بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

انڈین نژاد برطانوی خاتون کا ’وائرس کے خوف‘ میں اپنی پانچ سالہ بیٹی کے قتل کا اعتراف

انڈین نژاد برطانوی خاتون کا ’وائرس کے خوف‘ میں اپنی پانچ سالہ بیٹی کے قتل کا اعتراف

سیاگی

،تصویر کا ذریعہMETROPOLITAN POLICE

برطانیہ میں اپنی پانچ سالہ بیٹی کو قتل کرنے والی ایک خاتون کو غیر معینہ مدت کے لیے ہسپتال میں رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔

غیر تشخیص شدہ ڈپریشن میں مبتلا 36 سالہ سوتھا سواننتھم نے عدالت میں اپنا جُرم قبول کیا مگر اپنے دفاع میں کہا تھا کہ وہ ذہنی عارضے میں مبتلا تھیں لہذا انھیں سزا میں رعایت دی جائے۔

یہ بھی پڑھیے

30 جون 2020 کو ان کی پانچ سالہ بیٹی سیاگی سواننتھم جنوبی لندن کے علاقے مچم میں واقع اپنے گھر میں شدید زخمی حالت میں پائی گئی تھیں۔

متعدد برطانوی میڈیا رپورٹس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ذہنی امراض کے لیے زیرِ علاج سوتھا سواننتھم نے اپنی بیٹی کو اس خوف ے قتل کیا کہ کہیں اسے کورونا وائرس کی وبا نہ لگ جائے۔

ان کے خاوند کا کہنا ہے کہ ممکنہ طور پر عالمی وبا کے دوران لاک ڈاؤن سے ان کی صحت پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں اور انھیں یہ خوف تھا کہ وہ وائرس سے متاثر ہوسکتی ہیں۔

جج وینڈی جوزف نے اس واقعے کو ’افسوس ناک سانحہ‘ قرار دیا۔

اس واقعے سے قبل ڈاکٹر کئی جسمانی عارضوں میں مبتلا سوتھا کا علاج کر رہے ہیں۔

سوتھا، گھر

،تصویر کا ذریعہPA MEDIA

برطانیہ کی مرکزی کریمنل کورٹ یا اولڈ بیلی کو سماعت کے دوران بتایا گیا کہ اس واقعے کے دوران دو بچوں کی ماں سوتھا میں ’ذہنی صحت کا عارضہ زور پکڑ چکا تھا۔‘ ان کی جانب سے اپنی بیٹی کو قتل کرنے کے بعد ان میں سائیکوسس کے ساتھ شدید ڈپریشن کی تشخیص کی گئی۔

جج جوزف نے کہا کہ مدعا علیہ میں ذہنی صحت کے عارضے کو ’ڈاکٹروں سمیت ان کے اردگرد کسی نے بھی پوری طرح تسلیم نہیں کیا تھا۔‘

عدالت کو بتایا گیا کہ سوتھا لاک ڈاؤن کے دوران اس قدر گھبرا گئی تھیں کہ انھیں لگا کہ وہ شدید بیمار ہیں اور بہت جلد مرنے والی ہیں۔

عدالت کو بتایا گیا کہ بیٹی کے قتل سے ایک رات قبل 36 سالہ سوتھا نے اپنے خاوند سے پوچھا تھا کہ ان کے مرنے کی صورت میں کیا وہ بچوں کی دیکھ بھال کریں گے۔

’بھرپور اور خوشحال زندگی‘

جائے وقوعہ پر اپنی بیٹی کے ساتھ انھوں نے خود کو بھی زخمی کیا ہوا تھا جس کے نتیجے میں کئی ماہ تک ہسپتال میں ان کا علاج چلتا رہا۔

انھوں نے ڈاکٹروں کو بتایا کہ قتل کے دن انھیں لگا کہ وہ نیند میں ہیں اور خواب دیکھ رہی ہیں۔ انھوں نے کہا ’مجھے یہ احساس نہیں ہوا کہ میں اپنی بیٹی کو نقصان پہنچا رہی ہوں۔‘

ابتدائی طور پر سوتھا پر قتل کا الزام عائد کیا گیا تھا مگر بعد میں کراؤن پراسیکیوشن سروس نے ان کے دفاع میں پیش کی جانے والی درخواست منظور کر لی تھی۔ یعنی مقتول کو دورانِ جُرم اس کا علم تھا نہ خود پر کوئی قابو۔

عدالت کو دیے جانے والے بیان میں بچی کے والد نے کہا تھا کہ قتل سے قبل ان کے خاندان کی زندگی ’بھرپور اور خوشحال‘ تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی اہلیہ ’ایک مثالی ماں تھیں جو اپنے بچوں کی پرورش کے لیے کسی حد تک بھی جاسکتی تھیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ لاک ڈاؤن کی سختیوں کا ان کی اہلیہ کی صحت پر منفی اثر ہوسکتا ہے اور انھیں وائرس سے متاثر ہونے کا بہت زیادہ خوف تھا۔

سوتھا عدالت میں دو نرسوں کے ساتھ پیش ہوئی تھیں۔ انھیں غیر معینہ مدت کے لیے ایک نفسیاتی علاج کے ہسپتال منتقل کردیا گیا ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.