حماس کے اہم ترین رہنما صالح العاروری کا قتل جو مشرقِ وسطیٰ میں جنگ کے پھیلاؤ کا سبب بن سکتا ہے

صالح العاروری

،تصویر کا ذریعہReuters

  • مصنف, لیز ڈوسیٹ
  • عہدہ, چیف انٹرنیشنل نامہ نگار

مشرقِ وسطیٰ اور اس سے کہیں دور جو سائے اسرائیل غزہ جنگ کے باعث چھائے تھے وہ رواں ہفتے حماس کے رہنما صالح العاروری کی لبنان میں ہلاکت کے بعد مزید گہرے ہو گئے ہیں۔

العاروری حماس کے ڈپٹی سیاسی رہنما تھے جنھیں جنوبی بیروت میں ایک ڈرون حملے میں ہلاک کیا گیا تھا۔ وہ حماس کے مسلح گروہ القسام بریگیڈ میں ایک اہم رہنما تھے اور حماس رہنما اسماعیل ہنیا کے قریبی ساتھی سمجھے جاتے تھے۔ وہ حزب اللہ اور حماس کے درمیان رابطے کی غرض سے لبنان میں موجود تھے۔

سات اکتوبر کو شروع ہونے والی غزہ جنگ کے آغاز سے بھی پہلے لبنان میں حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ نے خبردار کیا تھا کہ لبنانی سرزمین پر کسی قسم کے حملے کے نتیجے میں ’طاقتور ردِ عمل‘ سامنے آئے گا۔

تاہم حزب اللہ اور اس کے ایرانی اتحادیوں کو معلوم ہے ان کا اس حوالے سے جو بھی ردِ عمل ہوا وہ اس جنگ کی سمت تبدیل کر سکتا ہے اور شاید حزب اللہ کا مقدر بھی۔

یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں تھی کہ کچھ ہی عرصے میں غزہ کے باہر حماس کے رہنماؤں کو ہدف بنایا جاتا رہا ہے۔

اسرائیلی وزیرِاعظم بنیامین نتن یاہو نے نومبر میں خبردار کیا تھا کہ اسرائیل ’حماس رہنماؤں کو ہر اس جگہ ہر نشانہ بنائے گا جہاں وہ موجود ہوں گے۔‘

چند ماہ پہلے نتن یاہو نے العاروری کا نام لیا تھا۔ حماس کے ڈپٹی رہنما امریکہ کے دہشتگردوں کی فہرست کا حصہ تھے اور سنہ 2018 سے ان کے سر کی قیمت پچاس لاکھ ڈالر رکھی گئی تھی۔

حماس رہنما

،تصویر کا ذریعہGetty Images

اسرائیل عام طور پر اس قسم کے ٹارگٹڈ قتل کرنے کے بعد نہ تصدیق کرتا ہے اور نہ ہی تردید لیکن یہ تنازع ٹارگٹڈ کلنگز سے بھرا ہوا ہے۔ اس تنازعے میں عام طور پر ایسے واقعات کے بعد ردِ عمل میں بدلہ لینے کی روایت بھی موجود ہے۔

اسرائیل اب سخت ردِ عمل کے لیے تیار ہو گا۔ حماس رہنماؤں اور ان کے اتحادیوں کی جانب سے فوری مسلح ردِ عمل کا مطالبہ کیا جا رہا ہے اور یہ آوازیں مقبوضہ غربِ اردن کی گلیوں سے بھی سنائی دے رہی ہیں۔

حزب اللہ اور حماس کو کچھ کرنا ہو گا اور وہ کرتے ہوئے نظر بھی آنا ہو گا۔ حزب اللہ کی جانب سے جاری پہلے بیان میں صبر کی تلقین کی گئی ہے۔

اس سے قبل اس مسلح اور سیاسی قوت نے غزہ جنگ میں صرف لفظی ردِ عمل دینے پر اکتفا کیا ہے اور اس کے علاوہ اسرائیل کی جنوبی سرحد پر اکا دکا حملے بھی کیے ہیں۔ اس محدود ردِ عمل کا مقصد لبنان کو ایک اور مہنگی جنگ میں پھنسانے سے بچانا ہے۔

تاہم حماس کے ایک ایسے رہنما کا جنوبی بیروت کے رہائشی علاقے میں قتل جو حزب اللہ اور ایران کے لیے ایک اس صورتحال میں پل کا کردار ادا کر رہا تھا نے حزب اللہ کو جھنجھوڑا ہے۔

تاہم حزب اللہ اس وقت فوری حملوں اور طویل گیم کے درمیان اپنے آپشنز پر غور کر رہا ہو گا۔

لبنان میں گروہ کی حمایت جنوبی علاقوں میں تو بہت زیادہ ہے لیکن بیروت اور اس کے شمال میں سنہ 2006 کی اسرائیل لبنان جنگ کی یادیں اب بھی اکثر کے ذہنوں میں تازہ ہیں اور ملک اب بھی متعدد ایسے بحرانوں کی زد میں ہے جو اس کے اپنے پیدا کردہ ہیں۔

یہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ سینیئر اسرائیلی رہنما ایک طویل عرصے سے حزب اللہ کے خطرے کا شمال میں خاتمہ کرنا چاہتے تھے۔ تاہم فی الحال اسرائیل کے شمال میں معاملات کنٹرول میں ہیں اور اسرائیلی فوج کی بڑی تعداد اس وقت غزہ اور غربِ اردن میں تعینات ہے۔

اسرائیل کا قریبی اتحادی امریکہ ہے اور اس نے اب تک کئی بار حزب اللہ کے خلاف جنگ شروع کرنے سے خبردار کیا ہے کیونکہ اس کے دور رس اثرات ہو سکتے ہیں۔

تاہم العاروری اور چھ دیگر افراد کے قتل جن میں حماس کے دو فوجی کمانڈر بھی شامل ہیں کے بعد سے خطے میں تناؤ میں اضافہ ہوا ہے۔ بحیرۂ احمر میں اسرائیل سے تعلق رکھنے والے بحری جہازوں کو ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغی نشانہ بنا رہے ہیں۔

اسرائیل کے وزیرِ دفاع یواو گیلانٹ نے حال ہی میں ان سات ممالک کا نام لیا جو اسرائیل کو نشانہ بنائے ہوئے ہیں۔ ان میں یمن، لبنان، شام اور عراق شامل ہیں۔

اس وقت مغربی دارالحکومتوں کی جانب سے لبنانی سیاست دانوں کو حوصلے سے کام لینے کی تاکید کی جا رہی ہے کیونکہ ایک وسیع جنگ کے خطرات شدت اختیار کر گئے ہیں۔

lebanon

،تصویر کا ذریعہGetty Images

تاہم اسرائیل اس حوالے سے آغاز سے بہت واضح ہے۔ اس کا جنگی مقصد ’حماس کی تباہی‘ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے ڈھانچے، مسلح ونگ، سیاسی رہنماؤں اور مالیتی ذرائع کا مکمل خاتمہ۔

تاہم تین ماہ بعد اسرائیل یہ مانتا ہے کہ ابھی ایک طویل جنگ باقی ہے۔

اسرائیل کے دشمن اور دوست یہ سوال پوچھ رہے ہیں کہ کیا حماس کو فوجی قوت کے ذریعے تباہ کیا جا سکتا ہے اور ایک ایسی جنگ جس میں بڑی تعداد میں عام شہریوں کی ہلاکتیں ہو رہی ہیں فلسطینی عوام میں مزید دکھ اور غم و غصے کا باعث بن رہی ہے۔

جن حماس رہنماؤں نے سات اکتوبر کے اسرائیل پر کیے گئے حملے کی منصوبہ بندی کی ان میں سے یحییٰ سنوار سمیت متعدد کے بارے میں اب بھی یہی گمان کیا جا رہا ہے کہ وہ غزہ میں ہی کہیں چھپے ہوئے ہیں۔

العاروری کی لبنان میں ہلاکت کے بعد ترکی اور قطر بھی محتاط ہوں گے جہاں حماس کے لیڈر موجود ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ وہ وہاں محفوظ ہیں۔

یہ ان اسرائیلی خاندانوں کے لیے بھی ایک مشکل لمحہ ہے جن کے پیارے اب بھی غزہ میں حماس کے پاس یرغمال ہیں۔

ان ہائی پروفائل ہلاکتوں کے بعد پہلا نقصان قاہرہ میں ہونے والی بات چیت میں تعطل کا باعث بنا ہے جو اسرائیلی جیلوں میں موجود فلسطینی قیدیوں اور حماس کی پاس موجود یرغمالیوں کے تبادلے کے بارے ہو رہی تھی۔

وزیرِ اعظم نتن یاہو اس بات پر بار بار زور دے رہے ہیں کہ ’صرف دباؤ بڑھانے سے ہی کامیابی ہو گی۔‘

اسرائیل نے اب دباؤ مزید بڑھا دیا ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ