کِم جونگ اُن: شمالی کوریا کے سپریم لیڈر کے وہ 5 راز جو ہم نہیں جانتے
،تصویر کا ذریعہReuters
شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ اُن آج 40 برس کے ہو گئے ہیں۔ لیکن کیا وہ حقیقت میں بھی وہ 40 سال کے ہو گئے ہیں؟
دعویٰ کیا جاتا ہے کہ شمالی کوریا کے سپریم لیڈر کا یوم پیدائش 8 جنوری ہے لیکن اس بارے میں بھی اتفاق رائے کم ہی پایا جاتا ہے۔
اور یہ کم جونگ سے متعلق واحد راز نہیں ہے کہ جس کے بارے میں کوئی نہیں جانتا۔
آج اس خبر میں ہم 2011 میں شمالی کوریا کے سپریم لیڈر بننے والے کم جونگ کے بارے میں پانچ ایسے سوالات کا ذکر کرنے جا رہے ہیں کہ جن کا جواب آج تک کسی کے پاس نہیں۔
1۔ کم جونگ اُن کب پیدا ہوئے؟
اس سوال کا جواب ہم واقعی یقینی طور پر نہیں جانتے۔
آکسفورڈ یونیورسٹی میں سیاست کے اُستاد ڈاکٹر ایڈورڈ ہاول نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ان کی پیدائش کا سال 1982 ہے، 1983 یا پھر 1984، اس کے بارے میں کافی بحث جاری ہے۔‘
8 جنوری کو ان کی سالگرہ کا دن شمالی کوریا میں ایک عام دن کی طرح ہوتا ہے جس روز کوئی چھٹی نہیں منائی جاتی، جبکہ اس کے برعکس ان کے والد کم جونگ ال کی سالگرہ ہر سال 16 فروری کو ہوتی ہے اور اس دن کو ’شائنگ سٹار‘ کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔
اسی طرح 15 اپریل کو ان کے دادا کم ال سنگ کی سالگرہ کو ’سورج کے دن‘ کے طور پر بھی منایا جاتا ہے۔
تاہم، ان کے خاندان کے دیگر افراد کے حوالے سے بہت سی تفصیلات آج بھی صیغہ راز ہیں۔
شمالی کوریا کے امور کے ماہر ڈاکٹر ہویل کا کہنا ہے کہ ’ہم جانتے ہیں کہ کم جونگ اُن کے کچھ سوتیلے بھائی بھی ہیں جن میں سے ایک کم جونگ کو 2017 میں ملائیشیا میں قتل کر دیا گیا تھا۔‘
خیال کیا جاتا ہے کہ کم جونگ اُن کے والد کی زندگی میں ان کے کم از کم چار پارٹنرز رہے مگر ان کے ساتھ تعلقات کو زیادہ تر عوام کی نظروں سے دور رکھا گیا تھا۔
کم جونگ کی والدہ کو ینگ ہوئی جاپان میں پیدا ہوئی تھیں اور 1960 کی دہائی میں ایک رقاصہ کے طور پر کام کرنے کے لیے شمالی کوریا آئی تھیں۔
ان کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ کم جونگ ال کی پسندیدہ ترین بیوی تھیں۔
سنہ 2018 میں کو ینگ ہوئی کی تصاویر ملی تھیں جو انھوں نے 1973 میں جاپان کے دورے کے دوران لی تھیں۔
کوریا ٹائمز نے خبر دی ہے کہ شمالی کوریا نے کو ینگ کے بارے میں زیادہ تشہیر نہیں کی ہے اس کی وجہ ایک تو اُن کا رقاصہ کے طور پر کیریئر کو چُننا تھا اور دوسرا جاپان سے منسلک اُن کا خاندانی پس منظر تھا۔
دوسری عالمی جنگ کے دوران جزیرہ نما کوریا پر قبضہ کرنے والے جاپان میں پیدا ہونا اب شمالی کوریا میں کسی کے لیے بھی ایک منفی پہلو سمجھا جاتا ہے۔ لیکن چونکہ انھوں نے کم جونگ ال سے شادی کی تھی، اس لیے ان کا طرز زندگی پُرتعیش تھا۔
2۔ کم جونگ اُن کی اہلیہ کون ہیں؟
،تصویر کا ذریعہGetty Images
ہم اس بارے میں بھی یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے۔
ہم یہ تو جانتے ہیں کہ ان کی ایک اہلیہ ری سول جو ہیں، لیکن ہمیں یقین نہیں ہے کہ ان کی شادی کب ہوئی (عمومی رائے یہ ہے کہ ایسا 2009 میں ہوا ہو گا)۔
ری سول جو کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ وہ ایک سابق گلوکارہ تھیں جنھوں نے ایک پرفارمنس کے دوران کم جونگ اُن کی توجہ حاصل کی تھی۔
اسی نام سے شمالی کوریا کی ایک پرفارمر بھی تھیں تاہم سرکاری طور پر اس بات کی کبھی تصدیق نہیں ہو پائی کہ یہاں بات ایک ہی فرد کی ہو رہی ہے۔
ایک قانون ساز نے انٹیلیجنس حکام کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اُن کا خیال ہے کہ ری سول جو نے 2005 میں ایشیئن ایتھلیٹکس چیمپیئن شپ کے لیے شمالی کوریا کی چیئر لیڈنگ ٹیم کی ممبر کے طور پر جنوبی کوریا کا دورہ کیا تھا اور انھوں نے چین میں گلوکاری کی تعلیم حاصل کی تھی۔
شمالی کوریا نے سرکاری سطح یہ کہنے کے علاوہ کوئی تفصیلات نہیں دیں کہ اس نام کی خاتون کم جونگ اُن کی اہلیہ ہیں۔
3۔ کم جونگ اُن کے کتنے بچے ہیں؟
،تصویر کا ذریعہReuters
یہاں ہمارے پاس ایک اور خاندانی تفصیل ہے جس کا تعین کرنا مشکل ہے۔
ری سول جو کے حاملہ ہونے کی قیاس آرائیاں 2016 میں عوام کی نظروں سے غائب ہونے کے بعد شروع ہوئی تھیں، لیکن سرکاری طور پر اس کی کبھی تصدیق نہیں کی گئی۔
خیال کیا جاتا ہے کہ اس سے قبل 2010 اور 2013 میں بھی ان کے ہاں دو بچے پیدا ہوئے تھے، لیکن یہ معلوم نہیں ہے کہ ان میں سے کوئی لڑکا ہے یا نہیں۔ درحقیقت، ہم ان کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں۔
ماضی شمالی کوریا کے رہنما اپنی بیٹی کم جو ای کے ساتھ منظر عام پر آئے تھے، جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ تقریبا 10 سال کی عمر میں کم کی دوسری سب سے بڑی بیٹی ہیں اور جن کے بارے میں ہم سب سے زیادہ جانتے ہیں۔ وہ 2023 کے دوران کم از کم پانچ عوامی مقامات پر نظر آئی تھیں۔
ڈاکٹر ہویل بتاتے ہیں کہ ’ہم ابھی تک ان کے بچوں کی پوری کہانی نہیں جانتے۔‘
انھوں نے ہمیں یاد دلایا کہ یہ سابق امریکی باسکٹ بال سٹار ڈینس روڈمین تھے، جو کم جونگ اُن کے قریبی دوست تھے، اور جنھوں نے 2013 کے ایک انٹرویو میں کم کی بیٹی کے نام کا انکشاف کیا تھا۔
شمالی کوریا کے ماہر نے مزید کہا کہ ’ان کے اور بچے بھی ہیں، لیکن ان کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ ان کی مائیں کون کون ہیں۔‘
بہت سے تجزیہ کاروں (اور درحقیقت جنوبی کوریا کی خفیہ ایجنسی) کے برعکس، ڈاکٹر ہویل کو اس بات کا یقین نہیں ہے کہ کم جو اے کو اگلا رہنما بننے کے لیے تیار کیا جا رہا ہے یا نہیں۔
وہ ابھی جوان ہیں اور کم جونگ اُن کی بااثر بہن کم یو جونگ کے پاس اشرافیہ کے ساتھ زیادہ تجربہ اور بہتر روابط ہیں، جس کی وجہ سے وہ اپنے بھائی کی جانشین بننے کی ممکنہ طور پر زیادہ اہم امیدوار ہو سکتی ہیں۔
ڈاکٹر ہاول کا خیال ہے کہ شمالی کوریا کے رہنما کو ان کی چھوٹی بیٹی کے ساتھ میزائل لانچ، ضیافتوں یا فٹ بال کے مقابلوں میں دیکھا جاتا رہا ہے کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ انھیں ایک خاندانی شخص اور ایک مہربان رہنما کے طور پر دیکھا جائے۔
4۔ اگر ملک اتنا غریب ہے تو کم جونگ اُن عیش و آرام میں کیسے رہ سکتے ہیں؟
،تصویر کا ذریعہGetty Images
شمالی کوریا اور اس کے رہنماؤں کو مبینہ جوہری ہتھیاروں اور بیلسٹک میزائلوں کی تیاری کی وجہ سے برسوں سے اقوام متحدہ اور مغربی ممالک کی جانب سے عائد سخت پابندیوں کا سامنا ہے۔
لیکن ڈاکٹر ہویل کا کہنا ہے کہ کم جونگ اُن پابندیوں سے بچنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ملک کے پاس ایک فنڈز کا ایک بڑا حصہ ایسا ہے کہ جو خاص طور پر حکومت کے استعمال کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ کم اسے جاری رکھنا چاہتے ہیں کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ وہ اور ان کا خاندان پرتعیش طرز زندگی گزارتے رہیں۔
ڈاکٹر ہویل کا ماننا ہے کہ دنیا بھر میں ایسے ممالک کے نیٹ ورک موجود ہیں جو شمالی کوریا کو رقم فراہم کرنے کے لیے تیار ہیں اور یہ الزامات ہیں کہ یہ رقم دیگر طریقوں سے بھی حاصل کی جا سکتی ہے۔
ڈاکٹر ہویل اس ساری صورتحال کی تشریح کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’لوگ اکثر سوچتے ہیں کہ شمالی کوریا ایک الگ تھلگ ملک ہے جس کے پاس آزاد انٹرنیٹ نہیں ہے۔ اس کے پاس سرکاری انٹرنیٹ ہے اور سائبر جنگ ان کے لیے ایک اہم حکمت عملی بن چکی ہے، کم جونگ اُن کی حکومت اپنی معیشت اور جوہری پروگرام کو چلانے کے لیے پیسے چوری کرنے کے لیے دوسرے ممالک کے کمپیوٹر سسٹم کو ہیک کرتی ہے۔‘
5۔ کیا کم جونگ اُن کو اپنے لوگوں کی پرواہ ہے؟
،تصویر کا ذریعہReuters
2020 میں ایک فوجی پریڈ میں ایک تقریر نے ہمیں سپریم لیڈر کا ایک مختلف رُخ دکھایا۔
انھوں نے وبائی امراض اور حالیہ قدرتی آفات کے خلاف کوششوں پر اپنے فوجیوں کا شکریہ ادا کیا۔ ایک موقع پر انھوں نے ملک کی جدوجہد کے بارے میں بات کرتے ہوئے آنسو پونچھے۔ یہ شمالی کوریا کے ایک رہنما کی جانب سے جذبات کے اظہار کا ایک نادر مظاہرہ تھا۔
کچھ مبصرین نے مشورہ دیا ہے کہ وہ عاجزی کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں حالانکہ ملک کو بڑھتے معاشی بحران کا سامنا ہے۔
اس کے باوجود شمالی کوریا کے رہنما کے پرتعیش طرز زندگی کا جائزہ لینے سے اس کے برعکس اشارہ ملتا ہے۔
کم جونگ ان نے پرتعیش ٹرینوں کے ذریعے طویل فاصلے تک سفر کرنے کی روایت جاری رکھی ہے، جس کا آغاز ان کے دادا نے کیا تھا۔
ایک روسی فوجی کمانڈر جو 2001 میں کم جونگ ال کے ساتھ سفر پر گئے تھے، نے اپنی یادداشت ’اورینٹ ایکسپریس‘ میں اس سفر کے بارے میں اظہارِ خیال کیا ہے۔
انھوں نے لکھا کہ ’سفر کے دوران روسی، چینی، کوریائی، جاپانی اور فرانسیسی کھانوں کی کوئی بھی ڈش آرڈر کرنا ممکن تھا۔ پیرس سے لائیو لابسٹرز اور معروف بورڈو اور برگنڈی شراب بھی لائی گئی تھی۔‘
یہ اور نجی طیاروں سمیت پرتعیش نقل و حمل کی دیگر شکلیں شمالی کوریا کے عوام کے غریب طرز زندگی کے بالکل برعکس ہیں۔
شمالی کوریا کے لوگوں نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ وہاں خوراک کی اتنی کمی ہے کہ لوگ فاقوں مر رہے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ صورتحال 1990 کی دہائی کے بعد سے اب بدترین شکل اختیار کر چُکی ہے۔
اس سے کم جونگ کی ترجیحات کے بارے میں کیا پتا چلتا ہے؟
ڈاکٹر ہویل کہتے ہیں ’وہ نہ صرف اپنی حکومت بلکہ اپنی جابرانہ قیادت کو بھی بچانا چاہتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ اپنے ملک کے 26 ملین لوگوں کی پرواہ نہیں کرتے ہیں۔‘
’کیا وہ سمجھتے ہیں کہ یہ آگے بڑھنے کی ایک قابل عمل حکمت عملی ہے؟‘
Comments are closed.