محمد عائشہ: چار سال سے مصر میں بحری جہاز پر پھنسے تنہا ملاح کی گھر واپسی
- پال ایڈمز
- سفارتی نامہ نگار
آخر کار محمد عائشہ اب گھر جا رہے ہیں
محمد عائشہ 5 مئی 2017 کو ایم وی امان نامی اس ’بدقسمت‘ بحری جہاز کے عملے کا حصہ بنے تھے۔
آج مصر کے ساحل پر قریب چار سال تک اس جہاز پر پھنسے رہنے کے بعد انھیں اپنے گھر شام جانے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ تو اب وہ کیسا محسوس کر رہے ہیں؟
انھوں نے قاہرہ ایئر پورٹ پر اپنی پرواز پر بیٹھنے کے بعد بس اتنا کہا: ’سکون۔ خوشی۔‘
پھر ان کا وائس نوٹ موصول ہوا۔ ’میں کیسا محسوس کر رہا ہوں؟ جیسے میں ابھی قید سے نکل گیا۔ آخر کار میں اپنے خاندان سے دوبارہ مل سکوں گا۔ میں انھیں دوبارہ دیکھ سکوں گا۔‘
یہ بھی پڑھیے
وہ بحری جہاز جس پر محمد عائشہ چار سال تک پھنسے رہے
محمد عائشہ کی زندگی میں جسمانی اور ذہنی صحت پر بُرا اثر ڈالنے والی اس کہانی کا اب اختتام ہوچکا ہے۔ توانائی اور صفائی جیسی سہولیات کے بغیر وہ تنہا اس جہاز پر چار سال تک زندگی گزار رہے تھے۔
یہ بات جولائی 2017 کی ہے جب ایم وی امان کو مصری بندرگاہ ادبیہ پر ضبط کر لیا گیا تھا۔ اس کارگو جہاز میں حفاظتی سامان اور ضروری سرٹیفیکیٹ کی معیاد ختم ہوچکی تھی۔
اس مسئلے کو حل کرنا آسان تھا مگر جہاز کے لبنانی کنٹریکٹر ایندھن کے پیسے دینے میں ناکام رہا اور بحرین میں ایم وی امان کے مالکان کو مالی مشکلات کا سامنا تھا۔
جہاز کا کیپٹن اسے چھوڑ چکا تھا۔ ایک مقامی عدالت نے اعلان کیا کہ ایسے میں اب جہاز کے چیف آفیسر محمد اس نے قانونی سرپرست ہوں گے۔
بحیرہ روم کی شامی بندرگاہ طرطوس میں پیدا ہونے والے محمد کہتے ہیں کہ انھیں کسی نے نہیں بتایا تھا کہ اس حکم کا مطلب کیا ہے اور انھیں محض کچھ ماہ بعد ہی اس کا پتا چلا جب جہاز کا دیگر عملہ اسے چھوڑ کر جا رہا تھا۔
محمد چار سال تک اس جہاز پر موجود رہے۔ نہر سوئز کے قریب وہ بحری جہازوں کو اس میں آتا اور جاتا دیکھتے رہتے۔
حالیہ عرصے میں ایور گیون جہاز کو پیش آنے والے حادثے اور راستے میں رکاوٹ کے دوران انھوں نے ٹریفک جام میں پھنسے درجنوں جہازوں کو گنا بھی۔
انھوں نے اپنے بھائی، جو ان کی طرح ایک دوسرے بحری جہاز پر کام کرتے تھے، کو ایک سے زیادہ بار گزرتا دیکھا۔ دونوں بھائی فون پر رابطے پر رہے لیکن وہ اتنے فاصلے پر ہوتے کہ ہاتھ بھی نہ ہلا پاتے۔
پینے کے صاف پانی کے لیے محمد عائشہ کو ساحل پر تیر کر جانا پڑتا تھا
اگست 2018 میں انھیں بتایا گیا کہ ان کی والدہ وفات پاچکی ہیں۔ وہ ایک ٹیچر تھیں اور انھوں نے ہی محمد کو اچھی انگریزی بولنا سکھائی تھی۔ یہ مرحلہ محمد کے لیے سب سے مشکل تھا۔
انھوں نے مجھے بتایا تھا کہ ’میں نے ایک بار اپنی زندگی ختم کرنے کے بارے میں بھی سوچا۔‘
اگست 2019 کو محمد بالکل تنہا ہوچکے تھے۔ اب یہاں صرف عام طور پر تعینات رہنے والے گارڈ ہوتے تھے۔ اس جہاز پر اب کوئی ڈیزل یا توانائی نہیں تھی۔ وہ اس جہاز پر بُری طرح پھنس چکے تھے اور مشکل زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔
قانونی طور پر انھیں جہاز پر موجود رہنے کا حکم دیا گیا تھا جبکہ انھیں کام کے کوئی پیسے نہیں مل رہے تھے۔ ناامید ہونے کے ساتھ ساتھ اب ان کی صحت بھی خراب ہوتی جا رہی تھی۔
وہ کہتے ہیں کہ یہ جہاز رات کے وقت کسی قبرستان جیسا لگتا ہے۔ ’آپ کچھ دیکھ نہیں سکتے، کچھ سن نہیں سکتے۔۔۔ یہ ایسا ہے جیسے آپ کسی تابوت میں ہوں۔‘
مارچ 2020 میں ایک طوفان کی وجہ سے امان کا لنگر اندازی کا عمل معطل ہوگیا تھا۔ اس کی وجہ سے یہ جہاز اپنی جگہ سے آٹھ کلومیٹر دور جا پہنچا تھا اور پھر بندرگاہ سے محض کچھ سو میٹر قریب آگیا تھا۔
محمد کے لیے یہ خوفناک وقت تھا لیکن ان کے مطابق یہ خدا کی کرنی تھی۔ اب وہ تیر کر معمول سے کچھ دنوں بعد کھانا لینے آسکتے تھے اور اپنا فون بھی چارج کر سکتے تھے۔
محمد کی کہانی کافی حیرت انگیز ہے لیکن یہ اپنی نوعیت کی واحد کہانی نہیں۔ درحقیقت ملاحوں کو جہاز پر تنہا چھوڑنے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔
انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں اس طرح کے 250 ایکٹیو کیسز موجود ہیں۔ ان میں عملے کو اپنی مدد آپ جہاز پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ سنہ 2020 میں 85 نئے کیسز کی اطلاع سامنے آئی تھی تو اس لحاظ سے یہ گذشتہ سال کے مقابلہ دگنے کیسز ہیں۔
دریں اثنا ایران کی بندرگاہ عسلویہ پر ایک جہاز کو جولائی 2019 میں اس کے مالکان نے اپنے حال پر چھوڑ دیا تھا۔ اس پر موجود عملے کے 19 افراد، جن میں اکثریت انڈین شہریوں کی ہے، بھوک ہڑتال کا اعلان کردیا تھا۔
شپنگ جرنل لوئیڈ سے بات کرتے ہوئے حال ہی میں ایک عملے کے رکن نے بتایا تھا کہ جہاز پر صورتحال کافی خراب ہوچکی تھی۔ ملاحوں کو ذہنی صحت کے مسائل درپیش تھے اور ان کے خاندان والوں کے پاس پیسے ختم ہوچکے تھے۔
مشن ٹو سی فیررز نامی تنظیم میں مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کے ڈائریکٹر اینڈی باورمین کہتے ہیں کہ ’پہلی بار جب میں نے ایسے کیس دیکھے تو میں حیران ہوگیا۔‘
اب دبئی میں انھوں نے بارہا ایسا ہوتا دیکھا ہے۔ اس کی اکثر ایک جیسی وجوہات ہوتی ہیں۔
’ہم یہاں ایک کیس پر کام کر رہے ہیں۔ جہاز پر کمپنی نے کافی زیادہ قرض ادا کرنا ہے۔۔۔ کبھی کبھار عملے کو یہ بتانا آسان ہوتا ہے کہ لنگر اندازی کے بعد وہاں سے نکل جائیں۔‘
امان کے مالکان ٹائلوس شپنگ اور میرین سروسز نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے محمد کی مدد کرنے کی کوشش کی لیکن ان کے ہاتھ بندھے ہوئی تھے۔
ایک نمائندے نے بتایا کہ ’میں کسی جج کو قانونی پرسرستی تبدیل کرنے پر مجبور نہیں کر سکتا۔ کوشش کے باوجود میں دنیا میں کوئی ایک شخص بھی نہیں ڈھونڈ سکا جو اس کی جگہ لے سکے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ محمد کو پہلے ہی اس حکمنامے پر دستخط نہیں کرنا چاہیے تھے۔
انٹرنیشنل ٹرانپسورٹ ورکرز فیڈیشن کے محمد الراشدی نے دسمبر میں محمد کے لیے آواز بلند کرتے ہوئے کہا تھا کہ شپنگ کی پوری صنعت کو ایک لمحے کے لیے اس پر سوچنا چاہیے۔
’محمد کے کیس سے ایک سنجیدہ بحث کا آغاز ہونا چاہیے کہ کس طرح جہازوں پر ملاحوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافی روکی جاسکتی ہے۔‘
وہ سمجھتے ہیں کہ اس بحث میں جہازوں کے مالکان، بندرگاہ اور ملکوں میں سمندری حدود کے حکام کو شامل ہونا چاہیے۔
’محمد عائشہ کے ساتھ ہونے والی اس مشکل کو روکا جاسکتا تھا اگر جہاز کے مالکان ذمہ داری اٹھاتے اور اسے معاوضہ دیا جاتا۔‘
محمد نے کہا تھا کہ وہ اس صورتحال سے متاثر ہو رہے ہیں جس میں ان کا کوئی قصور نہیں۔ مصر کا قانون ان کی زندگی متاثر کر رہا تھا جبکہ جہاز کے مالکان انھیں نظر انداز کر رہے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ کئی ماہ تک وہ کسی سے رابطہ نہیں کر پاتے تھے۔ اس دوران وہ تنہا مایوس ہوتے تھے۔
شاید آپ سمجھ رہے ہوں گے کہ وہ اب سمندر کی طرف جانے سے ہچکچائیں گے۔
لیکن اب وہ پُرامید ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ اپنے کام میں باصلاحیت ہیں اور زندگی کا دوبارہ وہیں سے آغاز کرنا چاہتے ہیں جہاں اسے رکاوٹ کا سامنا ہوا تھا۔
لیکن پہلے وہ اپنے خاندان سے ملنا چاہیں گے۔
Comments are closed.