کفار عزہ جہاں حماس کے عسکریت پسندوں نے خاندانوں کو گھروں میں ہلاک کیا
،تصویر کا ذریعہOREN ROSENFELD
- مصنف, جیریمی بوون
- عہدہ, انٹرنیشنل ایڈیٹر، جنوبی اسرائیل
یہودی بستی کفار عزہ اس جنگ کے پہلے چند روز کے بارے میں صورتحال جاننے کے لیے ایک بہترین جگہ ہے اور جو آئندہ ہونے والا ہے شاید اس کی ایک جھلک بھی۔
غزہ کے ساتھ اسرائیلی سرحد پر موجود ایک کیبوتز میں منگل کی صبح تک لڑائی جاری رہی۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں سے اسرائیلی شہریوں کی لاشوں کو اب اٹھایا گیا ہے جو سنیچر کی صبح حماس کی جانب سے کیے گئے حملے میں ہلاک ہوئے تھے۔
جن فوجیوں نے پورا دن ملبے سے لاشیں نکالی ہیں ان کا کہنا ہے کہ یہاں قتل عام کیا گیا ہے۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ زیادہ تر ہلاکتیں سنیچر کو اس حملے کے پہلے گھنٹے میں ہوئی تھیں۔
اسرائیلی فوج کی یونٹ 71 کے نائب کمانڈر ڈیوڈی بین زیون کے مطابق اس حملے نے اسرائیلی فوج کو چونکا دیا تھا اور اسے کیبوتز تک پہنچنے میں لگ بھگ 12 گھنٹے کا وقت لگا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’خدا کا شکر ہے ہم نے بہت سے والدین اور بچوں کی زندگیاں بچا لیں۔ بدقسمتی سے کچھ کو پیٹرول بمبوں سے جلایا گیا تھا، وہ بہت جارحانہ تھے، جانوروں کی طرح۔‘
بین زیون کا کہنا تھا کہ حماس کے اسلحہ برداروں نے جن خاندانوں کو ہلاک کیا، ان میں بچے بھی شامل تھے۔ ’وہ سب کو مارنا چاہتے تھے، جو اسلحے کے بغیر تھے کسی وجہ کے بغیر۔ یہ عام شہری تھے، جن کا ان سے کوئی سروکار نہیں تھا۔
انھوں نے بتایا کہ ہلاک ہونے والوں میں سے اکثر کے جسم کاٹے گئے تھے۔
انھوں نے بتایا کہ ’ان افراد کو ہلاک کرنے کے بعد ان میں سے کچھ کے سر کاٹے گئے، یہ مناظر بہت خوفناک تھے۔۔۔ اور ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ دشمن کون ہے اور ہمارا مشن کیا ہے، انصاف اور سچ کے ساتھ کھڑا ہونا اور پوری دنیا کو ہمارے پیچھے کھڑا ہونے کی ضرورت ہے۔‘
،تصویر کا ذریعہOREN ROSENFELD
ایک اور افسر نے ایک خون آلود جامنی رنگ کے سلیپنگ بیگ کی جانب اشارہ کیا۔ اس میں سے ایک سوجا ہوا انگوٹھا باہر نکلا ہوا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ اس میں موجود خاتون کی لاش کو ان کے صحن میں ہلاک کر کے ان کے جسم کو کاٹا گیا ہے۔ اس سے کچھ ہی دور ایک حماس کے جنگجو کی لاش بھی موجود تھی۔
کیبوتز کفار عزا میں حماس کی جانب سے جنگی جرائم کے ثبوت عیاں ہیں اور یہ کمیونٹی بھی اسرائیل کی طرح مکمل طور پر حیرت زدہ تھی۔
اپنے بچاؤ کے لیے کیبوتز کے مقامی گارڈز سامنے آئے تو انھیں حملہ آوروں نے ہلاک کر دیا۔
ان کی لاشوں کو آج صبح کیبوتز کے وسط میں موجود ان کی ابتدائی پوزیشنز سے ہٹایا گیا اور دیگر اسرائیلیوں کی طرح انھیں ایک سیاہ تھیلے میں لپیٹ دیا گیا اور انھیں پارکنگ ایریا میں ایک ترتیب سے رکھ دیا گیا تاکہ انھیں وہاں سے ورثا اٹھا لیں جائیں۔
اسرائیلی کے سرحدی علاقوں میں موجود افراد کو حماس کی جانب سے راکٹ حملوں کا خدشہ غزہ پر سنہ 2007 میں اس کے کنٹرول سنبھالنے کے بعد سے ہے۔ انھوں نے اس خطرے کے بدلے گاؤں میں زندگی گزارنے کی ٹھانی تھی جہاں وہ اپنی برادریوں کے قریب رہ سکتے تھے جن کی جڑیں صیہونی آباکاریوں سے ملتی ہیں۔
کفار عزا کے رہائشیوں سمیت سرحدی علاقوں میں رہنے والے افراد حماس کے راکٹس کے خدشے کے باوجود ایک اچھی زندگی گزار رہے تھے۔ ان کے گھروں، صحنوں اور کھلے علاقوں میں بم پروف شیلٹر موجود تھے جو عموماً چند ہی لمحوں کے فاصلے پر ہوتے تھے۔
تمام گھروں میں مخصوص محفوظ کمرے بھی موجود تھے۔ ان کے گھروں میں ٹیریس، باربی کیو کے لیے جگہ، بچوں کے لیے جھولے اور تازہ ہوا میسر تھی۔
تاہم کفار عزا یا اسرائیل میں کہیں بھی کسی نے بھی یہ نہیں سوچا تھا کہ حماس اسرائیل کے دفاع کو اتنی آسانی سے پامال کرتے ہوئے سینکڑوں افراد کو ہلاک کر دے گا۔
اسرائیلیوں کے خوف اور غصے کے ملے جلے جذبات میں یہ سوچ بھی شامل ہے کہ ان کی فوج شہریوں کو محفوظ رکھنے کی اپنی بنیادی ڈیوٹی کرنے میں ناکام رہی۔
یہاں حماس کے ہلاک ہونے والے عسکریت پسندوں کی لاشوں کو دھوپ میں ہی رکھا گیا ہے اور ان پر کوئی چادر بھی نہیں ڈالی گئی۔ ان کی لاشوں کے ساتھ وہ موٹرسائیکل بھی موجود ہیں جن کے ذریعے وہ سرحدی باڑ کو توڑتے ہوئے کیبوتز میں داخل ہوئے۔
یہاں پیرا گلائیڈرز کے ذریعے آنے والے حملہ آوروں کی مشینوں کا ملبہ بھی سڑک کے کنارے نظر آتے ہیں۔
ایک اور چیز جو دیگر سرحدی علاقوں کی طرح کفار عزا میں بھی دیکھی گئی وہ یہ تھی کہ اسرائیلیوں کو اس پر دوبارہ قبضہ کرنے کے لیے سخت ترین جنگ لڑنی پڑی۔
جب ہم آج صبح کیبوتز میں داخل ہوئے تو سینکڑوں اسرائیلی فوجی اب بھی اس کی حدود پر موجود تھے۔ ہمیں ان کی جانب سے ریڈیو واکی ٹاکیز کے ذریعے کی جانے والی بات چیت کی آواز آ رہی تھی۔
غزہ کی جانب ایک کمانڈر فائر کرنے کے احکامات جاری کر رہے تھے۔ چند ہی لمحوں میں آٹومیٹک اسلحے کے ذریعے غزہ کی جانب فائرنگ کا آغاز ہو چکا تھا۔
ہماری کفار عزا میں موجودگی کے وقت غزہ پر فضائی حملوں کی آواز بھی تواتر سے آ رہی تھی۔
جہاں اسرائیل میں اس وقت اپنے شہریوں کی ہلاکت کے باعث سوگ کا ماحول ہے وہاں غزہ میں بھی سینکڑوں شہریوں کو ہلاک کیا جا چکا ہے۔ عالمی انسانی حقوق کے قوانین میں یہ بتایا گیا ہے کہ تمام لڑائیوں میں معصوم شہریوں کی زندگیوں کی حفاظت سب پر لازم ہے۔
یہ واضح ہے کہ حماس کے حملہ آوروں کی جانب عام شہریوں کو قتل کرنا جنگوں پر لاگو ہونے والے قوانین کی سنیگن خلاف ورزی ہے۔ تاہم اسرائیلی فورسز کی جانب سے غزہ میں فضائی کارروائیوں سے موازنے کیے جاتے ہیں جن میں عام شہری ہلاک ہوئے ہیں۔ تاہم اسرائیل اس کی تردید کرتا رہا ہے۔
میجر جنرل اتائی ویرو جو اب ریٹائرمنٹ کے قریب ہیں اور انھوں نے کیبوتز پر کنٹرول واپس لینے کے لیے کارروائی کی قیادت کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اسرائیل اپنی جنگی ذمہ دارایاں پوری کر رہا ہے۔
،تصویر کا ذریعہOREN ROSENFELD
انھوں نے کہا کہ ’مجھے یقین ہے کہ ہم اپنے اقدار اور ثقافت کے لیے لڑتے ہیں۔۔۔ ہم بہت جارحانہ اور مضبوط انداز سے لڑیں گے لیکن ہم اپنے اقدار کا پاس رکھتے ہیں۔ ہم اسرائیلی ہیں، ہم یہودی ہیں۔‘
انھوں نے اس بات کی سختی سے تردید کی کہ ان کی جانب سے جنگ کے دوران لاگو ذمہ داریوں کو ایک طرف رکھ دیا گیا ہے۔ تاہم یہ واضح ہے کہ جیسے جیسے مزید فلسطینیوں کی ہلاکت ہو گی تو اسرائیل پر کی جانب والی تنقید میں اضافہ ہو گا۔
یہ کفار عزہ میں اب مستقبل کی ایک جھلک بھی ہے جو واضح طور پر دکھائی دیتی ہے۔ ایک فوجی جس سے میں نے بات کی اس کا رویہ بھی ایسا ہی تھا۔ انھوں نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی۔ کئی دیگر اسرائیلیوں کی طرح گذشتہ چند روز کے بعد ان کی لڑنے کی ہمت میں اضافہ ہوا ہے۔
جب وہ یہاں پہنچے تھے تو یہاں ’ہر جگہ افراتفری اور دہشتگرد تھے۔‘
میں نے ان سے پوچھا کہ ان کے لیے لڑنا کتنا مشکل تھا؟
انھوں نے کہا کہ ’آپ سوچ بھی نہیں سکتے۔‘ جب ان سے پوچھا کہ کیا انھوں نے بطور فوجی کبھی ایسی صورتحال کا سامنا کیا ہے؟ ’نہیں، کبھی نہیں‘ میں نے ان سے پوچھا کہ اب آگے کیا ہو گا؟
انھوں نے جواب دیا کہ ’مجھے نہیں معلوم، میں تو وہی کرتا ہوں جس کا مجھے حکم دیا جاتا ہے۔ مجھے امید ہے کہ ہم (غزہ کے) اندر جائیں گے۔‘
میں نے پوچھا غزہ میں؟ وہاں تو سخت لڑائی ہو گی۔ انھوں نے جواب دیا ’ہاں۔ ہم اس کے لیے تیار ہیں۔‘
یہاں موجود اکثر فوجی ریزرو یونٹس میں سے تھے۔ ماضی میں فوجی سروس کو قومی ڈھانچے کی تعمیر کا ایک اہم جزو سمجھا جاتا تھا جس کے ذریعے ایک بکھری ہوئی قوم کو متحد کیا جا سکے۔
ڈیوڈی بین زیون جنھوں نے کیبوتز میں لڑائی کے پہلے دور کی سربراہی کی تھی اور حماس کی جانب سے کیے گئے قتلِ عام کو دیکھا تھا اس بات کو تسلیم کیا کہ اسرائیل میں گہری سیاسی تقسیم موجود ہے لیکن اس بات پر بھی زور دیا کہ وہ اس حملے کے بعد سے متحد ہیں۔
فوجی جو لاشوں کو ملبے تلے سے نکال رہے تھے اور احتیاط بھی کر رہے تھے کیونکہ انھیں ڈر تھا کہ کہیں یہاں بارودی مواد نہ لگایا گیا ہو۔ اس دوران ایک گرنیڈ صحن میں بھی پڑا دکھائی دیا۔
جب وہ لاشیں نکالنے کی کوشش کر رہے تھے تو حماس کے راکٹس کے لیے سائرن بھی بج رہے تھے جس کے باعث انھیں محفوظ مقام پر جانا پڑتا۔
Comments are closed.