بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

کاسمیٹک سرجری کے غیر منظم کورس جو صرف چند گھنٹوں پر مشتمل ہوتے ہیں

کاسمیٹک سرجری کے غیر منظم کورس جو صرف چند گھنٹوں پر مشتمل ہوتے ہیں

عورت، میک اپ

بی بی سی تھری کی ایک نئی دستاویزی فلم ’انڈر سکن: دی بوچڈ بیوٹی بزنس‘ میں دکھایا گیا ہے کہ کس طرح سوئیوں اور جراحی کے دھاگوں کا استعمال کرتے ہوئے جمالیاتی عمل یا کاسمیٹک سرجری کو انٹرنیٹ پر یا غیر محفوظ ایک دن کے کورس میں سکھایا جاتا ہے۔

چہرے کے نقوش ابھارنے والے نان سرجیکل تربیتی کورس کی خفیہ فوٹیج میں دکھایا گیا ہے کہ ایک ٹرینر غلطی سے مریض کے خون کی نالیوں کو پنکچر کرتا ہے اور حفظان صحت کے ناقص طریقوں کے ذریعہ مریض کے انفیکشن کا امکان بڑھا دیتا ہے۔

فوٹیج دیکھنے والے ماہرین کا خیال ہے کہ اس کورس میں شرکت کرنے والے طلبا عام لوگوں کے لیے خطرات پیدا کر سکتے ہیں۔

فلر، مائیکرو بلیڈنگ اور بوٹوکس: غیر جراحی کاسمیٹک علاج

پچھلے کچھ برسوں میں جمالیاتی یا غیر جراحی دار بیوٹی ٹریٹمنٹ جیسے بوٹوکس، مائیکرو نیڈلنگ اور تھریڈ لفٹ کی مقبولیت میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے لیکن جمالیاتی تربیت کے یہ کورسز تقریباً غیرمنظم ہیں۔

حکومت جمالیاتی پریکٹیشنر سے لازمی قابلیت طلب نہیں کرتی حتیٰ کہ ان کے بعض طریقہ علاج میں سوئیاں بھی شامل ہیں اور اس سے سنگین پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔

کوئی بھی یہ تربیتی کورس کر سکتا اور اس کے لیے اہل ہو سکتا ہے۔ کسی لازمی معیار کے بغیر جمالیاتی تربیت کے ان کورسز کا معیار بہت مختلف ہوتا ہے۔

بی بی سی تھری نے صرف انگلینڈ کے شہر لیورپول میں ہی کاسمیٹک ٹریننگ کی 26 اکیڈمیز کا پتا چلایا جو 150 پاؤنڈ سے پانچ ہزار پاؤنڈ کے درمیان کورس آفر کرتی ہیں۔ ان آن لائن کورسز کا دورانیہ کچھ گھنٹوں سے کچھ دنوں پر مشتمل ہوتا ہے۔

اس برس اپریل میں بی بی سی تھری نے ایک نرس کو بھیس بدل کر لیورپول میں قائم ’باس بیبز یونی‘ نامی ٹریننگ اکیڈمی میں بھیجا۔

کاسمیٹک سرجری

ہم نے نرس کی شناخت چھپانے کے لیے ان کا نام تبدیل کر دیا اور ہم انھیں جیما کہہ کر بلائیں گے۔

جیما ایک ایسے کورس میں شریک ہوئیں جس میں طلبا کو جراحی دھاگوں کا استعمال کرتے ہوئے فیس لفٹ انجام دینے کا طریقہ سکھایا جاتا ہے۔ اس طریقہ کار کو بعض اوقات ’تھریڈ لفٹ‘ بھی کہا جاتا ہے۔

اس عمل میں اس دھاگے کا استعمال کیا جاتا ہے جو سرجن زخموں پر ٹانکے لگانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ سوئی کا استعمال کرتے ہوئے دھاگے کو جلد کے اندر ڈالا جاتا ہے اور پھر اوپر کی جانب باہر نکالا جاتا ہے

ایک ممتاز کاسمیٹک ڈاکٹر ونسنٹ وونگ کہتے ہیں کہ ’تھریڈ لفٹ‘ ایک انتہائی خطرناک عمل ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’انجیکشن کے ذریعے کسی بھی دوسرے علاج کے مقابلے اس میں بہت سی چیزیں خراب ہو سکتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دھاگے ایک لمبے عرصے کے لیے جلد میں رہتے ہیں اور آپ انھیں باہر نہیں نکال سکتے۔‘

’اگر یہ کام کر جائے تو نتائج شاندار ہوتے ہیں لیکن آپ کو طویل مدتی ناقابل تلافی نقصان بھی پہنچ سکتا ہے۔‘

ڈاکٹر وونگ کو اپنی پہلی ’تھریڈ لفٹ‘ سرجری سے قبل تین ماہ تک چار مختلف کورسز کی تربیت دی گئی۔

ونسنٹ وونگ

،تصویر کا کیپشن

ڈاکٹر وونگ کو اپنی پہلی ‘تھریڈ لفٹ’ سرجری سے قبل تین ماہ تک چار مختلف کورسز کی تربیت دی گئی

باس بیبز یونی ٹریننگ اکیڈمی میں تھریڈ لفٹنگ کا کورس آن لائن صرف پانچ گھنٹوں پر مشتمل ہوتا ہے جس کے بعد لیورپول میں ایک دن کا پریکٹیکل کورس بھی کرایا جاتا ہے۔

جیما جن کے پاس نرسنگ کا 20 برس سے زیادہ کا تجربہ ہے، اس کورس میں پڑھائے جانے والے غیر پیشہ وارانہ اور غیر محفوظ طریقوں پر بہت حیران ہوئیں۔

ڈاکٹر وونگ کے مطابق تھریڈ لفٹ کے عمل میں کسی بھی قسم کے انفیکشن سے بچنے کے لیے غیر معمولی جراثیم کش سطح کی ضرورت ہوتی ہے لیکن جیما نے دیکھا کہ اس کورس کی تربیت دینے والے ٹیوٹر نے کئی مواقع پر مختلف اشیا کو ہاتھ لگایا اور اس کے فوراً بعد مریض کے چہرے کو بھی ہاتھ لگایا جس سے مریض میں طویل مدتی انفیکشن کے امکانات بڑھ گئے۔

جیما کہتی ہیں کہ ’انفیکشن کو کنٹرول کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ ٹیوٹر نے سارا عمل ایک صاف ستھرے بستر کی بجائے کرسی پر سرانجام دیا۔ انھوں نے اس عمل کے دوران ایک فون کال پر بات بھی کی، حتیٰ کہ مجھے یہ بھی کہا کہ میں اس سارے عمل کے دوران فون سے ان کی ویڈیو بھی بناؤں۔‘

یہ بھی پڑھیے

جیما نے ہمیں بتایا کہ سوئیاں ابھی مریض کے چہرے میں ہی تھیں جب ٹرینر یہ ویڈیو کلپ سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے کے لیے چلا گیا۔

خفیہ فلم بندی میں یہ بھی انکشاف ہوا کہ اس سارے عمل کے دوران ٹرینر نے اسی مریض کی خون کی نالیوں کو بھی متعدد بار پنکچر کیا۔

جیما کہتی ہیں ’آپ دیکھ سکتے ہیں کہ مریض کس قدر درد میں تھے۔ جب انھیں جسم کے کسی خاص حصے کو سن کرنے کے انجیکشن لگائے گئے تو وہ کراہ رہے تھے۔‘

ہماری نرس نے مریضوں کو اس عمل سے پہلے تمباکو نوشی کرتے اور شراب پیتے بھی دیکھا۔

کاسمیٹک سرجری

’سب سے اہم بات یہ کہ وہاں سے کوئی بھی طالب علم محفوظ اور جامع علاج مہیا کرنے کی تکنیکی یا عملی صلاحیت کے ساتھ نہیں گیا، یہ ایسے لوگوں کے لیے خطرہ ہے جن کا وہ علاج کریں گے۔ میں نے کبھی توقع نہیں کی تھی کہ یہ سب اتنا خراب ہو گا۔‘

’سیو فیس‘ میڈیکل پریکٹیشنرز کا حکومت سے منظور شدہ ادارہ ہے اور ایسے مریضوں کے لیے ایک محفوظ جگہ ہے جو اپنا کوئی علاج کرانا چاہتے ہیں۔

وہ کئی برسوں سے جمالیاتی تربیت، اس کی تعلیم اور عوام پر اس کے اثرات کے حوالے سے معاملات کو اجاگر کر رہے ہیں۔

’سیو فیس‘ کی ڈائریکٹر ایشٹن کولنز نے یہ فوٹیج دیکھی اور ان کا ماننا ہے کہ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ کورس کرنے والے افراد اگر یہ علاج اور عمل کریں گے تو اس سے بہت سی پیچیدگیاں ہو سکتی ہیں۔‘

باس بیبز یونی ٹریننگ اکیڈمی کیئر کوالٹی کمیشن (CQC) کے ساتھ رجسٹر نہیں، کیئر کوالٹی کمیشن صحت کی دیکھ بھال فراہم کرنے والوں کی نگرانی اور معائنہ کرتا ہے۔

تھریڈ لفٹ کا یہ کورس ایک رجسٹرڈ نرس نے کرایا تھا۔ طبی پیشہ ور افراد کے لیے کیئر کوالٹی کمیشن (CQC) کے ساتھ رجسٹر ہوئے بغیر تھریڈ لفٹ انجام دینا جرم ہے۔

جب بی بی سی تھری نے باس بیبز یونی سے ان خدشات کے ساتھ رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے کسٹمرز کی حفاظت اور تربیت کا معیار ہماری اولین ترجیحات میں شامل ہیں۔‘

باس بیبز یونی بی بی سی کی جانب سے الزامات کے بارے میں جان کر فکر مند تو ہوئے لیکن انھوں نے دعویٰ کیا کہ ان کے پاس جواب دینے کے لیے زیادہ تفصیل موجود نہیں۔

آنچل سیدا

،تصویر کا کیپشن

آنچل سیدا میک اپ آرٹسٹ ہیں اور یوٹیوب پر ان کے دو لاکھ سے زیادہ سبسکرائبرز ہیں

غیر منظم انڈسٹری کی دریافت

بیوٹی انفلوئینسر آنچل سیدا کے مطابق کاسمیٹک سرجری ان میں اعتماد پیدا کرنے کا ایک اہم ذریعہ بنی۔

آنچل سیدا ایک میک اپ آرٹسٹ ہیں اور یوٹیوب پر ان کے دو لاکھ سے زیادہ سبسکرائبرز ہیں۔ آنچل کا شمار ان یوٹیوبرز میں ہوتا ہے جنھوں نے سب سے پہلے کاسمیٹک سرجری کے بارے میں کھل کر بات کی۔

وہ کہتی ہیں ’مجھے کوئی بھی ایسا جنوبی ایشائی (انفلوئنسر) نہیں ملا جس نے کھل کر اس بارے میں بات کی ہو کہ انھوں نے کاسمیٹک سرجری کرائی اور پھر میں نے سوچا کہ ہمیں اس بارے میں شرمندہ نہیں ہونا چاہیے۔‘

’میں نے مائیکرو نیڈلنگ، فیشل اور لیزر سے بھی علاج کرایا۔‘

ان کورسز کے بارے میں مزید جاننے کے لیے ہم نے آنچل کو مائیکرو نیڈلنگ کے ایک کورس کے لیے بھیجا۔ آنچل پہلے یہ سرجری کرا تو چکی ہیں تاہم انھیں خود اسے سرانجام دینے کا کوئی تجربہ نہیں۔

پورا کورس آن لائن زوم پر دیا گیا جس کے بعد آنچل کو کہا گیا کہ وہ کسی شخص پر اس کا تجربہ کر کے ٹرینر کو اس کی ایک تصویر بھیج دیں۔

صرف ڈیڑھ گھنٹے کے بعد یہ ٹریننگ ختم ہو گئی۔ آنچل کہتی ہیں ’یہ بہت آسان تھا۔ ٹرینر نے پاور پوائنٹ پر مائیکرو نیڈلنگ کے بارے میں بات کی۔ لائیو کچھ بھی کر کے نہیں دکھایا گیا۔ حتیٰ کے ان کے پاس دکھانے کے لیے مائیکرو نیڈلنگ پین بھی نہیں تھا۔‘

’مجھے یقین نہیں آیا جب انھوں نے کہا کہ اب آپ جا سکتی ہیں اور کسی پر یہ تجربہ کر سکتی ہیں۔‘

’اس کورس میں حفظان صحت کے اصولوں، آلات کو جراثیم سے پاک کرنے اور سوئی سے آنے والے زخموں کے بارے میں بھی کچھ نہیں بتایا گیا۔‘

بی بی سی تھری نے آنچل کا مائیکرو نیڈلنگ کورس ڈاکٹر وونگ کو دکھایا۔ انھوں نے ہمیں بتایا کہ یہ کورس ’اس بات کی یقین دہانی نہیں کراتا کہ طالب علم محفوظ طریقے سے یہ عمل سرانجام دے سکتے ہیں۔‘

’درست تکنیک اور آمنے سامنے بیٹھ کر چہرے کا جائزہ لینے کی مناسب عملی رہنمائی کے بغیر اس عمل کو سرانجام دینا محفوظ نہیں۔‘

’ان کورسز کے عوام پر سنگین اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.