برطانیہ: چوروں سے بچنے کے لیے ایک دکاندار کا انھیں ’شرمندہ` کرنے کا منصوبہ

Whasuf Farooq
،تصویر کا کیپشن

فاروق کہتے ہیں کہ چور کئی مرتبہ ان کے سٹور کو نشانہ بنا چکے ہیں

  • مصنف, بین گاڈفرائے
  • عہدہ, نامہ نگار، مِڈ لیننڈز

برطانیہ میں کچھ دکانداروں کا کہنا ہے کہ وہ موجودہ معاشی بحران کے دوران چوری چکاری میں اضافے کے پیش نظر سکیورٹی پر ہزاروں پاؤنڈ خرچ کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔

سرکاری اعداد وشمار کے مطابق برطانیہ میں مختلف سٹور اور دکاندار وارداتوں سے بچاؤ کے لیےگزشتہ ایک سال میں 72 کروڑ 20 لاکھ پاؤنڈ خرچ کر چکے ہیں۔

ملک کے ویسٹ مڈلینڈز کے علاقے میں کچھ دکانداروں نے چوری کرنے والے لوگوں سے نمٹنے کا انوکھا طریقہ اپنایا ہے اور سٹورز میں لگے ہوئے سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج سوشل میڈیا پر پوسٹ کر رہے ہیں۔ انھیں شکایت ہے کہ پولیس مشتبہ افراد کا سراغ نہیں لگا رہی ہے۔

یہاں تک کہ ایک شخص نے اپنی دکان کے باہر مبینہ مجرموں کی تصاویر لگا کر ’شرم کرو‘ کے عنوان سے مہم شروع کر دی ہے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ویسٹ مڈلینڈز میں گزشتہ دو برس کے دوران چوری کے واقعات میں 29 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

برمنگھم کے علاقے سالٹلے میں ادویات کی دکان ’پاک فارمیسی‘ سے تعلق رکھنے والے یوسف فاروق کا کہنا ہے کہ چور کئی مرتبہ انھیں نشانہ بنا چکے ہیں ان کے فارمیسی سٹور سے ہزاروں پاؤنڈ کی ادویات چوری کر چکے ہیں۔ اس مقصد کے لیے یہ لوگ بچوں کو استعمال کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔

یوسف فاروق کہتے ہیں کہ ’میں نے فوٹیج میں دیکھا کہ کچھ والدین چرائی ہوئی اشیاء اپنے بچوں کو بگھی (پرام) میں رکھنے کے لیے دے رہے تھے۔‘

Lara Conradie

،تصویر کا کیپشن

لارا کونریڈی کے مطابق معاشی بحران میں چوری کی واقعات میں اضافہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے

ان کا کہنا تھا کہ وہ ادویات وغیرہ چوری کرنے والے لوگوں سے اس قدر تنگ آ چکے تھے کہ انھوں نے اپنی دکان کے باہر اور سوشل میڈیا پر مشتبہ افراد کی دھندلی سی سی ٹی وی تصاویر پوسٹ کر دیں اور شہریوں سے کہا کہ اگر وہ ان افراد کو پہچانتے ہیں تو پولیس سے رابطہ کریں۔

چوروں کو پکڑنے کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم ’کیچ اے تھیف یوکے‘ کی چیف ایگزیکٹیو فرح میکنٹ کا کہنا ہے کہ اس قسم کی کارروائی کرنے کے خواہشمند دکانداروں کے لیے تصاویر دکھانے سے قبل جانچ پڑتال کا عمل ہونا چاہیے۔

انھوں نے مزید کہا کہ ’آپ کو اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ آپ کسی شخص کے ذاتی کوائف کی تشہیر نہ کرنے کے قوانین یعنی ’ڈیٹا پروٹیکشن ریگولیشنز‘ کے طریقہ کار پر عمل کریں۔‘

یوسف فاروق نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ دکاندوں کو چوروں سے بچانے کے لیے ’پولیس کو مزید اقدامات کرنا چاہئیں۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ پولیس والے ’عام طور پر ہم سے کہتے ہیں کہ یہ ایک چھوٹا سا جرم ہے، ہم آپ کو ایک رسید دیں گے، اور پھر دیکھیں گے، لیکن انہیں آ کر سی سی ٹی وی فوٹیج کو دیکھنا چاہیے۔

’اگر (چور) یہ سمجھتے ہیں کہ وہ بچ سکتے ہیں تو ان کا حوصلہ بلند ہوتا رہے گا۔‘

ادھر سٹورز اور دیگر دکانداروں کی تنظیم برٹش ریٹیل کنسورشیم (بی آر سی) کا کہنا ہے کہ شاپ لفٹِنگ کی وجہ سے سنہ 2021 تا 2022 کے ایک سال میں برطانیہ بھر میں دکانوں کو 95 کروڑ 30 لاکھ پاؤنڈ کا نقصان برداشت کرنا پڑا ہوا۔

53 سالہ نریندر کور، جنھیں نینا ٹیارا کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، انھیں کئی چوری کے کئی مقدمات کا سامنا ہے اور پولیس کے مطابق وہ ’صنعتی پیمانے‘ پر شاپ لِفٹنگ کی متکب پائی گئیں ہیں۔

استغاثہ کے مطابق نریندر کور ویسٹ مڈلینڈز کے علاقے میں کئی دکاندروں کو دھوکہ دے چکی ہیں وہ ایسی 25 وارادتیں کر چکی ہیں اور انھیں چاہیے کہ وہ چرائی ہوئی اشیاء واپس کر دیں۔

پولیس کا کہنا تھا کہ انھوں نے ولٹ شائر میں واقع نریدر کور کے گھر سے ڈیڑھ لاکھ پاؤنڈ نقدی برآمد کی ہے۔

name and shame

بی آر سی سے منسلک لارا کونریڈی کے مطابق ان کی تنظیم کو نریندر کور کے معاملے پر کوئی حیرت نہیں ہوئی۔

’ہم ملک بھر میں دکانداروں سے مسلسل یہ کہانیاں سن رہے ہیں کہ موجودہ مالی بحران کے دوران چوری کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔‘

’ دکانداروں کو اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ وہ تمام واقعات کی اطلاع دیں اور پولیس کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان واقعات کی تفتیش کرے۔‘

لارا کونریڈی نے مزید کہا کہ دکانداروں پر دباؤ ہے کہ وہ حفاظتی اقدامات میں اضافہ کریں لیکن اس کی وجہ سے انھیں اضافی اخراجات اٹھانا پڑ رہے ہیں۔

Farrah McNutt

،تصویر کا کیپشن

فرح میکنٹ کے خیال میں درست مشورے اور امداد سے لوگوں کو چوری سے روکا جا سکتا ہے

میکنٹ سکیورٹی کے حوالے سے آج کل برمنگھم میں ایک تقریب کی تیاری کر رہی ہیں جہاں سیکڑوں دکاندار اور سٹور مالکان چوری سے نمٹنے کے اقدامات پر تبادلہ خیال کریں گے۔

میکنٹ کے بقول ’ایسا لگتا ہے کہ مالی بحران اور مہنگائی نے صورت حال کو مزید خراب کر دیا ہے۔‘

"لوگ اب چوری کرنے لگ گئے ہیں، اس کی وجہ یہ نہیں کہ وہ ایسا کرنا چاہتے ہیں، بلکہ انھیں معلوم نہیں کہ مہنگائی کے اس دور میں حکومت کی جانب سے انھیں کیا امداد مل سکتی ہے۔‘

میکنٹ کے مطابق ان کی کمپنی لوگوں کو مفت کھانوں، کمیونٹی کے لیے عوامی مقامات پر فریج اور پناہ گاہوں کی فہرستیں فراہم کرتی ہے، تاکہ دکانداروں کی مدد کی جا سکے اور لوگ دکانوں سے اشیاء چوری نہ کریں۔

ویسٹ مڈلینڈز پولیس سے منسلک کرائم کمشنر سائمن فوسٹر کا کہنا ہے کہ پولیس کے بجٹ کی کمی کی وجہ سے چوری جیسے جرائم کی روک تھام اور ان سے نمٹنا مشکل ہو رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ برمنگھم میں دکانداروں کے تعاون سے ’اوفینڈر ٹو ری ہیب` کے نام سے چوروں کی نفسیاتی بحالی کے لیے ایک ’جدید پروگرام‘ شروع کیا گیا ہے جس کا مقصد ایسے افراد کو چوری سے روکنا ہے جو شراب نوشی یا منشیات کی لت کی وجہ سے چوری کرتے ہیں۔

’ہم نے دیکھا ہے کہ جب ایک مرتبہ جب ان مجرموں کی اس لت پر قابو پا لیا جاتا ہے، تو وہ عام طور پر چوری کرنا بھی بند کر دیتے ہیں، جس سے دکانداروں کو لاکھوں پاؤنڈ کی بچت ہوتی ہے، جرائم میں کمی آ جاتی ہے اور جرائم کے متاثرین کی تعداد بھی کم ہو جاتی ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ