بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

روسی ساختہ ایس 400 میزائل سسٹم کتنا کارگر ہے اور کیا یہ انڈیا کو خطے میں برتری دلوا پائے گا؟

ایس-400: روس سے حاصل کیا گیا جدید میزائل سسٹم کتنا مہلک ہے اور یہ انڈیا کو خطے میں برتری دلوا پائے گا؟

  • شکیل اختر
  • بی بی سی اردو ڈاٹ کام، نئی دہلی

مودی، پیوتن

،تصویر کا ذریعہAFP

روس نے فضائی حملوں کا دفاع کرنے والے جدید ترین ’ایس 400‘ میزائلوں کی انڈیا کو فراہمی شروع کر دی ہے۔

امریکہ کی جانب سے پابندیوں کے اندیشوں کے سبب خریداری کا معاہدہ طے پا جانے کے باوجود انڈیا ان جدید میزائلوں کو روس سے حاصل کرنے سے ہچکچاہٹ کا شکار تھا۔

اطلاعات کے مطابق انڈیا اور چین کے مابین کشیدگی کے بعد چین نے مشرقی لداخ میں ایکچول کنٹرول لائن پر یہی روسی ساختہ میزائل سسٹم نصب کیا ہوا ہے۔

انڈیا نے روس سے تقریباً ساڑھے پانچ ارب ڈالر مالیت کے پانچ ایس 400 ٹرائمپف میزائل نظام معاہدہ سنہ 2018 میں کیا تھا۔

لیکن سابق ٹرمپ انتظامیہ کے دور میں امریکہ اور روس کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے درمیان امریکہ نے بیشتر ممالک پر روس سے ہتھیار خریدنے پر پابندی عائد کر دی تھی۔ ایس 400 بہت پہلے انڈیا کو فراہم کیے جانے تھے لیکن امریکہ کی ‎اس حوالے سے تنبیہ کے سبب یہ میزائل انڈیا نہیں آ سکے تھے۔

لیکن اب اچانک انڈین اور روسی اہلکاروں نے یہ اعلان کیا ہے کہ ان میزائلوں کے پہلے یونٹ کی سپلائی شروع ہو گئی ہے۔

اطلاعات کے مطابق یہ میزائل نظام الگ الگ حصوں میں فضائیہ اور بحریہ کے مال بردار جہازوں کے ذریعے انڈیا کے ایک دفاعی اڈے پر لائے جا رہے ہیں۔

400

،تصویر کا ذریعہGetty Images

روسی ماہرین انڈیا پہنچ چکے ہیں اور وہ ان میزائلوں کے الگ الگ ٹکڑوں کو یہاں ایک ساتھ جوڑ کر مکمل ایس 400 مزائل نظام میں تبدیل کرنے میں مصروف ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اسے اسمبل کرنے کے بعد مارچ تک انھیں نصب کر دیا جائے گا۔

ایس 400 میزائل کو دنیا کا جدید ترین اور انتہائی مؤثر فضائی دفاعی نظام خیال کیا جاتا ہے۔

یہ نظام فضا سے کیے جانے والے سبھی حملوں یعنی ڈرون، میزائل، راکٹ اور جنگی جہازوں سے کیے جانے والے حملوں سے تحفظ فراہم کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔

ترکی اور چین یہ میزائل سسٹم روس سے پہلے ہی حاصل کر چکے ہیں۔ سعودی عرب، مصر اور قطر بھی اسے خریدنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

دفاعی تجزیہ کار راہل بیدی کہتے ہیں کہ یہ ایک بہت عمدہ ہتھیار ہے۔

یہ بھی پڑھیے

راہل کے مطابق ’یہ بنیادی طور پر ایک دفاعی میزائل نظام ہے۔ یہ 40 کلومیٹر سے 600 کلومیٹر کی دوری تک بیک وقت تقریباً چار سو ٹارگٹس پر نظر رکھ سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر پاکستان میں کہیں بھی کوئی طیارہ پرواز کرتا ہے تو انڈیا کو وارننگ آ جاتی ہے کہ وہاں سے کسی طیارے نے پرواز بھری ہے۔ اس میں چار طرح کے کروز میزائل ہیں جو آنے والے میزائلوں، جنگی طیاروں اور ڈرونز کو تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔‘

تصویر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

انڈیا کے دفاعی ماہرین کے مطابق یہ میزائل پاکستان اور چین کے فضائی حملوں کو زائل کرنے کے مدنظر حاصل کیا گیا ہے اور ان کے مطابق پورا میزائل نظام اسمبل ہونے کے بعد اسے چین یا پاکستان کی سرحد کے نزدیک کسی مقام پر نصب کیا جائے گا۔ سبھی پانچوں یونٹ سنہ 2003 تک ملنے کی توقع کی جا رہی ہے۔

راہل کا کہنا ہے کہ روس سے اسلحہ خریدنے کے حوالے سے امریکی پابندیوں کا مسئلہ ابھی حل نہیں ہوا ہے۔

’امریکی قانون میں ایک شق ہے جس کے تحت امریکی صدر کسی ملک کو پابندی سے خصوصی استثنیٰ دے سکتے ہیں۔ انڈیا یہ امید کر رہا ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن انڈیا کے خلاف پابندیاں نہیں لگائیں گے کیوںکہ انڈو پیسیفک حکمت عملی میں امریکہ کو انڈیا کی ضرورت ہے۔‘

دوسری جانب دفاعی ماہر پروین ساہنی نے بی بی سی اُردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایس 400 ایک اچھا ہتھیار ہے لیکن یہ بیلسٹک میزائل کے خلاف غیر مؤثر ہے۔

وہ کہتے ہیں ’چین اور انڈیا دونوں کے پاس ایس 400 ہے، اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے کیونکہ چین کی مجموعی صلاحیت انڈیا سے بہت زیادہ ہے۔ اس لیے ایک ہتھیار سے ساری امید لگا کر بیٹھ جانا ایک غلط طریقہ ہو گا۔‘

راہل بیدی کا بھی کہنا ہے کہ ملٹری صلاحیتوں میں چین اور انڈیا کا موازنہ کرنا غیر دانشمندانہ ہو گا۔ انھوں نے کہا کہ چین انڈیا سے بہت زیادہ آگے ہے اور وہ ملٹری صلاحیت میں ایک یا ڈیڑھ جنریشن آگے نکل چکا ہے۔

پروین ساہنی کہتے ہیں کہ انڈیا کی سرحدوں پر حالات انتہائی خراب ہیں۔

’آزادی کے بعد پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ چین اور پاکستان دونوں محاذوں سے خطرہ بالکل حقیقی ہے۔ سوال یہ نہیں ہے کہ آپ ہتیھاروں کی خریداری پر پیسہ خرچ کر رہے ہیں۔ سوال یہ ہے آپ صحیح ہتھیار خرید رہے ہیں؟ میرے خیال میں چین کا مقابلہ کرنے کے لیے جو ہتھیار خریدے جا رہے ہیں وہ مؤثر نہیں ہیں۔ انڈیا کو پہلے یہ اندازہ لگانا چاہيے کہ چین کی صلاحیت کیا ہے اور وہ کس طرح لڑے گا۔‘

مگر دوسری جانب ایس 400 کی ڈلیوری سے انڈیا کے عسکری حلقوں میں کافی خوشی پائی جاتی ہے۔

فضائیہ کے ماہرین کا خیال ہے اس سے انڈیا کی دفائی قوت میں زبردست اضافہ ہو گا۔ انڈیا آئندہ چند مہینوں میں امریکہ سے انتہائی مؤثر اور کامیاب پریڈیٹر ڈرون بھی حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.