’ہمیں بچا لو، ہر طرف دھواں بھرا ہوا ہے‘: دبئی میں آتشزدگی کے باعث ہلاک ہونے والے تین پاکستانی کزن کون ہیں؟

تصاویر

،تصویر کا ذریعہHaji Muhammad Saeed

،تصویر کا کیپشن

دبئی کی رہائشی عمارت میں آگ لگنے کے باعث ہلاک ہونے والے پاکستانی: (دائیں سے بائیں) سجاد، بلال اور ملک فاروق

  • مصنف, محمد زبیر خان
  • عہدہ, صحافی

سنیچر (15 اپریل) کے روز لگ بھگ دن 12 بجے کا وقت تھا جب موبائل فون پر موصول ہونے والی کال کے باعث محمد جمیل کی آنکھ کُھلی۔ جمیل کی نائٹ شفٹ کچھ دیر پہلے ہی مکمل ہوئی تھی جس کے بعد وہ کچھ نیند لینے کی غرض سے ابھی لیٹے ہی تھے۔

موصول ہونے والی کال جمیل کے کزن بلال کی تھی جو اُن کے ساتھ روزگار کے سلسلے میں دبئی میں مقیم تھے اور یہ دونوں کزن ایک ہی کمپنی میں کام کرتے تھے۔

جمیل بتاتے ہیں کال موصول ہونے سے تھوڑی دیر پہلے ہی انھوں نے اور بلال نے اپنی نائٹ شفٹ مکمل کی تھی۔ شفٹ مکمل ہونے کے بعد بلال نے اُن سے کہا کہ وہ اپنے کمرے میں جا کر آرام کرنا چاہتے ہیں تاہم جمیل جو تھوڑے زیادہ تھکے ہوئے تھے انھوں نے بلال سے کہا کہ وہ تھوڑی دیر کام کی سائیٹ پر ہی آرام کر کے کمرے میں آئیں گے۔

ان دونوں کا تعلق پنجاب کے ضلع ڈیرہ غازی خان کے علاقے دراہمہ ٹبی کھاڑک سے ہے اور اپنے خاندانوں کے بہتر مستقبل کے لیے یہ دونوں کزن کچھ عرصہ پہلے ہی دبئی پہنچے تھے تاکہ محنت مزدوری کر کے گھر والوں کے حالات کچھ بہتر بنائے جا سکیں۔

جمیل اور بلال کے دو اور کزن ملک فاروق اور محمد سجاد بھی روزگار کے سلسلے میں دبئی میں ہی مقیم تھے اور یہ چاروں افراد اکھٹے دبئی کے قدیمی علاقوں میں سے ایک ’الراس‘ میں واقع ایک کثیر المنزلہ رہائشی عمارت کے ایک کمرے میں مقیم تھے۔

جمیل بتاتے ہیں کہ جیسے ہی انھوں نے بلال کی کال موصول کی تو ان کے کزن نے چیختے ہوئے بتایا کہ ان کی عمارت میں خوفناک آگ بھڑک اٹھی ہے جو بہت تیزی سے پھیل رہی ہے۔

جمیل کے مطابق بلال لگاتار چِلا رہا تھا۔ ’ہمیں بچا لو۔۔۔ ہمیں بچا لو۔۔۔ آگ لگی ہوئی ہے۔۔۔ ہر طرف دھواں پھیل رہا ہے۔۔۔‘ اس کے بعد فون کی لائن کٹ گئی۔

جمیل بتاتے ہیں کہ گھبراہٹ کے عالم میں انھوں نے یکے بعد دیگر عمارت میں موجود اپنے تینوں کزنز سے رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر کامیابی نہیں ہو پائی۔

ان کے مطابق اس صورتحال میں وہ فوراً عمارت کی طرف دوڑے تو وہاں آگ کے شعلے نظر آ رہے تھے۔

’میں نے عمارت میں جانے کی کوشش کی مگر مجھے اور بہت سے لوگوں کو اندر نہیں جانے دیا گیا کیونکہ فائر بریگیڈ اور دیگر امدادی عملہ آگ بجھانے کے عمل میں مصروف تھا۔‘

بعدازاں معلوم ہوا کہ عمارت میں لگنے والی آگ کے باعث ان کے تینوں کزن ملک فاروق، محمد بلال اور محمد سجاد ہلاک ہو چکے ہیں۔

اس واقعہ میں مجموعی طور پر 16 افراد ہلاک ہوئے جن میں پاکستان، انڈیا اور دیگر ممالک کے شہری شامل ہیں۔

توقع کی جا رہی ہے کہ تینوں پاکستانیوں کی میتیں رواں ہفتے پاکستان پہنچ جائیں گی۔

واقعہ کب اور کیسے پیش آیا؟

دبئی

،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشن

متاثرہ عمارت کی تصویر

دبئی کی رہائشی عمارت میں آگ لگنے کا واقعہ سنیچر کے روز پیش آیا تھا جس میں تین پاکستانی اور چار انڈین شہریوں سمیت مجموعی طور پر 16 افراد ہلاک جبکہ نو زخمی ہوئے ہیں۔

یہ واقعہ دبئی کے پرانے علاقے ’الراس‘ میں واقع ایک پانچ منزلہ رہائشی عمارت میں پیش آیا۔ یاد رہے کہ اس علاقے میں زیادہ تر تارکین وطن بستے ہیں۔

دبئی سول ڈیفنس کا کہنا ہے کہ آگ پھیلنے کی وجہ یہ تھی کہ اس عمارت میں بلڈنگ سکیورٹی اور سیفٹی کے اقدامات تجویز کردہ سٹینڈرڈز کے مطابق نہیں تھے۔ حکام کے مطابق آگ لگنے کے کچھ ہی دیر بعد آگ بجھانے والے امدادی کارکن موقع پر پہنچ چکے تھے۔

الراس نامی علاقہ دبئی کے صرافہ بازار اور مسالے والی مارکیٹ کے قرب میں واقع ہے اور یہ دبئی کا معروف سیاحتی مقام بھی ہے۔

دبئی کے محکمہ سول ڈیفنس نے متحدہ عرب امارات کے اخبار ’دی نیشنل‘ کو بتایا کہ اس حوالے سے فی الحال مزید کچھ نہیں بتایا جا سکتا کیونکہ آگ لگنے کی وجوہات کا جائزہ لیا جا رہا ہے اور تفتیش جاری ہے۔

محکمہ سول ڈیفنس نے کہا ہے کہ یہ ضروری ہے کہ ’رہائشی اور تجارتی عمارتوں کے مالک اور رہائشی سکیورٹی اور سیفٹی اقدامات اور گائیڈ لائنز پر مکمل طور پر عمل کریں تاکہ اس طرح کے واقعات سے بچا جا سکے۔‘

’گندم کی فصل کیسی ہوئی ہے؟‘

دراہمہ ٹبی کھاڑک کے رہائشی اور تینوں ہلاک ہونے والوں پاکستانی کزنز کے قریبی عزیز محمد رمضان نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے تینوں رشتہ دار مزدور پیشہ تھے جو اپنے اپنے خاندانوں کے لیے بہتر زندگی کی تلاش میں دبئی گئے تھے۔ ان کے مطابق وہ اپنے اپنے خاندانوں کا سہارا تھے اور تینوں اپنے پیچھے دردناک کہانیاں چھوڑ گئے ہیں۔

محمد رمضان بتاتے ہیں کہ ملک فاروق نہ صرف اُن کے کزن تھے بلکہ برادر نسبتی بھی تھے جن کی عمر لگ بھگ 28 سال تھی۔ انھوں نے سوگواران میں چار بچے، بیوہ اور بیمار ماں کو چھوڑا ہے۔ اسی طرح 36 سالہ محمد بلال کے پانچ جبکہ 30 سالہ محمد سجاد کے چھ کم عمر بچے ہیں۔

محمد رمضان کا کہنا تھا کہ اُن کے علاقے میں محنت مزدوری اور روزگار کے زیادہ وسائل نہیں، جس کی وجہ سے نوجوان اکثر دوسرے شہروں یا خلیجی ممالک کا رُخ کرتے ہیں اور اسی سلسلے میں یہ تینوں بھی کچھ عرصے سے دبئی میں تھے۔ ملک فاروق کو دبئی رہتے ہوئے لگ بھگ پانچ جبکہ محمد بلال اور محمد سجاد کو بھی تقریباً اتنا ہی وقت ہوگیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

ان کا کہنا تھا کہ تینوں کے ساتھ بات چیت ہوتی رہتی تھی۔ ’ابھی کچھ دن پہلے فاروق کے ساتھ بات ہوئی تھی۔ اس کی علاقے میں ایک ایکٹر زمین تھی۔ اس زمین پر جو گندم پیدا ہوتی تھی اس سے وہ اپنے گھر کی ضرورت کو پورا کرتا تھا۔ فون پر بھی وہ گندم کے بارے میں پوچھ رہا تھا۔‘

محمد رمضان کا کہنا تھا کہ وہ موسمی حالات کی وجہ سے فصل کے حوالے سے فکر مند تھا۔ ’میں نے اس کو بتایا کہ گندم کٹائی کے لیے تیار ہے۔ کچھ کاٹ لی ہے، کچھ رہتی ہے۔ تو وہ کہہ رہا تھا کہ اگر فصل اچھی نہیں ہوئی تو پھر علاقے میں اگر کوئی فروخت کر رہا ہو تو اس سے خرید لیں کیونکہ مارکیٹ میں تو آٹے کی قیمتیں بہت بڑھ چکی ہیں۔ گھر کی گندم ہو گئی تو سال بھر سہولت رہے گی۔ ‘

’یتیم بھتیجوں اور فالج زدہ بھائی کے خاندان کے کفیل‘

محمد رمضان کا کہنا تھا کہ فاروق کا بڑا بھائی کیسنر سے زندگی کی بازی ہار گیا تھا۔

’بھائی کی وفات کے کچھ ہی عرصے بعد فاروق کے والد بھی چل بسے تھے جس کے بعد فاروق نے کم عمری ہی میں محنت مزدوری کرنا شروع کر دی تھی۔ عمر فاروق صرف اپنے بال بچوں ہی کا کفیل نہیں بلکہ اپنے چار یتیم بھتیجوں کا بھی کفیل تھا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ان کے دوسرے کزن محمد سجاد کا ایک بھائی فالج کا مریض ہے جو کئی سال سے بستر پر ہے۔

’اس کے بھائی کے چھ بچے ہیں وہ اُن کی بھی دیکھ بھال کرتا تھا۔ وہ مزدوری کرتا تھا تو ان کے خاندان کا نان نفقہ چلتا تھا۔ ایسے ہی حالات کا سامنا محمد بلال کے خاندان کو بھی ہے۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ