ایشیا کا قدیم طریقہ ورزش ’تائی چی‘ ہانگ کانگ میں کیوں بے حد مقبول ہے؟
- مصنف, میتھو کیگن
- عہدہ, بی بی سی ٹراول
ہانگ کانگ میں صبح کا وقت ہے۔ ٹریفک کے شور اور روزانہ کے دفاتر کے سفر کا رش شروع ہونے کے ساتھ ہی شہر کی دھڑکن اپنے معمول کی طرف بڑھ جاتی ہے۔
لیکن دنیا کے سب سے زیادہ مصروف شہر میں سے ایک کے قلب میں ایک غیر متوقع پرسکون اور شفا بخش باغ ہے، جسے کم از کم ایک چھوٹا سا نخلستان کہہ سکتے ہیں جہاں رفتار یقینی طور پر نسبتاً سست ہے۔
شہر کے وسط میں واقع ایک سرسبز و شاداب جگہ ہانگ کانگ پارک ہے اور یہ تائی چی کے لیے مختص باغ ہے۔ اسے اس طرح ڈیزائن کیا گیا ہے کہ تائی چی کی مشق کرنے کے لیے اس میں ایک صحن ہے اور یہ بونسائی کے درختوں سے سجا ہوا ہے۔ یہاں ایک قسم کا پُرسکون ماحول ہے جو کہ ایک ایسے علاقے میں خوشگوار حیرت کا باعث ہے جہاں فلک بوس عمارتوں اور شہر کی زندگی کی گہما گہمی کا غلبہ ہو۔
اگر روزانہ نہیں تو بھی اس باغ کا کثرت سے استعمال کیا جاتا ہے، کیونکہ شہر بھر میں موجود اس طرح کے پارکوں میں مقامی لوگ زیادہ تر صبح کے وقت صدیوں پرانے مارشل آرٹ کی مشق کرنے کے لیے جمع ہوتے ہیں۔
ایسی ہی ایک صبح کی روشنی میں تائی چی (ایک قسم کی ورزش یا مارشل آرٹ) کے طلباء کا ایک گروپ اپنے استاد ماسٹر چاؤ کی قیادت میں باغ کو اپنے کلاس روم کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ تائی چی میں ایک حرکت، انداز یا وضع ہے جسے ‘شکل’ یا ‘فارم’ کہتے ہیں وہ اس کی مشق کر رہے ہیں، یعنی وہ صورت سیال بہنے کی مشق کر رہے ہیں۔
دیکھنے والوں کے لیے یہ مشق بے ساختہ اور سہل دکھائی دیتی ہے۔ طلبہ بغیر کسی رکاوٹ کے ایک حرکت سے دوسرے کی طرف فطری طور پر بہتے چلے جاتے ہیں، اور اس سکون کو ظاہر کرتے ہیں جو آس پاس گلیوں محلوں کی ہلچل سے بہت دور ہے۔ راہگیر انھیں رک کر دیکھتے ہیں۔ وہ ان حرکات سے سکون حاصل کرتے ہیں جو بظاہر نرم رو معلوم ہوتا ہے لیکن اس میں طاقت کی موجودگی ہوتی ہے۔
چاؤ کا کہنا ہے کہ ‘لوگوں کے خيال میں تائی چی محض کوئی نرم رو چیز ہے۔ لیکن اس میں سب کچھ ہے، یہ نرم ہے، دھماکہ خیز ہے، لطیف ہے، پرسکون اور حکمت سے بھری ہوئی ہے۔’
انھوں نے کہا کہ ‘اس کی تعریف کے لیے ہزار الفاظ ہیں، لیکن صحیح معنوں میں اس کی مکمل وضاحت کے لیے کوئی بھی لفظ نہیں ہے۔’
تائی چی قدیم چینی مارشل آرٹ کی ایک قسم ہے جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اس کی ابتدا 400 سال پہلے منگ خاندان کے دور سلطنت میں ہوئی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ صوبہ ہینان کے چنجیاگو گاؤں سے تعلق رکھنے والے ایک مقامی فوجی کمانڈر چن وانگٹنگ (1600-1680) تاریخی طور پر تائی چی کی بنیاد ڈالنے اور اس پر عمل کرنے والے پہلے شخص تھے۔
فوج سے ریٹائر ہونے کے بعد وانگٹنگ نے اپنے خاندان کو چوروں اور ڈاکوؤں سے بچانے کے لیے تائی چی کو جنگی فن کے طور پر تیار کیا۔ انھوں نے مارشل آرٹ کے مختلف پینتروں کی مہارتوں کو ‘تاؤست ین یانگ’ فلسفہ کے عناصر کے علاوہ روایتی چینی طب سے تیار کردہ نظریات کے ساتھ مربوط کیا۔ اس فلسفے کے تحت یہ خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ ہر چیز دو مخالف قوتوں پر مشتمل ہوتی ہے اور وہ ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر ایک مکمل تخلیق کرتی ہیں۔
آج کل تائی چی کی کم اور معتدل شدت کے ساتھ مشق کی جاتی ہے جس میں بنیادی طور پر مراقبہ، جسمانی بیداری، تمثیل اور کنٹرول کے ساتھ سانس لینے کی مشقیں شامل ہوتی ہیں۔ اس کا بنیادی مقصد دماغ اور جسم کی کنڈیشنگ کے ذریعے لمبی عمر حاصل کرنا ہے۔
ورزش کی یہ قدیم مشق چین بھر میں بے حد مقبول ہے، لیکن یہ تناؤ کو دور کرنے اور صحت کو بہتر بنانے کی صلاحیت کی وجہ سے ہانگ کانگ میں خاص طور پر پسند کی جاتی ہے۔ ہانگ کانگ کے لیے مشہور ہے کہ وہاں رہنے کے لیے عام طور پر لوگوں کو چھوٹی جگہیں ہی میسر ہیں۔ ایسے میں ورزش کے لیے کھلے میں یعنی شہر کے پارکوں یا تائی چی کے باغات میں جانا ایک اچھا طریقہ ہے۔
ہانگ کانگ میں بھی تیزی سے عمر رسیدہ آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے اور کہا جاتا ہے کہ سنہ 2038 تک اس کی آبادی کا ایک تہائی حصہ 65 سال یا اس سے زیادہ کی عمر کا ہو جائے گا۔ اس لیے حکومت کی طرف سے شہر کے معمر شہریوں کو صبح کے وقت اس طرح کی کلاسوں میں شرکت کی ترغیب دی جاتی ہے، جس کے بعد اکثر انھیں چائے کے ساتھ ڈم سم (کوئی میٹھی چیز) دی جاتی ہے جس کا وہ اپنے استاد اور ہم جماعت کے ساتھ لطف لیتے ہیں۔
تائی چی کی کلاسیں نہ صرف صحت مند زندگی کی ترغیب کو فروغ دیتی ہیں، بلکہ وہ بزرگوں کو سماجی برادری اور تنہائی کا مقابلہ کرنے میں بھی کام آتی ہیں۔
کچھ ماہرین تائی چی کے صحت سے متعلق فوائد کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں ہانگ کانگ میں پچھلے 50 سالوں میں عمر میں جو اضافہ ہوا ہے اس کے پس پشت اس کا بھی عمل دخل ہے۔
خیال رہے کہ ہانگ کانگ دنیا میں سب سے زیادہ متوقع عمر والا شہر ہے۔ شہر میں خواتین اوسطاً 87.6 سال جیتی ہیں جبکہ مردوں کی اوسط عمر 81.9 سال ہے۔ اس شہر نے جاپان اور اٹلی جیسے مقامات کو پیچھے چھوڑ دیا ہے جو اپنی لمبی عمر کے لیے مشہور ہیں۔
چائنیز یونیورسٹی آف ہانگ کانگ کے پروفیسر آئلین چان نے کہا کہ ‘پہلے ہونے والے مطالعوں نے اشارہ کیا ہے کہ لمبی عمر میں اضافہ آج کے بوڑھوں کے زیادہ فعال طرز زندگی سے منسلک ہے۔’ ان کی تحقیق کا خصوصی مرکز تائی چی ہے۔
یہ بھی پڑھیے
انھوں نے کہا: ‘تائی چی قلبی تنفس کے فعل، پٹھوں کی فٹنس اور جوڑوں کی لچک کو برقرار رکھتی ہے۔ لمبی زندگی کو فروغ دینے کے لیے روزانہ کم از کم 30 منٹ اور ہفتے میں کم از کم پانچ روز باقاعدگی سے تائی چی کی مشق کرنے کی سفارش کی جاتی ہے۔’
چاؤ ہانگ کانگ میں ‘چن سٹائل’ تائی چی انسٹی ٹیوٹ کے بانی ہیں جہاں انھوں نے 19 سال کے عرصے میں 3,000 سے زیادہ مقامی اور بین الاقوامی طلباء کو پڑھایا ہے۔ مارشل آرٹس کے ایک خاندان میں پیدا ہونے والے چاؤ کو اپنے والد سے ترغیب ملی۔ ان کے والد کنگ فو ماسٹر تھے۔ ان کے بارے میں وہ بتاتے ہیں وہ ایک منکسر مزاج انسان تھے۔ ان میں بہت قوت و طاقت تھی لیکن انھوں نے کبھی اس کا دکھاوا نہیں کیا۔
چاؤ نے کہا کہ ‘جب میں 16 سال کا تھا تو میں نے تائی چی کی طاقت کے بارے میں کتابوں سے علم حاصل کیا اور میں اس کے فلسفے سے حیران رہ گیا تھا۔ لہذا، میں نے اس کی کلاس لینے کا فیصلہ کیا، اور اس طرح میں نے اپنے تائی چی کا سفر شروع کیا۔’
چاؤ خوش قسمت تھے کہ انھیں چین کے مین لینڈ میں ہینان صوبے میں اپنی جائے پیدائش پر تائی چی کی اصل شکل چن طرز کی تائی چی سیکھنے کا موقع ملا۔
(چن طرز کے علاوہ تائی چي کے چار دیگر روایتی انداز ہیں: یانگ، وو، وو ہاؤ اور سن۔ ہر ایک کی حرکت مختلف ہوتی ہے اور وہ ایک دوسرے سے بہت مختلف نظر آتے ہیں۔) چند سالوں کے مشاہدے اور تربیت کے بعد چن کے خاندان نے انھیں وارث کے طور پر قبول کر لیا، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ باضابطہ طور پر ہانگ کانگ میں چن طرز کے ماسٹر کے طور پر پڑھا سکتے تھے۔
چاؤ کو جسمانی اور ذہنی فوائد وونوں کے طور پر تائی چی پسند ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ‘ذہنی طور پر، تائی چی ایک قدیم چینی طریقہ ہے جو کہ ذہنی تناؤ کو دور کرنے اور ہماری روح کو سکون دینے کا ایک قدرتی اور منفرد طریقہ ہے۔ جسمانی طور پر، یہ گھٹنوں اور کمر کی حرکت میں لچک پیدا کرنے میں مدد کرتا ہے، توازن کو بہتر بناتا ہے اور گرنے کو روکتا ہے، پٹھوں کی طاقت اور لچک اور تربیتی ہم آہنگی میں اضافہ کرتا ہے۔’
اس کی وجہ یہ ہے کہ حرکتیں عام طور پر دائرہ نما ہوتی ہیں اور اس میں کبھی زبردستی نہیں کی جاتی جس سے پٹھے تناؤ کے بجائے آرام دہ محسوس کرتے ہیں، جوڑ پوری طرح سے بڑھے یا جھکے ہوئے نہیں ہوتے، اور جوڑنے والے خلیے پر پھیلنے کا زور نہیں پڑتا۔ چاؤ کا کہنا ہے کہ انھوں نے خود اس سے حاصل ہونے والی صحت کے فوائد کا تجربہ کیا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ ‘جب میں بچہ تھا تو مجھے ہمیشہ بخار آ جاتا تھا اور کھانسی رہتی تھی۔ لیکن جیسے جیسے میں بڑا ہوا اور تائی چی کی مشق کرنا شروع کی، سال بہ سال، میری صحت بدلتی گئی، اور اس نے مجھے اب بہت مضبوط بنا دیا ہے۔ ذہنی طور پر بھی اس نے مجھے اپنی سوچ اور اپنے جذبات پر کیسے قابو پانا ہے یہ سکھایا ہے۔’
چاؤ کا پختہ یقین ہے کہ تائی چی اپنے آپ میں شفا بخش ہو سکتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ‘یہ لوگوں کی بہت مدد کر سکتی ہے، خاص طور پر ہانگ کانگ جیسے مصروف شہر میں۔ یہ ذہنی سکون اور روح کے سکون کا باعث ہو سکتی۔ اور یہ بہت اہم ہے۔’
پھر چاؤ تائی چی گارڈن میں اپنے طلبہ کو ورزش کے مختلف انداز یا طرز بتاتے ہیں۔ ان میں خاص حرکات ‘بودھ مسل’ (مکا مارنے کا ایک طریقہ) اور ‘سفید ہنس کے پروں کو پھیلانے والا انداز’ (جس طرح ہنس آگے بڑھ کر پیچھے ہٹتا ہے اور بہت تیزی کے ساتھ اچانک کود پڑتا ہے) شامل ہے۔ ان کو دیکھنا یقینی طور پر سکون بخش نظر آتا ہے۔ لیکن اس میں پہلی نظر میں سمجھ آنے والی چیز سے زیادہ اور بھی بہت کچھ ہے۔
چن طرز کی تائی چی سیکھنے کے لیے 15 مدارج ہیں۔ پہلی سطح میں 74 حرکات کو ایک ترتیب کے طور پر سیکھنا شامل ہے، جسے ‘فارم’ کہا جاتا ہے۔ چاؤ نے بتایا کہ ‘جب آپ پہلے درجے کو پورا کر لیتے ہیں، تو پھر ہم باقی 14 مدارج میں انھی شکلوں (74 حرکتیں) کا استعمال کرتے ہیں، لیکن ان میں ہم مزید گہرائی میں جاتے ہیں اور دوسری سطحوں میں اندرونی طاقت کا ادراک کرتے ہیں۔’
جب گہرائی میں جا کر حرکات کو صحیح طریقے سے سیکھنا ہوتا ہے تو اس میں اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے ظاہری حرکات اور اندرونی حصے قی (توانائی) سے ہم آہنگ ہوں اور ین اور یانگ دونوں ایک ساتھ ہم آہنگی میں حرکت کر رہے ہوں۔ اندرونی توانائی کے بہاؤ کو متحرک کرکے یہ جسم کو ری چارج کرنے میں مدد کرتا ہے اور ڈیٹاکس کرنے میں مدد کرتا ہے یعنی جسم سے زہریلے مادے کو دور کرتا ہے۔
پروفیسر چان نے وضاحت کرتے ہوئے کہا: تائی چی ورزش میں قی (طاقت) کی پہچان، اس کی نشوونما اور استعمال شامل ہے، جو جسم میں توانائی کا اشاریہ ہے۔’ انھوں نے مزید کہا کہ ‘نظریاتی اصولوں کے مطابق روایتی چینی طب میں پنہاں بنیادی توانائی ہے جو زندگی کو برقرار رکھتی ہے اور جسم میں میریڈیئنز (فراز یا نصف النہار) اور کولیٹرلز (پہلو بہ پہلو) چینلز کے ساتھ بہتی ہے، جو تمام اعضاء کے نظاموں اور بافتوں کے انضمام کو بڑھاتی ہے اور اچھی صحت اور لمبی عمر کو فروغ دیتی ہے۔’
چاؤ کہتے ہیں کہ وہ کس طرح قی کو اپنی مشق میں استعمال کرتے ہیں۔ چاؤ نے کہا: ‘تائی چی میں ہر حرکت کے اختتام پر، ہم اس وقت تک وضع یا انداز کو تھامے رکھتے ہیں جب تک کہ قی انرجی نیچے جا کر زمین میں سرایت نہ کر جائے۔ ہم اس حالت کو ‘ین’ کہتے ہیں۔ پھر آپ اگلی وضع (انداز یا حرکت) شروع کر سکتے ہیں اور زمین سے اپنی طاقت لے کر سانس کے ذریعے اس کو اپنے جسم کے اندر گھومنے دیتے ہیں۔ ہم اس حالت کو ‘یانگ’ کہتے ہیں۔ اس طرح 74 حرکات کی اپنی پوری ترتیب ہے جو ایک تال اور رفتار کی تبدیلی پر مشتمل ہے۔ یعنی یہ ترتیب ایک کے بعد ایک ین اور یانگ ہے مشتمل ہے۔ یہی تائی چی کا مفہوم ہے۔’
ہانگ کانگ میں مقیم تائی چی کی فیلو ٹیچر لنڈا فنگ کی خواہش ہے کہ تائی چی کا مفہوم کچھ ایسا ہے جسے زیادہ سے زیادہ لوگ بہتر طور پر سمجھ سکیں۔
فنگ نے کہا: ‘ہم اکثر تائی چی کو غلط سمجھتے ہیں۔ جب ہم تائی چی کہتے ہیں تو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ صرف آپ کے بازوؤں اور ٹانگوں کو حرکت دینا اور کچھ حرکت کرنے والی ورزش کرنا ہے، لیکن تائی چی کی حرکتیں تائی چی کے فلسفے کے ذیلی سیٹ کا حصہ ہیں۔’
فنگ تائی چی کے لی طرز پر عمل پیرا ہیں اور وہ اسی کی تربیت دیتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ تائی چی محض جسمانی حرکات نہیں بلکہ اس سے بڑھ کر ہے، یہ ایک طرز زندگی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس میں فنون، موسیقی، طرز زندگی شامل ہے اور آپ کو ین اور یانگ کو سمجھنا ہوگا جو کہ تائی چی کا بنیادی حصہ ہے۔
فنگ نے کہا: ‘تائی چی میں ‘ین’ یعنی جسم اور ‘یانگ’ یعنی ہمارے کے درمیان باہمی ربط پیدا کیا جاتا ہے جس میں دماغ اور جسم ہمیشہ ایک ساتھ ایک ہم آہنگی کے ساتھ کام کرتے ہیں۔’
ہانگ کانگ کے چکرا دینے والے مرکزی کاروباری ضلع کی ایک عمارت کی 11 ویں منزل پر تائی چی کی ایک پرسکون پناہ گاہ ہے جہاں فنگ اپنے طالب علموں کی ابتدائی تائی چی سیکھنے میں رہنمائی کرتی ہیں۔ لندن کے رائل بیلے سکول میں تربیت کے بعد نیو یارک کے جولیارڈ سکول سے بیلے ڈانسر کے طور پر تربیت لینے کے بعد ان کے تائی چی کے انداز میں ایک قدرتی دلآویزی ہے جو ان کو ان کے انداز مجسم کرتی ہے۔
تائی چی سکھانے کے علاوہ فنگ ہر صبح خود بھی تائی چی کی مشق کرتی ہیں۔ بسا اوقات وہ گھر کے باہر کھلے میں اس کی مشق کرتی ہیں اور کہتی ہیں کہ اس سے انھیں اپنی زندگی میں توازن حاصل کرنے میں مدد ملتی ہے۔
فنگ کا کہنا ہے کہ ‘تائی چی میں آپ اپنی حرکت کو سست کر دیتے ہیں، لیکن پھر بھی آپ کچھ مخصوص پیٹر میں سانس لے رہے ہوتے ہیں اور اس طرح یہ حرکت کسی مراقبے کی طرح ہے۔ اس سطح کی توجہ کے ساتھ کہ وقت غائب ہو جاتا ہے، ایسا لگتا ہے کہ کوئی وقت نہیں ہے۔ یہ ایک زبردست احساس ہے۔’
فنگ کا کہنا ہے کہ جب چیزیں بحران میں ہوں تو بھی آپ رفتار کو سست کر سکیں اور آپ میں وضاحت اور آگاہی ہو یہ تائی چی کے بہترین صحت کے فوائد میں سے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ‘جب حالات قابو سے باہر ہوں، تب بھی آپ تائی چی کی مشق کے ساتھ طوفان کی آنکھ کی طرح سکون برقرار رکھ سکتے ہیں۔ یہ تائی چی کا بنیادی حصہ ہے: یہ ہم آہنگی کے بارے میں ہے۔’
اور فنگ کا خیال ہے کہ تائی چی ایسے نوادرات کا خزانہ ہے جس کی دنیا میں آج سے پہلے کبھی اتنی ضرورت نہیں رہی۔ ‘ہمیں اسے سب کے ساتھ بانٹنا ہوگا، خاص طور پر 21ویں صدی میں جہاں بھٹکنے کے بہت سارے طریقے ہیں اور ہم مسائل اور یہاں تک کہ بیماریوں سے بھی پریشان ہیں۔ تائی چی واقعی لوگوں کے لیے بہت اہم ہے تاکہ ہم خوشی، حکمت اور صحت سے ہم آہنگ ہو سکیں۔’
Comments are closed.