بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

سونے کے متلاشی کن کنوں کی ایمازون کے جنگلوں پر نظر

سونے کے متلاشی کن کنوں کی ایمازون کے جنگلوں پر نظر

  • ہیوگو باچیگا
  • بی بی سی نیوز

Illegal mining camp near the Uraricoera river

،تصویر کا ذریعہChristian Braga/Greenpeace

مئی کی 11 تاریخ کی دوپہر کو، داریو کوپیناوا کو ایک فون کال موصول ہوئی۔ فون کرنے والا بے حد پریشان تھا۔’انھوں نے ہم پر حملہ کر دیا ہے۔ انھوں نے تو تقریباً ہمیں ہلاک ہی کر دیا تھا۔’

داریو کوپیناوا برازیل میں ایمازون کے جنگلات میں قائم ایک دور دراز کے گاؤں میں مقامی افراد کے رہنما ہیں جہاں قریباً ایک ہزار افراد رہائش پزید ہیں اور وہاں تک پہنچنے کے لیے یا تو جہاز سے جایا جا سکتا ہے، یا ایک چھوٹی کشتی پر بہت طویل سفر کے بعد۔

داریو کوپیناوا کا تعلق یانومامی قبیلے سے ہے اور ان کو ایمازون کے بارانی جنگلات میں بسنے والی مختلف برادریوں سے اس طرح کے پریشان کن کالیں آتی رہتی ہیں لیکن یہ کال ذرا مختلف تھی۔

فون کرنے والے نے داریو کوپیناوا کو بتایا کہ حملہ آور ‘گارمپیروس’ تھے، یعنی غیر قانونی طور پر سونے کی کھوج لگانے والے لوگ تھے جو سات موٹر بوٹس پر خود کار اسلحہ لیے پہنچے اور اندھادھند فائرنگ شروع کر دی۔

داریو کوپیناوا کو فون کرنے والے کا تعلق بھی انھی کے قبیلے یانومامی سے تھا اور انھوں نے داریو کوپیناوا کو بتایا کہ قبائلی لوگوں نے اپنی بندوقوں اور تیر کمان سے مقابلہ کرنے کی کوشش کی۔ ایک مقامی شخص کے سر کو گولی چھو کر گزر گئی جبکہ چار کان کن زخمی ہو گئے۔

حملہ آور آدھے گھنٹے کے بعد روانہ ہو گئے لیکن دھمکی دیتے ہوئے گئے کہ وہ بدلہ لینے دوبارہ واپس آئیں گے۔

قبیلے کی خواتین اپنے بچوں کے ساتھ گھنے جنگلات میں پناہ لینے کے لیے بھاگ گئیں اور وہاں پر اتنی افرا تفری تھی کہ دو بچے جن کی عمریں پانچ برس اور ایک برس کی تھی، وہ دونوں ڈوب گئے۔

پالیمیو کے انڈیجینس علاقہ کا رقبہ پرتگال کے جتنا ہے اور وہاں رہنے والوں کی تعداد صرف 27 ہزار ہے۔ اس علاقے میں کان کنی کرنا غیر قانونی ہے لیکن کرنے والے پھر بھی راستہ نکال لیتے ہیں۔

داریو کوپیناوا کہتے ہیں کہ گارمپیروس وہاں ہر جگہ پھیلے ہوئے ہیں۔ وہ خود ان علاقوں میں جانے سے گریز کرتے ہیں کیونکہ انھیں قتل کیے جانے کی دھمکی ملی ہوئی ہے لیکن اس واقعے کے بعد انھوں نے حکام سے رابطہ کیا تاکہ اس حوالے سے کچھ کیا جا سکے۔

Screengrabs of video of attack shared by the Hutakara Association

1px transparent line

اگلے دن وفاقی پولیس کی ایک ٹیم پالیمیو کے علاقے آئی جہاں ان کے ساتھ جونئیر ہیکوکاری نے ملاقات کی جو مقامی انڈیجینس صحت کونسل کے سربراہ تھے۔ جب یہ لوگ علاقے سے جا رہے تھے تو جونئیر ہیکوکاری نے قریب چند کشتیوں کو دیکھا جن کے انجن بند تھے، جس سے اس انھوں نے اندازہ لگایا کہ یہ کشتیاں خود کو ظاہر کرنا نہیں چاہتیں۔

لیکن ان کشتیوں میں سوار لوگ جیسے جیسے قریب آتے گئے، انھوں نے گاؤں والوں پر فائرنگ شروع کر دی۔

ہیکوکاری کہتے ہیں کہ ان کے ساتھ پولیس کی ٹیم نے خود کو متعارف کرانے کے لیے پولیس پولیس کے نعرے لگائے لیکن حملہ آور نہیں رکے اور بغیر پروا کیے فائرنگ کرتے رہے۔

جواب میں پولیس ٹیم نے بھی فائرنگ شروع کر دی۔

حملہ آوروں کا گروہ کچھ منٹ کے بعد وہاں سے چلا گیا اور فائرنگ میں کسی کے زخمی ہونے کی اطلاع نہیں آئی۔

جب ہیکوکاری نے داریو کوپیناوا کو اس واقعے کے بارے میں بتایا تو وہ سکتے میں آ گئے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر حملہ آور نے پولیس والوں پر بھی حملہ کر دیا تو پھر ان کے قبیلے کے لوگ تو بالکل بھی محفوظ نہیں ہیں۔

Illegal mining camp near the Uraricoera river

،تصویر کا ذریعہChristian Braga/Greenpeace

ایمازون جنگلات کے ان علاقوں میں گارمپیروس کی مداخلت برازیلین صدر جیئر بولسونارو کے دور میں کافی بڑی گئی ہے۔

دائیں بازو کی خیالات رکھنے والے برازیلین صدر کا ارادہ ہے کہ وہ جنگلات کے ان علاقوں میں سے کچھ حصے میں کان کنی اور زراعت کی اجازت دے دیں۔

برازیل کے تحقیقی ادارے آئی ایس اے کا اندازہ ہے کہ ان علاقوں میں یانومامی قبیلے کے کم از کم 20 ہزار افراد رہائش پزیر ہیں اور ہیکوکاری نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘حملہ آور اس لیے اتنے دھڑلے سے یہ سب کرتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ انھیں کوئی کچھ نہیں کہے گا۔’

الیسن ماروگل برازیلین صوبے رورائما میں وفاقی پراسیکیوٹر ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ غیر قانونی کان کنوں کو اس لیے زیادہ ہمت ہوتی ہے کیونکہ سونے کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے اور دوسری جانب کورونا وائرس کی وبا کے باعث حکومت کی انڈیجینس لوگوں کے امور کے لیے قائم کیے گئے محکمے ‘فونائی’ کا کام محدود ہو گیا تھا۔

الیسن کہتے ہیں: ‘غیر قانونی کان کنوں نے نہ خود کو آئسولیٹ کیا اور نہ سماجی فاصلوں کا خیال کیا، بلکہ انھوں نے اپنی کارروائیوں میں اضافہ کر دیا۔’

ایمازون دنیا کے سب سے بڑے بارانی جنگلات ہیں اور بڑھتی ہوئی عالمی حدت کا مقابلہ کرنے کے لیے انتہائی اہم سمجھے جاتے ہیں۔

لیکن برازیلین صدر بولسونارو، جو ماحولیاتی تبدیلی پر زیادہ یقین نہیں رکھتے اور انھیں ملک میں زراعت کے شعبے سے منسلک کاروباری افراد کی حمایت بھی ہے، سمجھتے ہیں کہ یہ تمام علاقے وہاں رہنے والی آبادی کے مقابلے میں حجم میں بہت بڑے ہیں اور وہ لوگ ترقی کے راستے میں رکاوٹ ہیں۔

صدر بولسونارو کے اپنے والد خود ایک گارمپیرو تھے اور صدر یانومامی قبیلے کے علاقے کے بڑے ناقد ہیں۔

داریو کوپیناوا انڈیجینس لوگوں کی ایک تنظیم ہوتاکارا چلاتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ صدر بولسونارو گارمپیروس کی حمایت کرتے ہیں اور انھیں یانومامی کے تحفظ کی کوئی پروا نہیں ہے۔

‘ہمارے علاقے کو پامال کیا جا رہا ہے اور ہماری مدد کرنے کی درخواست پر کوئی دھیان نہیں دے رہا ہے۔’

یہ بھی پڑھیے

برازیلین کانگریس میں بولسونارو کی حکومت ایک ایسے ایجنڈے کی حمایت کر رہی ہے جس کے بارے میں ان کا مخالفین کا کہنا ہے کہ وہ ایمازون کی بقا کے لیے خطرہ ہے اور وہاں رہنے والوں کے لیے خطرہ ہے۔

پراسیکیوٹر ماروگل کہتے ہیں کہ غیر قانونی کان کنوں کو شہہ ملی ہے اس بیانیے سے جو ان کی حرکتوں کو جائز بناتا ہے۔

Devastation caused by illegal mining in the Amazon

،تصویر کا ذریعہChristian Braga/Greenpeace

Presentational white space

داریو کوپیناوا کے والد ڈیوڈ کوپیناوا خود بھی بڑے رہنما تھے جن کی کاوشوں سے یانومامی کے علاقے کو باضابطہ حیثیت دی گئی تھی۔

انھیں ‘بارانی جنگلات کا دلائی لاما’ بھی کہا جاتا ہے اور انھوں نے مجھے سات برس قبل کہا تھا: سفید فام مرد جن کے پاس بہت پیسے ہوں، ان کی ہوس بھی ختم نہیں ہوتی۔ وہ اور تباہی پھیلانا چاہتے ہیں۔ یہ ان کی روایات ہے اور اس کی کوئی حد نہیں ہے۔’

گذشتہ برس ہونے والی غیر قانونی کان کنی کی وجہ سے یانومامی علاقے کا اتنا بڑا حصہ تباہ ہو گیا تھا جو پانچ سو فٹبال میدانوں کے برابر تھا اور ممکنہ طور پر اس سال اور زیادہ تباہی ہو سکتی ہے۔

گارمپیروس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھوں نے اس علاقے کے دریا کے پانی کو آلودہ کیا اور وہاں کی آبادی میں نہ صرف شراب نوشی اور منشیات کو متعارف کرایا بلکہ وہاں پر کووڈ کے پھیلاؤ کا بھی سبب بنے۔

لیکن اگر یہ بات سب جانتے ہیں کہ وہ کدھر ہیں تو انھیں ہٹایا کیوں نہیں جا رہا؟

اس کا جواب دیتے ہوئے فونائی کے ایک سابق افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ‘کوئی سیاسی طور پر یہ کرنے کے لیے راضی ہی نہیں ہے۔ ان کاموں میں بڑے طاقتور لوگ ملوث ہیں اور وہ کسی کارروائی کو کرنے سے روک لیتے ہیں۔’

اس افسر نے اپنی نوکری یہ بول کے چھوڑی تھی کہ ان سے اب مزید برداشت نہیں ہو سکتا۔

فونائی کے بجٹ میں بھی بتدریج کمی آتی گئی ہے اور ان کی جانب سے مارے گئے چھاپے اتنے کم ہو گئے ہیں کہ ان کا زیادہ اثر نہیں ہوتا اور گاریمپیروس جلد واپس آ جاتے ہیں۔

برازیل پارلیمان کی واحد انڈیجینس رکن جوینیا واپیچانا کہتی ہیں کہ فونائی محکمہ کے سربراہی ایک ایسے پولیس افسر کے پاس ہے جس کے تعلقات ایگری بزنس سے منسلک ہیں۔

‘فونائی پہلے انڈیجنس لوگوں کی دوست ایجنسی تھی۔ اب وہ مقامی آبادی کے مطالبات کی مخالفت کرتی ہے۔’

فونائی نے ہمیں کہا کہ انٹرویو دینے کے لیے کوئی میسر نہیں ہے جبکہ صدر بولسونارو کے دفتر سے ہمارے سوالات کے جوابات نہیں دیے گئے۔ا۔’

Boat on the Uraricoera river carrying petrol

،تصویر کا ذریعہChristian Braga/Greenpeace

یانومامی قبیلے کے لوگوں کو یقین ہے کہ مئی میں ہونے والا حملہ انتقامی کارروائی تھا کیونکہ انھوں نے گاریمپیروس کی کشتی سے سامان لے لیا تھا۔

داریو کوپیناوا کہتے ہیں کہ پولیس کی ٹیم کے دورے کے پانچ دن بعد رات کے وقت دوبارہ کچھ لوگ کشتیوں میں آئے اور فائرنگ شروع کر دی۔

کوپیناوا کہتے ہیں کہ اس میں آنسو گیس بھی شامل تھی اور مقامی لوگوں کے گلے اور آنکھیں جلنے لگیں۔

اس ہفتے کے شروع میں برازیل کی سپریم کورٹ نے حکومت کو حکم دیا ہے کہ وہ ان قبیلوں کو تحفظ دیں اور گاریمپیروس کو اس علاقے سے نکالیں۔

لیکن کوپیناوا کا کہنا ہے کہ یانومامی کے لوگ اب انتظار کرتے کرتے تھک گئے ہیں۔

‘ہم مسلسل خطرے کا شکار ہیں۔ ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔’

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.