یارکشائر کے سابق کھلاڑی عظیم رفیق نے یہود مخالف فیس بک پیغامات پر معذرت کر لی
برطانیہ میں یارکشائر کرکٹ کلب کے سابق کھلاڑی عظیم رفیق نے یہود مخالف فیس بک پیغامات پر معذرت کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ سنہ 2011 سے فیس بک پیغامات میں یہود مخالف زبان استعمال کرنے پر ‘نہایت شرمندہ’ ہیں۔
رواں ہفتے سابق سپنر رفیق نے برطانوی پارلیمان کی ڈیجیٹل، کلچر، میڈیا اور سپورٹ کی قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ ان کے یارکشائر کلب کے دور میں نسل پرستانہ جملوں کا باقاعدہ استعمال ہوتا تھا۔
یاد رہے کہ عظیم رفیق یارکشائر کلب کے خلاف نسل پرستی کے الزامات کے بعد پارلیمانی کمیٹی کے سامنے مزید شواہد دینے کے لیے پیش ہوئے ہیں۔
30 سالہ عظیم رفیق کا کہنا تھا کہ ان کے پاس ان پیغامات کا ‘کوئی جواز نہیں تھا۔’ انھوں نے ایک بیان میں کہا کہ ‘مجھے خود پر بہت غصہ ہے اور میں یہودی برادری سے معافی مانگتا ہوں’۔
یہ پیغامات رفیق اور ایک دوسرے کرکٹر کے درمیان فیس بک پر بھیجے گئے تھے۔
رفیق کا کہنا ہے کہ انھوں نے فیس بک سے وہ پیغامات ہٹا دیے ہیں تاکہ وہ مزید کسی جرم کا ارتکاب نہ کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘میرے پاس ان پیغامات کا قطعی کوئی جواز نہیں ہے اور میں پیغامات کے اس تبادلے پر شرمندہ ہوں۔’ انھوں نے مزید کہا کہ ‘میں اس وقت 19 برس کا تھا اور آج آپ امید اور یقین رکھیں میں ایک مختلف شخص ہوں۔’
یہودیوں کی لیڈرشپ کونسل کے شریک چیف ایگزیکٹو کلاڈیا منڈوزا کا کہنا تھا کہ ‘اس میں کوئی شک نہیں’ کہ رفیق نے سنہ 2011 سے اب تک بہت کچھ سیکھ لیا ہے۔ میڈوزا نے ٹوئٹر پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ‘اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ عظیم رفیق کے لیے بہت خفت کا معاملہ ہے۔’
ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘لیکن رفیق نے اس کی مکمل ذمہ داری قبول کی ہے، اس پر معافی مانگی ہے اور بے شک انھوں نے اس وقت سے اپنے تجربات سے نسلی امتیاز کے متعلق بہت کچھ سیکھ لیا ہے۔’
برطانوی یہودی برادری کے بورڈ آف ڈپٹیز کے صدر ماری وینڈر ژائل نے کہا ‘ عظیم رفیق نے کرکٹ میں نسلی امتیاز برتنے والوں سے بہت کچھ برداشت کیا ہے اور اب وہ سمجھ سکتے ہیں کہ ان پیغامات کے تبادلے سے ان یہودیوں کو کیا تکلیف پہنچی ہو گی جنھوں نے ان کی حمایت کی تھی۔’
ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘یقیناً انھوں نے دل سے معافی مانگی ہے اور ہمارے پاس کوئی وجہ نہیں ہے کہ ہم ان کی دیانت داری پر شک کریں۔’
یاد رہے کہ عظیم رفیق نے برطانیہ کے کرکٹ کلب یارکشائر میں سنہ 2008 سے 2014 اور 2016 سے 2018 کے دوران کرکٹ کھیلنے کے عرصے میں نسلی امتیاز کا سامنا کرنے سے متعلق کھل کر بات کی تھی۔
انھوں نے پہلی مرتبہ نسلی امتیاز کا سامنا کرنے کے اپنے تجربات کے متعلق ستمبر 2020 میں بات کی تھی اور یہ دعویٰ کیا تھا کہ یارکشائر کلب میں’اداراتی سطح پر نسلی امتیاز’ کا اس حد تک سامنا کرنا پڑا تھا کہ انھوں نے خودکشی کرنے کے بارے میں سوچا تھا۔
یارکشائر کلب نے ان کے اس بیان کے بعد ایک تحقیقات کی تھی جس کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ عظیم رفیق کو ‘نسلی طور پر ہراساں کیا گیا اور انھیں بُلی بھی کیا گیا۔’ اور اس پر کلب نے معافی بھی مانگی لیکن انھیں رفیق کی شکایات کو اس طرح سے نمٹانے پر سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔
یہ بھی پڑھیے
کلب کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس رپورٹ کی روشنی میں کسی کے خلاف کوئی انضباطی کارروائی نہیں کی جائے گی۔
منگل کے روز کمیٹی کے سامنے بات کرتے ہوئے رفیق نے انگلش کرکٹ کو ‘ادارتی سطح پر نسل پرست’ قرار دیا اور یہ بھی بتایا کہ نسل پرستانہ زبان، بشمول وہ اصطلاحات جو ان کے اور پاکستانی میراث رکھنے والے دوسرے افراد کو نشانہ بناتیں، ان کے یارکشائر کے دور میں ‘مسلسل’ استعمال کی جاتیں اور اس رویے کا ‘کبھی خاتمہ نہیں کیا گیا۔’
یارکشائر اکیڈمی کے سابق کھلاڑیوں عرفان امجد اور تبسم بھٹی نے بھی کلب پر وہاں گزارے گئے وقت کے دوران نسل پرستانہ رویے کے الزامات عائد کیے ہیں۔
ایسکس کو بھی نسل پرستانہ الزامات کا سامنا ہے اور اس معاملے میں وہ ان افراد کی سامنے آنے پر حوضلہ افزائی کر رہے ہیں جنھوں نے اس کا تـجربہ کیا تھا۔
اس سے قبل جمعرات کو یارکشائر کرکٹ کلب کے سابق اور سمرسیٹ کے موجودہ بولر جیک بروکس نے سنہ 2012 میں نسل پرستانہ زبان میں کی گئیں دو ٹویٹس پر ‘دلی معافی’ مانگی تھی۔ بروکس نے انڈیا کے بلے باز چھتیس ور پوجارا کو ‘سٹیو’ کہنے پر معافی مانگی تھی۔
Comments are closed.