جمعہ9؍ شوال المکرم 1442ھ21؍مئی 2021ء

غزہ احتجاج، لڑکیاں اور ایک چینل: یہ گجرے خریدنا کب سے فحاشی ہو گیا؟

غزہ کے لیے احتجاج کے شرکا پر تنقیدی رپورٹنگ: کیا گجرے خریدنا فحاشی ہے؟

لیڈر ٹی وی

،تصویر کا ذریعہLEADER TV

،تصویر کا کیپشن

دس منٹ سے زائد طویل اس ویڈیو میں خاتون میزبان مظاہرے کے شرکا کے لباس اور سرگرمیوں پر تنقید کرتی رہیں

‘یہاں پر ’سلِیولس‘ پہنا گیا ہے، ساؤنڈ سسٹم لگا کر ڈانس ہو رہا ہے، یہاں پر گجروں کی خرید و فروخت ہو رہی ہے، یہاں پر کپل بن کر بیٹھ کر، کونوں میں گھس کر وہ باتیں کی جا رہی ہیں جو شاید فون کال پر نہیں کی جاتی ہیں۔۔۔ احتجاج کرو، ساتھ ساتھ وہ باتیں کرو جو رہ گئی ہیں۔’

یہ الفاظ ہیں ایک نجی یوٹیوب نیوز چینل کی رپورٹر کے جو فلسطین کے حق میں نکالے جانے والے مارچ کی کوریج کرنے آئی تھیں۔ حال ہی میں لاہور میں فلسطین اسرائیل تنازع کے سلسلے میں فلسطین کے حق میں کیے جانے والے احتجاج کی ویڈیو ٹوئٹر پر وائرل ہو گئی۔

اس ویڈیو میں رپورٹر شریک افراد کے کپڑوں سے لے کر اخلاقیات اور پلے کارڈ کے ساتھ سیلفیاں اتارنے سے لے کر شامل خواتین کے فیمینسٹ ہونے کا اندازہ لگاتی اور تبصرے کرتی نظر آئیں۔

احتجاج میں شامل شازمین نے خود کو اور اپنی سہیلی کو وائرل ویڈیو میں دیکھا جہاں یہ تاثر دیا جا رہا تھا کہ یہ وہاں گجرے ہی خریدنے آئی ہیں۔

اپنی ٹویٹ میں شازمین نے لکھا ‎’انھوں نے میری اور میری دوست کی گجرے خریدے ہوئے ویڈیو بنائی اور کہتی ہیں کہ یہ غیراسلامی ہے؟ لڑکیوں کی اجازت کے بغیر ان کی ویڈیو بنانا اور ان کے اخلاقیات پر تنقید کرنا زیادہ غیر اسلامی ہے’

ٹوئٹر

،تصویر کا ذریعہTwitter

شازمین نے مزید کہا کہ ان کی دوست نے تو غزہ حملوں میں ہلاک ہونے والوں کی یادگار پر چڑھانے کے لیے ایمانداری سے روزی روٹی کمانے والی عورت سے گجرے خریدے۔

‎’آپ ان لوگوں کو تنقید کا نشانہ بنانے اور شرم دلانے آئیں جنھوں نے آپ کو اجازت ہی نہیں دی۔ کتنی شرم کی بات ہے۔’

شازمین کی سہیلی کا کہنا تھا ’میں دھرنے میں فلسطین میں ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف آواز اٹھانے گئی تھی۔ لوگوں نے مجھے بتایا کہ کون سے ادارے فلسطینیوں کی مدد کر رہے ہیں۔ پوری شام محبت اور حمایت سے بھرپور تھی لیکن گھر آ کر میں نے دیکھا کہ احتجاج میں شامل خواتین کے کپڑوں وغیرہ پر بات کر کے انھیں شرمندہ کیا جا رہا ہے۔‘ان کا مزید کہنا تھا ’ایک رپورٹر نے خود ہی طے کر لیا کہ کیا غیراسلامی ہے اور یہ کافی تھا۔ پاکستان میں پہلے ہی خواتین کی پبلک زندگی محدود ہے، کوئی بھی کہیں سے آ سکتا ہے اور کچھ بھی کہہ سکتا ہے اور اس ویڈیو میں بھی ایسا ہی ہوا۔ ‘’عورت کچھ بھی کرے اسے غلط انداز میں ہی لیا جاتا ہے۔ پھول خریدنا بھی جرم ہو گیا۔ رپورٹر نے ہر چیز پر بات کر لی لیکن اس موضوع پر نہیں جس کے لیے ہم سب وہاں اکٹھے ہوئے تھے۔ ‘انھوں نے کہا ’ہمارے بس میں جو تھا ہم نے فلسطین کے بارے میں بات جاری رکھنے کے لیے کیا اور غیرمتعلقہ چیزوں پر گھر آ کر انٹرنیٹ پر بےعزتی بھی کروا لی۔‘

سوشل میڈیا ردِعمل

شازمین کی ٹویٹ پر ٹوئٹر صارفین کی جانب سے کافی ردِعمل آیا۔ جہاں کچھ لوگوں نے غصے کا اظہار کیا وہیں کئی صارفین نے ظنز و مزاح کا سہارا بھی لیا۔

حمائل نے ویڈیو پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے ٹویٹ کیا ‘ایسا نہیں لگتا کہ یہ کسی پارٹی میں ایک کونے پر جا کر دو کم گو لوگوں کے ساتھ چغلیاں کھا رہی ہیں جن کے پاس بات سننے کے علاوہ کوئی چوائس نہیں؟’

ٹوئٹر

،تصویر کا ذریعہTwitter

ایک صارف نے ٹویٹ کو سیاسی رنگ دیتے ہوئے لکھا ‘معذرت کے ساتھ، ان کے لیے ‘اصلی مظاہرے’ وہ ہیں جو تحریک لبیک پاکستان ہر کچھ عرصے بعد کرتی ہے’

ٹوئٹر

،تصویر کا ذریعہTwitter

ایک متجسس صارف کے بقول ‘ان کو کیسے پتا وہ (جوڑے) کیا بات کر رہے تھے؟

ٹوئٹر

،تصویر کا ذریعہTwitter

گجرے ویڈیو اور ٹوئٹر پر ہونے والی بحث کا بڑا اہم موضوع رہے۔ حذیفہ نے مزاح کا سہارا لیتے ہوئے ٹویٹ کیا کہ ‘شاید وہ اس لیے خفا ہیں کیونکہ ان کو کبھی گجرے نہیں ملے۔’

ٹوئٹر

،تصویر کا ذریعہTwitter

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.