آسکر پسٹوریئس: اپنی گرل فرینڈ کا قاتل ایک زوال پذیر ہیرو

Oscar

،تصویر کا ذریعہReuters

  • مصنف, ڈینیئل ڈی سیمون
  • عہدہ, بی بی سی نیوز، جوہانسبرگ

کھیلوں کی دنیا کے سابق سپر سٹار آسکر پسٹوریئس شاید دنیا کے بدنام ترین قاتل ہیں۔ پیرا اولمپئین آسکر پسٹوریئس کو اپنی گرل فرینڈ ریوا سٹین کیمپ کے قتل کے تقریباً 11 سال بعد جنوبی افریقہ کی جیل سے پیرول پر رہا کر دیا گیا ہے۔

حکام نے تصدیق کی کہ پسٹوریئس جمعہ کی صبح ’گھر پر‘ تھا اور انھوں نے اپنی 13 سال سے زیادہ کی سزا کا نصف حصہ کاٹ لیا ہے۔

آسکر پسٹوریئس جو اب 37 سال کے ہیں نے 2013 میں اپنی گرل فرینڈ سٹین کیمپ کو متعدد بار فائر کر کے ہلاک کر دیا تھا۔

دونوں ٹانگوں سے محروم کھلاڑی نے دعویٰ کیا تھا کے اس نے اپنی گرل فرینڈ کو جان بوجھ کر قتل نہیں کیا بلکہ ایک چور کے شبے میں اس پر گولی چلائی تھی۔

سٹین کیمپ کی والدہ نے آسکر کی رہائی پر کہا ہے کہ وہ سابق ایتھلیٹ کو رہا کرنے کے فیصلے کو قبول کرتے ہیں لیکن ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کا خاندان ’عمر قید کی سزا‘ کاٹ رہا ہے۔

آسکر پسٹوریئس نے سنہ 2013 ویلنٹائن ڈے کے موقع پر اپنی گرل فرینڈ ریوا سٹین کیمپ پر اس وقت چار مرتبہ گولی چلائی تھی جب وہ باتھ روم میں تھیں۔

یاد رہے کہ پہلے انھیں غلطی سے قتل کرنے کے جرم میں پانچ برس قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ جس کے بعد انھیں ایک سال بعد جیل سے رہا کر دیا گیا تھا اور باقی سزا کے پانچ سال انھیں گھر میں نظربند ہو کر گزارنے تھے تاہم بعد میں اس فیصلے کے خلاف اپیل کے بعد 2015 میں عدالت نے فیصلے کو تبدیل کر کے انھیں قتل کا مرتکب قرار دیا تھا۔

تقریبا ایک دہائی قبل ان کے مقدمے کے پیچیدگیوں اور موڑوں نے سب کو اپنی طرف متوجہ کیے رکھا اور ان کی رہائی اس وقت جنوبی افریقہ اور دنیا بھر میں ایک بہت بڑی خبر ہے۔

انھوں نے تین پیرالمپک کھیلوں میں چھ طلائی تمغے جیتے اور 2012 میں لندن میں اولمپکس میں حصہ لینے والے پہلے معذور سپرنٹر بن کر تاریخ رقم کی لیکن پسٹوریئس کو اب ایک سزا یافتہ قاتل کے طور پر جانا جاتا ہے۔

آسکر ، ریوا

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

سنہ 2013 میں پسٹوریئس نے اپنی گرل فرینڈ ریوا سٹین کیمپ پر اس وقت چار مرتبہ گولی چلائی تھی جب وہ باتھ روم میں تھیں

اب وہ ایک ایسی مشہور شخصیت نہیں رہے، وہ فیشن کی دنیا سے باہر ہونے کے بعد واپسی کی کوشش کر رہے ہوں یا پھر وہ اپنی ذاتی برائیوں سے لڑ رہے ہوں۔ ایک ایتھلیٹ کے طور پر ان کا کیریئر ختم ہو گیا ہے۔

برانڈز انھیں سپانسر نہیں کرنا چاہیں گے۔ انھیں سپورٹس کمنٹیٹر کے طور پر بھی نہیں دیکھا جائے گا۔

’بلیڈ رنر‘ کہلانے والے 37 سالہ کھلاڑی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ جسمانی طور پر ان کھلاڑیوں سے بہت مختلف نظر آتے ہیں جو لوگوں کو یاد ہیں۔

ان کی سزا 2029 میں ختم ہو گی۔ اس وقت تک وہ پابندیوں کے تابع رہیں گے اور اگر وہ ان پابندیوں کی خلاف ورزی کرتے ہیں تو انھیں جیل واپس بھیجا جا سکتا ہے۔

ان پابندیوں کے تحت انھیں ہر روز مقررہ اوقات میں گھر پر رہنا، لازمی پروگراموں میں شرکت کرنا اور شراب یا ممنوعہ منشیات کا استعمال کرنے کی اجازت نہ دینا شامل ہے۔

جنوبی افریقہ میں پیرول پر موجود دیگر افراد کی طرح ان پر بھی میڈیا انٹرویوز دینے پر پابندی ہو گی۔

لیکن ان کا ہائی پروفائل ہونا اس رہائی کو غیر معمولی بنا دیتا ہے۔ حالیہ دنوں میں بیشتر عوامی مباحثوں اور تبصروں میں مجرموں کے بجائے جرائم کے متاثرین پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔

عام طور پر جب کسی شخص کو مقدمے کے بعد قتل کا مجرم قرار دیا جاتا ہے تو قاتل کا بیان جو متاثرہ خاندان کے لیے بہت پریشان کن ہوسکتا ہے عام طور پر عوامی گفتگو سے غائب ہوجاتا ہے اور قاتل اکثر دہائیوں تک جیل میں نظروں سے اوجھل رہتا ہے۔

اس معاملے میں قاتل دنیا بھر میں مشہور ہے اور اپنی 30 کی دہائی میں ہے اور اسے آٹھ سال سے بھی کم قید کے بعد رہا کیا گیا ہے۔

قانون کی گریجویٹ اور ایک کامیاب ماڈل سٹین کیمپ کا مستقبل صرف 29 سال کی عمر میں ان سے چھین لیا گیا۔ پسٹوریئس کے لیے میڈیا انٹرویوز پر عائد پابندی بالآخر ختم ہو جائے گی اور اس کے بعد وہ بولنے کے لیے آزاد ہوں گے۔ ان کی شہرت کا مطلب ہے کہ انھیں ایک پلیٹ فارم ملے گا۔

Oscar

،تصویر کا ذریعہGetty Images

سٹین کیمپ کے قریبی دوست گوین گسکوٹ کا خیال ہے کہ آخر کار وہ ایک بار پھر واقعات کے اپنے ورژن کو بتانے کے لیے میڈیا کی توجہ کا استعمال کرنے کی کوشش کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’وہ باہر آ رہے ہیں اور عوام سے بات کریں گے اور شاید ہمارے جذبات کو غلط طریقے سے ابھاریں، یہ ہم سب کو ایک بار پھر ماضی میں لے جائے گے۔‘

سٹین کیمپ کی والدہ جون نے گذشتہ سال نومبر میں پیرول پر ہونے والی سماعت کے دوران ایک بیان میں کہا تھا کہ انھیں یقین نہیں ہے کہ پسٹوریئس لاھیک ہو گئے ہیں۔

آسکر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

آسکر پسٹوریئس کیس کی سماعت کے دوران اکثر روتے دکھائی دیتے تھے اور کہتے کہ انھوں نے ویوا کو نہیں مارا

انھوں نے ان کی کہانی پر بھی یقین نہیں کیا جس میں وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ جس رات انھوں نے ان کی بیٹی کو گولی ماری تھی انھیں لگا کہ کوئی ڈاکو اندر آ گیا ہے۔

جون سٹین کیمپ نے مزید کہا کہ ’میں کسی ایسے شخص کو نہیں جانتی جو اس پر یقین کرتا ہو۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’آسکر کے ٹھیک ہونے کے لیے ضروری ہے کہ کسی کو اپنے جرم کی مکمل سچائی اور اس کے نتائج کے بارے میں ایمانداری سے آگاہ کیا جائے۔‘

انھوں نے کہا کہ’ کوئی بھی شخص اس وقت تک پچھتاوے کا دعویٰ نہیں کرسکتا جب تک وہ سچائی کے ساتھ مکمل طور پر بات کرنے کے قابل نہیں ہے۔ اگر کوئی پچھتاوا ظاہر نہیں کرتا ہے، تو اس کی بحالی کے بارے میں نہیں سوچا جا سکتا ہے۔‘

جون سٹین کیمپ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

ریوا سٹین کیمپ کی والدہ نے کبھی یقین نہیں کیا کہ جس پسٹوریئس نے ان کی بیٹی کو گولی ماری تھی انھیں لگا کہ کوئی ڈاکو اندر آ گیا ہے

جون سٹین کیمپ کے شوہر بیری گذشتہ سال فوت ہوگئے۔ وہ کہتی ہیں کہ بیٹی کی موت نے انھیں دل شکستہ کر دیا تھا۔

پسٹوریئس کی رہائی، اور اس سے مستقبل میں ان کی تشہیر کے امکانات کا سٹین کیمپ خاندان کی جانب سے خیر مقدم نہیں کیا جائے گا۔

جنوبی افریقہ میں، آپ اس معاملے پر مختلف خیالات سنتے ہیں، ایک ہی سماجی حلقوں یا خاندانوں کے لوگ ان کے جرم کے بارے میں بہت مختلف خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔

کچھ لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ انھیں اپیل پر قتل کا مجرم ٹھہرایا گیا تھا، پہلے انھیں غیر ارادی قتل کی سزا ہوئی، جو قتل کے مترادف ایک کم سنگین جرم ہے، اور ثبوتوں کے بارے میں لوگوں کی یادیں لامحالہ ماند پڑ گئی ہیں۔

جنوبی افریقہ کے قانون کے مطابق نصف سزا کاٹنے کے بعد تمام مجرموں کو پیرول کا حق حاصل ہے۔ تاہم جنوبی افریقی انسانی حقوق کے گروپ ویمن فار چینج سے وابستہ بلوا اڈونس کا کہنا ہے کہ پسٹوریئس کی جلد رہائی سے ظاہر ہوتا ہے کہ ’جب بھی کسی خواتین کے قتل یا صنفی بنیاد پر تشدد کا ارتکاب کرنے والوں کی بات آتی ہے تو قاتلوں کے معاملے میں نرمی کو معمول بنایا جا رہا ہے۔‘

وہ محسوس کرتی ہیں کہ یہ حقیقت کہ وہ کبھی قومی ہیرو تھے، اب بھی کچھ لوگوں کے خیالات پر اثر انداز ہوتی ہے۔

اڈونس کہتی ہیں کہ ’میرے خیال میں اب وقت آ گیا ہے کہ ہم خود کو چیلنج کریں کہ اس شخص نے کیا کِیا ہے۔‘

گسکوٹ کے لیے پوزیشن واضح ہے۔ سنہ 2013 میں جب سے ان کی دوست ریوا سٹین کیمپ کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا تھا، تب سے انھیں ’ ایک لمحے کے لیے بھی چین نہیں آیا۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ