعد سے ان کارروائیوں میں تیزی آ گئی ہے اور اب ہر روز کئی کئی اضلاع طالبان کے ہاتھوں میں جا رہے ہیں۔
کئی جگہوں کے بارے میں افغان حکومت کا کہنا ہے کہ اس نے ’دفاعی حکمت عملی‘ کے تحت اور شہریوں کی جانیں بچانے کے لیے ان اضلاع سے پسپائی اختیار کی ہے۔ بعض جگہوں کے بارے میں اس کا کہنا ہے شہریوں کے مفاد اور تحفظ کے پیشں نظر افغان سکیورٹی فورسز کے اڈے کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کر دیا گیا ہے۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کابل کے ایک ٹی وی چینل کو جون کی 22 تاریخ کو ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ طالبان نے ڈیڑھ ماہ کے عرصے میں 83 اضلاع پراپنا قبضہ جما لیا ہے۔
حکومتی فورسز نے کچھ اضلاع پر دوبارہ قبضہ کر لیا ہے لیکن فریقین کی طرف سے متضاد اطلاعات موصول ہو رہی ہیں جن کی تصدیق کیا جانا مشکل ہے۔
ادھر ننگرہار سے موصولہ ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صوبے کے ضلع شیرزاد میں تیسری آرمی بریگیڈ کے کمانڈر کرنل نور جان ہلاک ہو گئے ہیں۔
سرکاری ذرائع نے بھی کرنل نور جان کی ہلاکت کی تصدیق کر دی ہے
ننگرہار کے گورنر کے ترجمان نے ان کی موت کی تصدیق کی لیکن مزید تفصیلات فراہم نہیں کیں۔
دریں اثنا صوبہ ارزگان کے صدر مقام ترینکوٹ میں سینکڑوں افراد نے طالبان کے خلاف ہتھیار اٹھائے ہیں اور حکومت کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔
گورنر کے دفتر نے ایک بیان میں کہا کہ وسطی ترینکوٹ میں سینکڑوں افراد نے رضاکارانہ طور پر اسلحہ اٹھایا ہے اور وہ طالبان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔
بیان کے مطابق ’عوامی مزاحمت میں سینکڑوں مذہبی سکالر، قبائلی عمائدین اور نوجوان جمع ہوئے اور اسلامی جمہوریہ افغانستان کی موجودہ حکومت کی بھرپور حمایت کی اور اس بات پر زور دیا کہ وہ کسی کو بھی اقتدار لینے کی اجازت نہیں دیتا ہے۔‘
طالبان کیا کہتے ہیں؟
طالبان کا کہنا ہے کہ کچھ حلقے عام لوگوں کو صرف اپنا اقتدار برقرار رکھنے کے لئے مزاحمت کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔
گروپ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ ان لوگوں کے خلاف کارروائی کرے گا جو لوگوں کو جنگ پر اکسا رہے ہیں اور عام شہریوں کو ہتھیار اٹھانے کی ترغیب دے رہے ہیں۔
تخار میں بھی کچھ لوگوں نے افغان حکومت کی حمایت کا اعلان کی ہے
یاد رہے کہ دو دن قبل اقوام متحدہ نے خبردار کیا تھا کہ افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے آخری دنوں میں طالبان کی طرف سے حملوں میں تیزی آ گئی ہے اور انھوں نے درجنوں اضلاع پر قبضہ کر لیا ہے۔
اقوام متحدہ کی خصوصی سفیر ڈیبورا لائنز نے سلامتی کونسل کو سنگین نتائج کے بارے میں خبردار کیا اور بتایا کہ مئی کے بعد سے جنگجوؤں نے افغانستان کے 370 اضلاع میں سے 50 اضلاع پر قبضہ حاصل کر لیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ افغانستان میں لڑائی بڑھنے سے دور اور نزدیک کے بہت سے ملکوں پر اثر پڑے گا۔
Comments are closed.