جمعہ9؍ شوال المکرم 1442ھ21؍مئی 2021ء

اسرائیلی پابندیوں میں غزہ کے لوگ کیسے رہتے ہیں؟ روز مرہ زندگی کی ایک جھلک

اسرائیل فلسطین تنازع: غزہ کی پٹی میں رہنے والوں کی زندگی کیسی ہے؟

غزہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

غزہ کی آبادی تقریباً 20 لاکھ افراد پر مشتمل ہے اور اس علاقے کی لمبائی 41 کلومیٹر جبکہ چوڑائی دس کلومیٹر ہے۔ اس کی اطراف بحیرہ روم، اسرائیل اور مصر سے منسلک ہیں۔

غزہ اور اسرائیل کے مابین حالیہ کشیدگی کئی برسوں میں ہونے والا بدترین تشدد ہے جس نے اقوام متحدہ کو ’بڑے پیمانے پر جنگ‘ کی وارننگ دینے پر مجبور کیا۔

سنہ 1967 کی مشرق وسطیٰ کی جنگ کے دوران اسرائیل نے ماضی میں مصر کے زیر قبضہ غزہ پر قبضہ کر لیا تھا تاہم سنہ 2005 میں اسرائیل نے اپنی فوج اور تقریباً 7000 کے قریب آباد کاروں کو یہاں سے نکال لیا تھا۔

یہ علاقہ عسکریت پسند گروہ حماس کے زیر کنٹرول ہے جس نے سنہ 2007 کے پرتشدد فسادات کے بعد اس وقت کی گورننگ فلسطینی اتھارٹی (پی اے) کی وفادار قوتوں کو یہاں سے نکال دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

اس کے بعد سے اسرائیل اور مصر نے عسکریت پسندوں کے خلاف حفاظتی اقدامات کے پیش نظر غزہ سے سامان اور لوگوں کی آمدورفت پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔

سنہ 2014 میں حماس اور اسرائیل کے درمیان جھڑپیں ہوئی جبکہ مئی 2021 میں اس معاملے نے پھر سر اٹھایا ہے۔

نقشہ

Presentational white space

حالیہ تشدد کیسے شروع ہوا؟

حالیہ کشیدگی اس وقت شروع ہوئی جب اسرائیل اور حماس میں کئی روز تک جاری رہنے والی کشیدگی کے بعد 10 مئی کو باقاعدہ لڑائی کا آغاز ہوا۔

یہ کشیدگی مشرقی بیت المقدس میں اسرائیل کی جانب سے چند فلسطینی خاندانوں کو اپنے گھروں سے نکالنے کرنے کے کوششوں کے بعد شروع ہوئی تھی۔

لڑائی کے دوران اسرائیل کی جانب سے درجنوں فضائی حملے کیے گئے جبکہ حماس کی جانب سے بھی اسرائیل پر راکٹ فائر کیے گئے۔

غزہ

،تصویر کا ذریعہReuters

راکٹ حملوں سے بجلی منقطع

غزہ میں روزانہ کی بنیاد پر بجلی کا جانا ایک معمول ہے۔ حالیہ تشدد سے پہلے بھی غزہ میں مخلتف اوقات کے دوران صرف آٹھ گھنٹے ہی بجلی فراہم کی جاتی تھی۔

حالیہ کشیدگی کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اس دوران بجلی کی لائنوں کو نقصان پہنچا ہے اور ایندھن کی رسد میں خلل پڑا ہے۔

اقوام متحدہ کے دفتر اوچا یعنی کوآرڈینیشن آف ہیومینٹیرین افئیرز( OCHA) کے مطابق غزہ میں اب زیادہ تر گھروں کو دن بھر میں صرف تین گھنٹے ہی بجلی فراہم کی جا رہی ہے۔

غزہ کی پٹی پر زیادہ تر بجلی اسرائیل کی طرف سے آتی ہے جبکہ اس میں مزید حصہ غزہ کے واحد پاور پلانٹ کا ہے اور مصر سے بھی تھوڑی مقدار میں بجلی یہاں مہیا کی جاتی ہے۔

لیکن غزہ کا پاور پلانٹ (جی پی پی) اور بہت سارے لوگوں کے انفرادی جنریٹر ڈیزل پر انحصار کرتے ہیں لیکن اسرائیل کے راستے لائی جانے والی اس سپلائی میں اکثر خلل ڈالا جاتا ہے۔

غزہ

،تصویر کا ذریعہReuters

بند سرحدیں

سنہ 2007 میں حماس کے غزہ میں برسر اقتدار آنے کے بعد مصر نے غزہ کے ساتھ بڑی حد تک اپنی سرحد کو بند کر رکھا ہے اور گذشتہ برس کورونا وائرس کی وبا پر قابو پانے کے لیے مزید پابندیاں لگائی گئی ہیں۔

اوچا کے مطابق غزہ کو مصر سے ملانے والی سرحد رفح اور اسرائیل سے ملانے والی سرحد ایریز دونوں کو سنہ 2020 میں 240 دن بند جبکہ 125 دن کے لیے کھولا گیا۔

سنہ 2019 میں بذریعہ رفح 78 ہزار افرد نے غزہ چھوڑا لیکن سنہ 2020 میں یہ تعداد صرف 25 ہزار رہی۔

دوسری جانب ایریز کی سرحد پر بھی کچھ ایسا ہی ہوا اور اس برس اس سرحد کو پار کرنے والے افراد کی تعداد صرف آٹھ ہزار رہی جن میں سے زیادہ تر مریض یا ان کی دیکھ بھال کے لیے ان کے ساتھ جانے والے لوگ تھے۔

حالیہ تشدد کے بعد ان سرحدوں پر دوبارہ رش دیکھا گیا ہے، امدادی کاموں کے لیے آنے والے قافلوں کو اجازت دی گئی ہے تاہم یہ سرحدیں بند ہی رہی ہیں۔

رفح سرحد پر جمع لوگ

،تصویر کا ذریعہAFP/Getty

سرنگوں پر حملہ

اقوام متحدہ کے مطابق غزہ کی تقریباً 80 فیصد آبادی بین الاقوامی امداد پر جبکہ تقریباً دس لاکھ لوگ روزانہ کھانے کے لیے بھی امداد پر ہی انحصار کرتے ہیں۔

اسرائیل کی طرف سے عائد کردہ ناکہ بندی نے غزہ میں اور اس سے نقل و حرکت اور تجارت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔

اس ناکہ بندی سے نمٹنے کے لیے حماس نے سرنگوں کا ایک نیٹ ورک تعمیر کر رکھا ہے جس کے ذریعے غزہ میں اشیا لائی جاتی ہیں۔

اسرائیل کا کہنا ہے کہ یہ سرنگیں عسکریت پسندوں کے زیر استعمال ہیں اور فضائی حملوں میں انھیں نشانہ بنایا گیا ہے۔

غزہ کی معاشی حالت پر کورونا وائرس کی وبا بھی اثر انداز ہوئی ہے لیکن ورلڈ بینک کے مطابق حالیہ لڑائی سے قبل اس میں بہتری نظر آنا شروع ہوئی تھی۔

سرنگیں

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ٹوٹے پھوٹے گھر اور رش

اقوام متحدہ کے مطابق غزہ میں لگ بھگ چھ لاکھ مہاجرین آٹھ پرہجوم کیمپوں میں رہائش پذیر ہیں۔

اوسطاً فی مربع کلومیٹر میں 5،700 سے زیادہ افراد ہیں لیکن یہ تعداد غزہ شہر میں 9000 سے بھی زیادہ ہے۔

Population density map of Gaza

Presentational white space

اسرائیل نے عسکریت پسندوں کے راکٹ حملوں سے خود کو بچانے کے لیے سنہ 2014 میں سرحد کے ساتھ ایک بفرزون کا اعلان کیا تھا۔ اس زون نے لوگوں کی رہائش اور کھیتی باڑی کے لیے دستیاب اراضی کو کم کر دیا۔

اقوام متحدہ کے اندازے کے مطابق سنہ 2014 کے تشدد میں تقریباً ایک لاکھ چالیس ہزار گھر تباہ ہوئے تھے جس کے بعد اقوام متحدہ نے تقریباً 90 ہزار خاندانوں کو دوبارہ گھر بنانے میں مدد کی۔

حالیہ تشدد میں بھی سینکڑوں گھروں کو شدید نقصان پہنچا ہے لیکن تباہی کا صحیح اندازہ ابھی کچھ وقت بعد ہی ہو گا۔

Presentational white space

صحت کی سہولیات

غزہ میں صحت کا نظام کئی وجوہات کی وجہ سے خطرناک صورتحال سے دوچار ہے۔ اقوام متحدہ کے دفتر کوآرڈینیشن آف ہیومینٹیرین افئیرز( OCHA) کے مطابق اسرائیل اور مصر کی جانب سے ناکہ بندیوں، فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے صحت کے شعبے میں کم خرچ، فلسطینی اتھارٹی کے اندرونی سیاسی اختلافات اور حماس سب فلسطینی علاقوں میں صحت کے ناقص نظام کے ذمہ دار ہیں۔

اقوام متحدہ صحت کی دیکھ بھال کی 22 سہولیات کو چلانے میں مدد فراہم کرتی ہے لیکن کئی ہسپتال اور کلینک پچھلے تنازعات میں تباہ ہو چکے ہیں۔

غزہ سے مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم کے ہسپتالوں میں علاج کے لیے جانے والے افراد کو پہلے فلسطینی اتھارٹی سے اپنی درخواستوں کی منظوری لینی پڑتی ہے جس کے بعد اسرائیلی حکومت سے ایگزٹ پاس کی ضرورت ہوتی ہے۔

سنہ 2019 میں غزہ کی پٹی سے جانے والے مریضوں کی درخواستوں کی منظوری کی شرح 65 فیصد تھی۔

گذشتہ کچھ ماہ میں کورونا وائرس کی وجہ سے بھی غزہ میں صحت کی صورتحال مزید خراب ہوئی ہے۔

غزہ

،تصویر کا ذریعہReuters

اپریل میں غزہ میں کورونا وائرس کے یومیہ تین ہزار کیس سامنے آ رہے تھے۔ وبا کے آغاز سے اب تک غزہ میں کورونا وائرس کے ایک لاکھ چار ہزار نئے کیس سامنے آ چکے ہیں جبکہ 946 افراد اس وائرس سے ہلاک ہوئے ہیں۔

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے خبردار کیا ہے کہ سرحدی پابندیاں نہ صرف متاثرہ افراد کی جان بچانے والے علاج تک رسائی کو محدود کر رہی ہیں بلکہ وہ کورونا وائرس کے ردعمل میں بھی رکاوٹ ہیں۔

ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ اس سے ویکسینیشن کا پروگرام متاثر ہو رہا ہے اور وائرس پھیلنے کے خطرے میں بھی اضافہ ہوتا ہے کیونکہ لوگ رشتے داروں یا ہنگامی پناہ گاہوں میں پناہ لیتے ہیں۔

امدادی قافلوں کی راہ میں رکاوٹ

اقوام متحدہ کے مطابق بین الاقوامی امداد کے باوجود غزہ میں دس لاکھ سے زیادہ افراد کھانے پینے کے حوالے سے عدم تحفظ کا شکار ہیں۔

امدادی قافلوں کے گزرنے کے لیے سرحد کھول دی گئی ہے لیکن گولہ باری سے اس فراہمی کی راہ میں خلل پڑا ہے۔

زرعی اراضی اور مچھلی پکڑنے تک پر اسرائیلی پابندیوں کی وجہ سے غزہ کے شہری خود خوراک پیدا کرنے سے بھی محروم ہیں۔

غزہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

فلسطینی اسرائیل کی طرف سے بفر زون قرار دیے گئے علاقے میں کاشت کاری نہیں کر سکتے، یہ بفر زون غزہ کی سرحد کی جانب 1.5 کلومیٹر پر محیط علاقہ ہے۔ بفر زون میں کاشت کاری کی اجازت نہ ہونے کے باعث پیداوار 75 ہزار ٹن کم ہوتی ہے۔

اسرائیل نے ماہی گیری کو بھی محدود کر رکھا ہے اور غزہ کے شہری صرف ساحل کے ایک خاص فاصلے سے ہی مچھلی کا شکار کر سکتے ہیں۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اگر یہ پابندی ختم کر دی گئی تو ماہی گیری سے غزہ کے عوام کو روزگار اور پروٹین کا ایک سستا ذریعہ مل سکتا ہے۔

حالیہ کشیدگی کے بعد اسرائیل نے عزہ کی پٹی سے ماہی گیری پر عارضی پابندی عائد کر دی ہے۔

گذشتہ کئی برسوں میں اسرائیل نے ماہی گیری کے زون پر مختلف حدیں مقرر کی ہیں، جس سے تقریباً پچاس ہزار ماہی گیروں اور اس سے متعلقہ افراد کا ذریعہ معاش متاثر ہوا ہے۔

غزہ

،تصویر کا ذریعہReuters

پانی کی قلت معمول ہے

غزہ میں زیادہ تر لوگوں کو پانی کی قلت کا سامنا ہے۔ نلکے سے آنے والا پانی نمکین اور آلودہ ہونے کی وجہ سہ پینے کے قابل نہیں۔

غزہ کے زیادہ تر گھروں میں پائپ کے ایک نیٹ ورک کے ذریعے پانی پہنچتا ہے تاہم اوچا ( (OUCHAکے مطابق سنہ 2017 میں یہاں رہنے خاندانوں کو ہر چار روز بعد صرف چھ سے آٹھ گھنٹے کے لیے پانی دستیاب ہوتا تھا اور حالیہ حملوں کے بعد اس میں مزید کمی آئی ہے۔

عالمی ادارہ صحت نے روزانہ کی ضروریات کے لیے فی شخص کم از کم 100 لیٹر پانی کی حد مقرر کی ہے تاہم غزہ میں اوسطاً کھپت 88 لیٹر ہے۔

نکاسی آب ایک اور مسئلہ ہے۔ اوچا کا کہنا ہے کہ بحیرہ روم میں روزانہ ایک سو میلن لیٹر سے زیادہ گندہ پانی پمپ کیا جاتا ہے۔

اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے سنہ 2021 کے آغاز میں گندے پانی کو صاف کرنے کا ایک نیا پلانٹ شروع کیا گیا ہے۔

غزہ، سکول

،تصویر کا ذریعہGetty Images

سکولوں کو پناہ گاہوں کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے

غزہ میں اقوام متحدہ کے سکولوں میں بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں جبکہ حالیہ بمباری کے بعد کئی سکولوں کو پناہ گاہوں کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔

فلسطین کی مہاجر ایجنسی ( UNRWA) کے مطابق 275 سکولوں میں سے 65 فیصد ’ڈبل شفٹ‘ پر کام کر رہے ہیں جہاں کچھ بچے صبح کے وقت تو کچھ شام کے وقت پڑھتے ہیں۔

سنہ 2019 میں ایک کلاس کا اوسط سائز تقریباً 41 بچے تھے۔ 15 سے 19 برس کے نوجوانوں میں شرح خواندگی اب 99 فیصد ہے، جس میں گذشتہ کچھ برسوں میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

Population pyramid

نوجوانوں میں بے روزگاری

سی آئی اے فیکٹ بک کے مطابق غزہ دنیا کی سب سے کم عمر آبادی میں سے ایک ہے، جس کی آبادی کا تقریباً 65 فیصد حصہ 25 برس سے کم عمر ہے لیکن بہت سے نوجوان بے روزگار ہیں۔

اقوام متحدہ کے دفتر کوآرڈینیشن آف ہیومینٹیرین افئیرز کی ایک رپورٹ کے مطابق سنہ 2020 میں نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح 70 فیصد تھی جس کی ایک وجہ کورونا وائرس کی وبا بھی ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.