کینیڈا میں’نفرت کی بنیاد پر قتل‘ ہونے والا پاکستانی خاندان: ’سوچ بھی نہیں سکتی میری والدہ کو کتنا درد ہوا ہو گا جب تم نے انھیں مارا‘

saboor

،تصویر کا ذریعہCOURTESY SABOOR KHAN

  • مصنف, ندین یوسف
  • عہدہ, بی بی سی، لندن اونٹاریو

تابندہ بخاری کی نظروں کے سامنے سے وہ تصویر نہیں جاتی جس میں ان کی بیٹی، پوتی، داماد اور ان کی والدہ سڑک پار کرنے کا انتظار کر رہے تھے۔

’میں جب بھی کسی چوک پر کھڑی ہوتی ہوں کہ سڑک پار کر سکوں تو یہ چاروں میرے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔‘

یہ عدالت میں تابندہ کی جانب سے دیا گیا بیان تھا جو جمعرات کو ان کے خاندان کے چار افراد کے قتل کا مجرم قرار پانے والا نتھینیئل ویلٹمین چہرے پر بغیر کسی تاثرات کے سن رہا تھا۔

وہ ان 70 افراد میں سے ہیں جو اس مقدمے میں متاثرین پر ہونے والے اثرات کے حوالے سے بیان دے رہے ہیں۔

کسی کینیڈین عدالت میں متاثرہ برادری کی جانب سے بیانات دینے کی اس سے بڑی نظیر نہیں ملتی اور اس کے باعث افضال فیملی کے قتل کے باعث پیدا ہونے والے گہرے دکھ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

سرکاری وکلا نے اس دوران جرح کرتے ہوئے کہا کہ ویلٹمین نے پاکستانی نژاد کینیڈین فیملی کو ان کی شناخت اور مسلمان ہونے کے باعث جان بوجھ کر اس وقت نشانہ بنایا جب وہ شام کو چہل قدمی کے لیے نکلے تھے۔

ویلٹمین نومبر میں اس خاندان کے قتل کے مجرم قرار پائے تھے۔

قتل کیے جانے والوں میں 46 سالہ سلمان افضال، ان کی 44 سالہ اہلیہ مدیحہ سلمان، 15 سالہ بیٹی یمنٰی افضال اور سلمان افضال کی 74 سالہ والد طلعت افضال شامل تھے۔ ان افراد کو ویلٹمین نے لندن اونٹاریو میں اپنے ٹرک کی ٹکر سے ہلاک کیا تھا۔

سلمان اور مدیحہ کا بیٹا اس وقت نو سال کا تھا اور وہ اس حادثے میں بری طرح متاثر ہوا تھا۔ ان ہلاکتوں کے باعث اونٹاریو شہر میں بڑے پیمانے پر سوگ منایا گیا تھا۔ اس واقعے کے بعد کینیڈا میں اسلاموفوبیا کے خلاف مؤثر اقدامات اٹھانے پر بھی زور دیا گیا تھا۔

جمعرات کو بھری عدالت میں افضال خاندان کے رشتہ داروں کی جانب سے بیانات دینا شروع کیے گئے اور انھوں نے بتایا کہ ان ہلاکتوں نے ان پر کیا اثر ڈالا۔

canada

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ان میں سے کچھ اونٹاریو میں افضال خاندان کے ساتھ رہتے تھے۔ کچھ نے پاکستان سے زوم کے ذریعے یا اوماہا اور نبراسکا سے سفر کر کے عدالت میں بیان دینے آئے۔

عدالت لندن، اونٹاریو کی مسلمان برادری کے دیگر افراد اور افضال خاندان کے دوستوں کے بیانات بھی ریکارڈ کرے گی۔ یہ بیانات دو روز کے دوران دیے جانے ہیں۔

اب تک کے بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس واقعے نے افضال خاندان کو گہرے دکھ اور رنج سے متاثر کیا، خاص طور پر ان کے نوعمر بیٹے کو۔

مدیحہ سلمان کی رشتہ دار سیدہ سدرہ جمال نے بتایا کہ ’اس دن اس بچے سے معصومیت چھین لی گئی۔‘

تابندہ بخاری نے دیگر رشتہ داروں کے ساتھ اس احساس کی تشریح کی جب انھیں پہلی بار معلوم ہوا کہ ان کے خاندان کے افراد ہلاک ہو گئے ہیں اور ان کی ہلاکتوں کی نفرت انگیز جرائم کے طور پر تفتیش کی جا رہی ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’یہ صرف اعداد و شمار نہیں تھے۔ یہ زندہ، سانس لیتے انسان تھے۔‘

وہاں موجود دیگر افراد کی طرح مرحوم طلعت افضال کی بیٹی عائشہ شوکت نے اپنے آنسوؤں پر قابو پاتے ہوئے ویلٹمین کو براہِ راست مخاطب کیا۔

انھوں نے کہا کہ ’میں سوچ بھی نہیں سکتی میری والدہ کو کتنا درد ہوا ہو گا جب تم نے انھیں مارا۔ یہاں کھڑے ہو کر میں تمھیں یہ بتانا چاہتی ہوں کہ تم نے ہم سے انتہائی قیمتی چیز چھین لی ہے۔‘

افضال خاندان سنہ 2007 میں اسلام آباد سے لندن اونٹاریو شفٹ ہوا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

tawakal
،تصویر کا کیپشن

امام عبد الفتح توکل نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اس وقت خوف کا احساس اور تحفظ اور سکیورٹی کی کمی محسوس ہوتی ہے‘

اکثر رشتہ داروں نے بتایا کہ جب وہ ان کے بعد کینیڈا منتقل ہوئے تو افضال خاندان نے ان کی مدد کی۔

سلمان افضال ایک محنت کرنے والے فزیوتھیراپسٹ، مخلص شوہر اور دین دار مسلمان کے طور پر جانے جاتے تھے۔ ان کی اہلیہ مدیحہ سلمان انجینیئرنگ میں پی ایچ ڈی کر رہی تھیں اور وہ بطور طالبہ اپنی کلاس میں واحد خاتون ہونے کے باوجود کبھی بھی پریشان دکھائی نہیں دیتی تھیں۔

ان کی بیٹی یمنیٰ ایک آرٹسٹ تھی جسے کمیونٹی کے افراد ان کی پرکشش مسکراہٹ اور کچھ نیا کرنے کی لگن کے باعث جانتے تھے۔ یمنیٰ کی دادی طلعت افضال ایک پیار کرنے والی خاتون کے طور پر جانی جاتی تھیں۔

اکثر افراد نے عدالت میں اس خوف کی نشاندہی کی ہے جو ظاہری طور پر مسلمان ہونے کے باعث کینیڈا میں ٹارگٹ کیے جانے کے حوالے سے ان میں موجود ہے۔ یہ ملک کچھ عرصہ پہلے تک اس حوالے سے محفوظ تصور کیا جاتا تھا۔

عائشہ شوکت کہتی ہیں کہ ان کی اولاد اب اکیلے سونے سے بھی ڈرتی ہے یا اکیلے سکول جانے سے بھی جبکہ سدرہ جمال جو اب حجاب پہنتی ہیں، کہتی ہیں کہ اب انھیں ظاہری طور پر مسلمان ہونے کے باعث خطرہ محسوس ہوتا ہے۔

سدرہ کے مطابق ’کیا کوئی اور ہمیں ٹارگٹ کرے گا؟ ہمارے ساتھ غیر انسانی رویہ اپنائے گا، ہمیں تکلیف پہنچائے گا، ہمارے قتل کرے گا؟‘

یہ وہ خوف ہیں جو نہ صرف افضال خاندان کے قریبی رشتہ داروں کو ہیں بلکہ لندن، اونٹاریو اور کینیڈا میں موجود باقی مسلمان برادری کے ہیں۔

لندن میں مقیم امام عبد الفتح توکل نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اس وقت خوف کا احساس اور تحفظ اور سکیورٹی کی کمی محسوس ہوتی ہے۔‘

توکل کا ماننا ہے کہ جہاں کینیڈا کے زیادہ تر افراد ویلٹمین کے جرائم کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں لیکن ان ہلاکتوں نے ان افراد کو جو ظاہری طور پر مسلمان ہیں ’یہ سوال پوچھنے پر مجبور کر دیا ہے کہ آیا کینیڈا کی گلیوں میں چہل قدمی کرنا محفوظ بھی ہے یا نہیں۔‘

ویلٹمین کو قتل کے جرم میں سزا تو سنا دی گئی ہے لیکن اب بھی جج رینی یومیرانس کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ آیا ان کی جانب سے کیے گئے جرائم دہشتگردی کے زمرے میں آتے ہیں یا نہیں۔

ان ہلاکتوں کے جرم میں انھیں عمر قید کی سزا ہو گی لیکن اس میں تبدیلی اس وقت آ سکتی ہے اگر اس میں دہشتگردی کی دفعہ بھی شامل کر دی جائے۔

سزا کے حوالے سے باضابطہ سماعت 23 جنوری کو ہو گی۔

BBCUrdu.com بشکریہ