’پیار سے محروم‘ تِلوں والا گنجا صحرائی چھچھوندر جو کینسر کے علاج میں مدد دے سکتا ہے
،تصویر کا ذریعہAlamy
- مصنف, فرینکی ایڈکِنز
- عہدہ, بی بی سی فیچرز
گنجے صحرائی تل والے چھچھوندر بڑھاپے کے تسلیم شدہ اصولوں کے خلاف مزاحمت کرتے نظر آتے ہیں اور لگتا ہے کہ کینسر کے خلاف مدافعت رکھتے ہیں۔ سائنسدان اس عجیب مخلوق کا اس لیے مطالعہ کر رہے ہیں کہ انسان کس طرح ایک زیادہ صحت مند اور زیادہ طویل زندگی بسر کر سکتا ہے۔
یہ کوئی راز نہیں ہے کہ گنجے صحرائی چھچھوندر، جن کی جلد جھریوں والی ہوتی ہے، ان کے جسم پر بہت ہی کم بال ہوتے ہیں جن کے منہ کے باہر لمبے لمبے دانت ہوتے ہیں، زمین پر موجود دیگر انواع کے مقابلے میں ان کا شمار بدصورت مخلوقات میں کیا جا سکتا ہے۔
لیکن ان مخلوقات میں جو خوبصورتی کے لحاط سے قدرے کم درجے کے ہوتے ہیں، یہ غیر معمولی خصوصیات کے حامل ہیں جو دنیا بھر کے ماہرینِ حیوانیات اور طبی محققین کے لیے باعثِ دلچسپی ہیں۔
ان کے چھوٹے سائز کے باوجود – ان کی پیمائش تین سے 13 انچ (7.6 اور 33 سینٹی میٹر) کے درمیان ہوتی ہے۔
گنجے چھچھوندر اوسطاً 30 سال تک زندہ رہتے ہیں، ذیابیطس سمیت دائمی بیماریوں کے خلاف مزاحمت رکھتے ہیں، اور اپنا ایک دلچسپ تولیدی نظام رکھتے ہیں۔
یہ جانور ماحولیات سے موافقت رکھنے والے تعمیراتی معمار یعنی ’ایکو سسٹم انجینیئرز‘ کے طور پر کام کر کے اور مٹی کے اندر اپنے گھر بنانے کے لیے مٹی میں حیاتیاتی تنوّع کو بہتر بنا کر ماحولیاتی فوائد بھی حاصل کرتے ہیں۔
یہ مضمون بی بی سی فیوچر کی ’ان لوڈ ورلڈ‘ Unloved World (وہ دنیا جو پیار سے محروم ہے) سیریز کا حصہ ہے، جس میں اس غیر متناسب شراکت کی کھوج کی گئی ہے جو بعض اہم، لیکن ناقابل تعریف انواع ماحولیاتی نظام، حیاتیاتی تنوع اور ہماری اپنی انسانی زندگیوں کے لیے کام کرتی ہیں۔
سٹار فِش سے لے کر چیونٹیوں، گوبر اور پھپھوندی تک، یہ وہ مخلوقات ہیں جو دنیا کا نظام چلانے میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں لیکن پھر بھی ہماری توجہ کی مستحق ہیں۔
بڑھاپے اور درد سے محفوظ، یہ عجیب نظر آنے والی مخلوق نے طویل عرصے سے سائنسدانوں کو مسحور کر رکھا ہے۔ اب تحقیق یہ ظاہر کر رہی ہے کہ وہ کینسر اور عمر بڑھنے کی ایک حد کو سمجھنے میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
اگرچہ ہم نے تاریخی طور پر انسانی حیاتیات کے راز کو سمجھنے کے لیے چوہوں اور ان کی کئی اقسام کا مطالعہ کیا ہے، لیکن سائنسدانوں کا خیال ہے کہ گنجے چھچھوندروں کی میڈیکل ریسرچ کے خاص فوائد ہیں۔
اس نوع کا سائنسی نام ’ہیٹرو سیفالس گلیبر‘ (Heterocephalus glaber) ہے، جس کا بنیادی مطلب ہے ’مختلف سروں والی گنجی نوع‘، شمال مشرقی افریقہ کے گرم علاقوں میں پائی جاتی ہے۔
جنگل میں یہ نوع زیر زمین بڑی بڑی کالونیوں میں رہتی ہیں جہاں ایک کالونی میں ان کی آبادی 300 تک ہو سکتی ہے۔
ان کی ایک کالونی جس میں سرنگوں اور کمروں پر مشتمل بُھول بُھلیاں ہوتی ہیں اور ان کا سائز فٹبال کی کئی گراؤنڈوں کی لمبائی جتنا ہوتا ہے۔
کم آکسیجن کی سخت حالتیں جن میں گنجے صحرائی چھچھوندر رہتے ہیں یہ کچھ انواع کی غیر معمولی خصوصیات کا اشارہ ہو سکتے ہیں۔
زیادہ تر ’ایروبک زندگی‘ یا آکسیجن خور زندگی (جِسے زِندَہ رہنے اور پھَلنے پھُولنے کے لِیے ہَوا یا غَیر مُرکَب آکسیجَن کی ضرورت ہو) اس طرح کے کم آکسیجن والے ماحول میں زندہ رہنے کے لیے جدوجہد کرے گی، پھر بھی ایسے ماحول میں گنجے صحرائی چھچھوندر سب سے طویل عرصے تک زندہ رہنے والے چوہوں کی ایک قِسم ہے۔
اسی طرح کے سائز کا عام چوہا دو سال تک زندہ رہ سکتا ہے، مگر یہ چھچھوندر 30 سال یا اس سے بھی زیادہ عرصے تک زندہ رہ سکتے ہیں۔
اگر آپ چھچھوندر کے ان کی کم آکسیجن اور اس جھریوں والی جلد کو دیکھیں اور ان کے چھوٹے سائز کے تناسب کو انسانی سائز کے ساتھ موازنہ کریں تو آپ کہیں گے کہ ان سے ملتی جلتی حالت اُن بوڑھے لوگوں کی ہو گی جن میں 450 سال کی عمر میں ویسی جُھرّیاں پیدا ہوجاتی ہوں گی۔
کینیا، ایتھوپیا اور صومالیہ کے جنگلوں میں پائے جانے والے گنجے چھچھوندر تقریباً 70-80 ارکان کی کالونیوں میں رہتے ہیں، جن میں بعض اوقات 300 سے زیادہ چھچھوندر بھی رہ سکتے ہیں۔
ان کی زندگی انتہائی اچھے سماجی رشتوں میں استوار ہوتی ہے، ان کالونیوں پر ایک ملکہ کی حکمرانی ہے اور یہ اپنے سماجی تعلقات میں سخت درجہ بندی کی پیروی کرتے ہیں۔
یہ اپنے ارکان کے مختلف کاموں کی نگرانی کرتے ہیں، جیسے کہ وہ جو پودوں کے زیر زمین حصوں کو واپس لاتے ہیں، جیسے کہ ان کے بلب، جڑیں اور ٹیوبرز وغیرہ، جنھیں وہ اپنے فضلے کے ساتھ کھاتے ہیں۔
،تصویر کا ذریعہAlamy
گنجے چھچھوندروں کی زیر زمین طرز زندگی انہیں سردی، بارش اور دیگر آب و ہوا کی انتہاؤں سے بچانے میں مدد دیتی ہے۔
ان کی سب سے انوکھی خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ یہ بتانا مشکل ہے کہ گنجے چھچھوندر کی عمر کتنی ہے، کیونکہ وہ اپنی جسمانی زوال کی محدود علامات ظاہر کرتے ہیں۔
اگرچہ انسان آہستہ آہستہ جھریاں، سرمئی، یا دائمی بیماریوں کے لیے زیادہ حساس ہو سکتے ہیں، لیکن سمِتھ کا کہنا ہے کہ ’عمر بڑھنے کی جو معیاری علامتیں آپ کو زیادہ تر دودھ دینے والے جانوروں یا ممالیہ میں دیکھنے کی توقع کریں گے وہ ان میں واقعتاً ظاہر نہیں ہوتیں ہیں۔‘
کارڈیک فنکشن، جسم کی ساخت، ہڈی کے معیار یا میٹابولزم میں کوئی خاص تبدیلیاں نظر نہیں آتی ہیں۔
یونیورسٹی آف کیمبرج میں سمِتھ کی ٹیم تقریباً 160 گنجے چھچھوندروں پر مشتمل پانچ کالونیوں کو 60 فیصد نمی پر 30 سیلسیئس کے قریب گرم کمرے میں رکھتی ہے۔
سمِتھ کا کہنا ہے کہ ’میرے پاس کیمبرج میں 10 سال سے یہ جانور ہیں اور میں نے کبھی بھی کسی جانور کو محض طبعی موت مرتے نہیں دیکھا ہے۔‘
سمِتھ کہتے ہیں کہ قید میں گنجے چھچھوندروں کی آپس میں لڑائی ان میں کچھ کی موت کا سبب بنتی ہے۔
ان کی زیر زمین طرز زندگی ان کے زندہ رہنے کے امکانات کو بڑھا سکتی ہے، جو ان کی کالونیوں کو سردی، بارش اور آب و ہوا کی انتہا سے بچاتی ہے۔ جنگل میں موت کی سب سے بڑی وجہ سانپ جیسے جانوروں کا شکار کرنا ہے۔
یہ انسانوں میں موت کی عام وجوہات سے بہت مختلف صورتِ حال ہے۔ سمِتھ کہتے ہیں کہ ’دو میں سے ایک انسان کو کینسر ہونے کا امکان ہے۔ چوہوں اور ان کی دیگر اقسام میں کینسر ہونے کا امکان یکساں ہوتا ہے، لیکن اس کے برعکس گنجے چھچھوندروں کو کینسر ہونے کا بہت ہی کم امکان ہوتا ہے – ایسا بہت ہی کم ہوتا ہے۔‘
گنجے چھچھوندروں کے کینسر سے بچنے کی وجہ اب بھی ایک معمہ ہے۔ کئی سالوں کے دوران متعدد نظریے پیش کیے گئے ہیں، سائنس دان ایک مضبوط وضاحت فراہم کرنے کے لیے تاحال کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ایک نظریے کے مطابق، گنجے چھچھوندروں میں خاص طور پر ایک اینٹی کینسر میکانزم (کینسر کے خلاف مدافعانہ نظام) کی ایک مؤثر شکل موجود ہوتی ہے جسے ’خلیاتی بڑھاپہ‘ کہتے ہیں – ایک ارتقائی موافقت جو تباہ شدہ خلیوں کو ایک حد سے زیادہ تقسیم ہونے اور کینسر میں بدلنے سے روکتی ہے۔
ایک اور نظریہ بتاتا ہے کہ گنجے چھچھوندر ایک پیچیدہ ’سپر شوگر‘ خارج کرتے ہیں جو خلیات کو ایک ساتھ جمع ہونے اور ٹیومر بننے سے روکتی ہے۔
تازہ ترین تحقیق ان کے جسموں میں اُن منفرد حالات پر مرکوز ہے جو کینسر کے خلیات کو بڑھنے سے روکتے ہیں۔
کیمبرج یونیورسٹی کے ماہرین تجویز کر رہے ہیں کہ گنجے چھچھوندروں کے مائیکرو ماحولیات کے ساتھ تعامل – کسی خلیے کے ارد گرد موجود خلیات اور مالیکیولز کا پیچیدہ نظام، بشمول مدافعتی نظام – بیماری کو روک رہا ہے، نہ کہ کسی موروثی کینسر کے خلاف مزاحمت کرنے والے طریقہ کار انھیں کینسر سے محفوظ بناتا ہے۔
کیمبرج یونیورسٹی کے ایک تجربے میں محققین نے 79 مختلف سیل لائنوں (خلیوں کی اندرونی ساخت) کا تجزیہ کیا جو 11 انفرادی گنجے چھچھوندروں کی آنت، گردے، لبلبہ، پھیپھڑوں اور جلد کے ٹشوز سے تیار کیے گئے تھے۔
محققین نے کینسر پیدا کرنے والے جینز متعارف کروانے کے لیے خلیوں کو ان تبدیل شدہ وائرس سے ملایا۔
ان کے لیے حیرت کی بات یہ ہے کہ متاثرہ گنجے چھچھوندر کے خلیے تیزی سے بڑھنے لگے۔ اس سے اس بات کی تصدیق ہوئی کہ یہ گنجے چھچھوندر کے جسم کا ماحول ہے جو خلیے (سیل) کی سطح کی خصوصیت کے بجائے کینسر کو بڑھنے سے روکتا ہے۔
تاحال اس بارے میں کوئی حتمی بات نہیں کہی جا سکتی ہے لیکن سمِتھ کا کہنا ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ ’کینسر بنیادی طور پر ایک تغیر و تبدل (mutation) کا نتیجہ ہے، جس کی وجہ سے خلیات ایک بے قابو طریقے سے پھیلتے ہیں۔
’بہت سی دوسری انواع کے مقابلے میں گنجے چھچھوندروں میں تغیر و تبدل کی شرح بہت سست ہے۔‘
چھوٹی عمر والے جانوروں میں عام طور پر تغیر و تبدل کی شرح تیز ہوتی ہے لیکن غیر معمولی طور پر گنجے چھچھوندروں کی تغیر و تبدل کی شرح اسی سطح پر ہوتی ہے جو طویل عرصے تک زندہ رہنے والے دودھ دینے والے جانوروں (ممالیہ)، جیسے کہ زرافے کی ہوتی ہے۔
ایک سست تغیر و تبدل کی شرح کا مطلب ہے کہ اس جانور میں ایک مقررہ مدت میں تغیرات پیدا ہونے اور کینسر ہونے کا امکان کم ہوتا ہے۔
شاید گنجے چھچھوندر کی سب سے عجیب بات یہ ہے کہ یہ درد محسوس نہیں کرتا ہے، یہ اس سے بے نیاز ہے۔
سمِتھ بتاتے ہیں کہ ’یہ ممکنہ طور پر (ان کے) اعلیٰ کاربن ڈائی آکسائیڈ ماحول میں ارتقائی موافقت کا نتیجہ ہے۔‘
جانور جو سانس لیتے ہیں وہ فضا میں موجود ہوا سے زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ (CO2) سے بھرپور ہوتی ہے۔ اگر یہ خارج ہونے والی ہوا زیر زمین سرنگوں میں پھنس جائے تو کاربن ڈائی آکسائیڈ (CO2) کا تناسب بڑھ جاتا ہے۔
زیادہ تر ممالیہ کے لیے، یہ ایک مسئلہ ہو گا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’کاربن ڈائی آکسائیڈ پانی کے ساتھ رد عمل کے ذریعے کاربونک ایسڈ نامی تیزاب بناتی ہے جو اعصاب کو متحرک کر کے درد پیدا کر سکتی ہے۔‘
بہت سی سوزش کی بیماریوں میں، جیسے کہ ’ریماٹائیڈ آرتھرائیٹس‘ (rheumatoid arthritis)، ٹشوز کی سوجن کے حصے اکثر تیزابیت کا شکار ہو سکتے ہیں اور درد کا باعث بن سکتے ہیں۔
سمِتھ کہتے ہیں کہ اس کے باوجود ’گنجے چھچھوندر تیزاب کو تکلیف دہ محسوس نہیں کرتے ہیں،یہ اُس طرح تکلیف محسوس نہیں کرتے ہیں جس طرح کٹی ہوئی جلد پر لیموں کا رس یا سرکہ چھڑکنے سے تکلیف ہوتی ہے۔‘
اُس نے اِن کی اِس برداشت کی مالیکیولر بنیاد کا مطالعہ کیا ہے اور ایک ایسے جین کی نشاندہی کی ہے جس کی وجہ سے جسم میں پیدا ہونے والا تیزاب بے ہوشی کی طرح کام کرتا ہے، نہ کہ گنجے چھچھوندر کے اعصاب کو متحرک کرنے کا کام کرتا ہے۔
،تصویر کا ذریعہAlamy
گنجے چھچھوندر زیر زمین بڑی بڑی کالونیوں میں رہتے ہیں جن کی تعداد 300 تک پہنچ سکتی ہے۔
برطانیہ کی بریڈ فورڈ یونیورسٹی میں فزیالوجی (علم الحیات) اور میٹابولزم (استحالہ) کی پروفیسر گیزلا ہیلفر کہتی ہیں کہ گنجے چھچھوندر بھی انسانی بلوغت کے مطالعہ کے لیے ایک بہترین نمونہ ہیں۔
مشرقی افریقہ کے ’ڈمارا لینڈ کہلانے والے چھچھوندر‘ (Damaraland mole rat) کے ساتھ ساتھ، گنجے چھچھوندر ’یوسوشل‘ ممالیہ (eusocial mammals) یا اجتماعی حقيقی زندگی بسر کرنے والے جانوروں کی صرف دو مثالوں میں سے ایک ہیں جن میں جوان اور اگلی نسلیں ایک ہی کالونی میں رہتے ہیں جہاں صرف ایک مادا چھچھوندر افزائش نسل کی ذمہ دار ہوتی ہے اور باقی ارکان بچوں کی پرورش کے لیے مل کر کام کرتی ہیں۔
شہد کی مکھیوں کی طرح ایک اعلیٰ درجہ کی ایک ملکہ چھچھوندر ان چھچھوندروں کی کالونی پر راج کرتی ہے، ایک وقت میں ایک سے تین نر چھچھوندر کے ساتھ افزائش نسل کرتی ہے۔
دوسرے چھچھوندر دیگر قسم کے کردار ادا کرتے ہیں، جیسے کہ وہ کارکن جو کالونی کے بلوں کو اپنے تیز اور لمبے دانت جیسے اوزاروں سے کھودتے ہیں اور کھانے کے لیے چارہ بناتے ہیں، ملکہ کو کھانے کے لیے جڑیں اور دیگر بوٹیاں مہیا کرتے ہیں۔
ہیلفر بتاتی ہیں کہ عام طور پر ہر کالونی میں ایک زرخیز جوڑا ہوتا ہے اور باقی جانور بلوغت سے نہیں گزرتے ہیں۔ تاہم اگر ایک گنجے چھچھوندر کو اس کی کالونی سے ہٹا دیا جاتا ہے تو یہ فوری طور پر جنسی سٹیرائڈز بنانا شروع کر دے گا اور جانور سنِ بلوغت میں پہنچ جاتا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’انسانوں میں بلوغت سے پہلے کا ایک طویل مرحلہ تقریباً 8 سے 12 سال کے عرصے پر محیط ہوتا ہے۔ جب بچہ بالغ ہے تو اس کے دماغ میں ہارمونز کو متحرک ہوجاتے ہیں، جو جنسی ہارمونز کی پیداوار کا باعث بنتے ہے اور تولیدی نالی کو پختہ ہونے دیتے ہے۔‘ یہ گنجے چھچھوندروں میں بلوغت کے بڑھنے کی عکاسی کرتا ہے جب کالونی میں ملکہ (غالب مادا) سے ماتحت مادا چھچھوندروں کو الگ تھلگ رکھا جاتا ہے۔
اس کے برعکس عام چوہے پیدائش کے دو ہفتوں کے اندر خاص طور پر تیزی سے بالغ ہو جاتے ہیں، اس لیے وہ جنسی ہارمونز کے مطالعہ کے لیے ناقص نمونے ہیں۔
ہیلفر اور دیگر سائنسدان جنسی ہارمونز، خاص طور پر ایسٹروجن اور ٹیسٹوسٹیرون، اور جنسی کروموسوم کے اثر و رسوخ کی تحقیقات کے لیے تیزی سے گنجے چھچھوندروں کی طرف دیکھ رہے ہیں۔
یہ معلومات طبی علاج جیسے بلوغت مانع عمل، ’ہارمون ریپلیسمنٹ تھراپی‘، ’آئی وی ایف‘ (IVF) اور حیض کے بند ہو جانے کے عمل پر روشنی ڈال سکتی ہیں۔
ہیلفر کہتی ہیں کہ یہ وہ مسائل ہیں جو ’ابھی صحت کے معاملے میں سب سے آگے ہیں۔‘
بریڈ فورڈ یونیورسٹی میں گنجے تل چھچھوندر ہیلفر کو اپنی ’ناقابل یقین ذہانت‘ اور چند ’بونکرز‘ (پگلے پن کی) عادات کی وجہ سے اسے متوجہ کرتے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ان کی انتہائی منظم کالونیوں کے اندر، ان کے پاس سونے کے لیے گھونسلے جیسے کمروں اور اپنی رہائش گاہوں کو صاف رکھنے کے لیے بیت الخلا کے کمرے ہیں۔
جب ان کے بچوں کی پیدائش ہوئی تو وہ یہ دیکھ کر دنگ رہ گئی کہ کالونی نے گنجے چھچھوندروں کی پرورش کے لیے ایک ’نرسری‘ بنائی ہوئی ہے۔
ہیلفر بتاتی ہیں کہ وہ (چھچھوندر) ’پیچھے اور آگے یکساں تیزی سے حرکت کرتے ہیں‘ اور اپنی چھوٹی موٹی آنکھوں کو شاذ و نادر ہی استعمال کرتے ہیں، بجائے اس کے کہ زیر زمین سفر کے لیے سرگوشیوں پر انحصار کرتے ہیں۔‘
،تصویر کا ذریعہAlamy
بڑھاپے، درد اور کینسر سے محفوظ، گجے چھچھوندروں نے سائنسدانوں کو طویل عرصے سے مسحور کر رکھا ہے۔
گنجے چھچھوندروں کے پاس بھی ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت کرنے کے منفرد طریقے ہوتے ہیں، مختلف بولیوں کے ذریعے یہ تعین کرتے ہیں کہ کون دوست ہے یا دشمن بالکل انسانوں کی طرح۔
ان کی کلاسک ’چرپ‘ کال (مخصوص چہچہاہٹ کی آواز) جانوروں کے گروپ کے لیے منفرد معلومات فراہم کرتی ہے، جس کا ایک مطالعہ بتاتا ہے کہ یہ جینیاتی طور پر نہیں بلکہ ثقافتی طور پر سیکھتے ہیں۔ شور اکثر ملکہ سے متعلق ہوتا ہے، گود لے کر پالنے والے بچے اس کالونی کے لہجے کو اپناتے ہیں جس نے ان کی پرورش کی ہوتی تھی، جو کہ اگر ملکہ کو تبدیل کر دیا جائے تو بدل سکتا ہے۔
ایک مطالعہ بتاتا ہے کہ 18 مختلف آوازیں جن میں انتباہی آواز، کھانا کھانے کی آواز، اجلاس کے اعلان کی آواز، رفع حاجت کے لیے جانے کی آواز اور ایک جگہ امع ہونے کی آواز شامل ہیں۔
جب شکاری قریبی خطے میں ہوتے ہیں تو کالونی کے دفاع کے لیے کئی الگ الگ انتباہی آوازوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔
کالونی کے طور پر گنجے چھچھوندروں کا تعاون حاصل کرنے کا دوسرا طریقہ پائیدار کاشتکاری ہے۔ کھانے کے اوقات میں کالونی کے دوسرے ممبروں کے ساتھ کھانے کے لیے بڑے بڑے پودوں کا زیر زمین تنے، جڑیں اور ’ٹیوبرز‘ (tubers) جیسے میٹھے آلو کو ان کے بلوں میں واپس لانا شامل ہوتا ہے۔
ہر کھانے کا وزن 50 کلو گرام تک ہوتا ہے۔ گنجے چھچھوندر پودے کی زہریلی بیرونی تہوں کو ہٹاتے ہیں، ان کا کھانا کھاتے ہیں، اور پھر ان علاقوں کو مٹی کے ساتھ جوڑ دیتے ہیں، جس سے ’ٹیوبرز‘ دوبارہ پیدا ہوتے ہیں اور زیرِ زمین سرنگ میں ایک اور کھانا بن جاتا ہے۔
درحقیقت ان کے پیچیدہ مواصلاتی نظام، طویل زندگی، سماجی ہم آہنگی اور خوراک کے وسائل کے محتاط انتظام کے ساتھ، گنجے چھچھوندروں میں اعلی ذہانت کی مضبوط علامات ظاہر ہوتی ہیں۔
یہ مخلوقات چند دیگر قابل ذکر خصوصیات کو ظاہر کرتی ہیں۔ اگرچہ تحقیق محدود ہے، جنوبی افریقہ میں متعلقہ عام اور جنوبی افریقہ کہ چھچھوندروں کی انواع کو ’ایکو سسٹم انجینئر‘ کے طور پر بتایا گیا ہے۔
ڈارلنگ میں کیپ ٹاؤن سے 60 کلو میٹر شمال میں ’وے لینڈ فلاور ریزرو‘ (Wayland Flower Reserve)، حیاتیاتی تنوع کے لیے دنیا کے اعلیٰ درجہ کی جگہوں میں سے ایک ہے – جو جنگلی پھولوں، شہد کی مکھیوں اور کیڑوں سے بھری ہوئی ہے۔
جنوبی افریقہ کی یونیورسٹی آف پریٹوریا میں اپنی پوسٹ ڈاکٹریٹ کے ایک حصے کے طور پر، نکول ہیگناہ نے علاقے کی میعاری اور زرخیز زمینوں میں بہتری پیدا کرنے میں دو مختلف چھچھوندروں کی انواع، عام اور کیپ چھچھوندروں کے کردار کا مطالعہ کیا۔
اپنے مطالعے میں، جو تین سال پر محیط تھا، اس نے ان کی زیرِ زمین سرنگوں کو بناتے ہوئہ یہ دیکھا کہ ان دو چھچھوندروں کی نسلوں نے کھدائی کی گئی مٹی کو سطح پر ٹیلے کے طور پر جمع کرکے ان سے چھٹکارا حاصل کیا۔
سطح پر موجود مٹی کے مقابلے ان ٹیلوں میں غذائیت کی سطح زیادہ تھی، خاص طور پر نائٹروجن۔ وہ کہتی ہیں کہ ’ہمیں یقین ہے کہ یہ زمین کے نیچے کی مٹی کی وجہ سے ہُوا جس میں گلے سڑے پودوں کے مواد اور ممکنہ طور پر گوبر اور پیشاب شامل تھا۔‘ ٹیلے کی مٹی بھی اردگرد کی مٹی سے کم سخت تھی۔
لہٰذا کیپ اور عام چھچھوندروں نے پودوں کی دو طریقوں سے مدد کی۔ وہ کہتی ہیں کہ ’سب سے پہلے پودوں کو بڑھنے کے لیے غذائی اجزا کی ضرورت ہوتی ہے، اور پودوں کے لیے سب سے اہم غذائی اجزا میں سے ایک نائٹروجن ہے۔
’دوسرے کم سخت (کمپیکٹ) ٹیلے کی مٹی نے پانی کو زمین میں آسانی سے داخل کرنے کے قابل بنایا ہو گا، جو اس کے لیے بھی فائدہ مند ہے۔ پودوں کو جیسے پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔‘
،تصویر کا ذریعہAlamy
ایک اعلی درجے کی ملکہ چھچھوندر چھچھوندروں کی کالونیوں پر راج کرتی ہے، ایک وقت میں ایک سے تین مردوں کے ساتھ افزائش کرتی ہے۔
حیاتیاتی طور پر دماغ کو حیران کرنے والے گنجے چھچھوندر کی طرح، وہ دیکھ بھال کرنے اور کام کرنے کے لیے سب سے آسان انواع نہیں ہیں، مطلب یہ ہے کہ دنیا بھر میں نسبتاً کم تحقیقی گروپ اس ناقابل یقین انواع کا مطالعہ کرتے ہیں۔
سمِتھ کا کہنا ہے کہ ’اگرچہ ان کی انتہائی حالت کی زندگی یا حیاتیات بہت دلچسپ ہے، اور بہت اچھی بصیرت فراہم کرتی ہے، لیکن ہر کسی کے لیے اس نوع کے لیے اپنی تحقیق کی سہولت قائم کرنا آسان نہیں ہے۔‘
گرم اور مرطوب ماحول کو نقل کرنے کے انتظامات کے علاوہ، گنجے چھچھوندر کی زندگی کا دورانیہ (لائف سائیکل) عام چوہوں سے زیادہ ہوتا ہے۔ عام طور پر بچے کو جنم دینے میں 75 دن لگتے ہیں اور افزائش نسل کا صرف ایک جوڑا ہوتا ہے جس کے نتیجے میں تجربات کی منصوبہ بندی کرتے وقت طویل انتظار کا وقت ہوتا ہے۔
اس وجہ سے سمِتھ نے ’گنجے چھچھوندروں کی افزائش‘ کا ایک منصوبہ (Naked Mole-Rat Initiative) قائم کیا، تاکہ دوسرے طبی شعبوں، جیسے کہ کینسر کے ماہرین کے ساتھ تعاون کیا جا سکے، اور تحقیق کی نئی سمتوں میں مدد دیے کے لیے ان کے منصوبے کے چھچھوندروں کو استعمال کیا جا سکے۔
سمتھ کی گنجے چھچھوندروں کی کالونی، اگر وہ اپنی فطری عمر کے مطابق رہتے ہیں، تو امکان ہے کہ وہ اس کے اندازے سے بھی کہیں زیادہ فائدہ مند ثابت ہو گی۔ وہ کہتے ہیں کہ ’دنیا میں بہت کم لوگوں کے پاس 30 سال سے زیادہ عمر کے گنجے چھچھوندر ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر وہ جانور جو میری کالونیوں میں پچھلے ہفتے پیدا ہوئے تھے، وہ اس وقت تک اپنی زیادہ سے زیادہ عمر تک نہیں پہنچ پائیں گے جب تک کہ میں ریٹائر نہیں ہو جاتا۔‘
سمِتھ کا کہنا ہے کہ اگر سائنس دان اس بات کا پتہ لگاسکتے ہیں کہ یہ انتہائی ماحول میں زندہ رہنے والے ممالیہ ایک طویل صحت مند زندگی کیوں جیتے ہیں تو وہ اس علم کی روشنے میں اس سے علاج، یا ایسی دوائیوں ’تیار‘ کرسکتے ہیں جن سے کینسر پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ اور ان انتہائی غیر معمولی جانوروں کی چھان بین کے دیگر فوائد بھی ہو سکتے ہیں، جن میں سے کچھ کا ابھی اندازہ لگانا مشکل ہے۔
سمِتھ کووِڈ-19 کا پتہ لگانے کے لیے پی سی آر (PCR) ٹیسٹ کی مثال استعمال کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’پی سی آر ٹیسٹ کے کام کرنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ ایک انزائم کا استعمال کرتے ہیں جو کہ یلو اسٹون پارک کے تھرمل وینٹ میں رہنے والے بیکٹیریا کی ایک قسم سے نکالا گیا ہے۔ اعلی درجہ حرارت پر رہنے کا مطلب یہ ہے کہ بیکٹیریا کے انزائمز اعلی درجہ حرارت پر مستحکم ہونے کے لئے تیار ہوئے ہیں جہاں حیاتیاتی رد عمل زیادہ تیزی سے ہوتا ہے۔‘
’اگر ہم انتہائی حالات میں پائی جانے والی زندگی کا مطالعہ نہیں کرتے ہیں، تو ہم کئی چیزوں کے علوم سے محروم رہ جاتے ہیں۔‘
Comments are closed.