اپنے ہاتھ سے سات بار قرآن لکھنے والے عالمِ دین: ’شروع میں قلم نہیں تھا، گوند کی مدد سے لکھا‘

صومالیہ

صومالیہ کے دارالحکومت موغادیشو میں رہنے والے عالمِ دین شیخ محمد عبد اللہِ نے مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن کی 114 سورتیں اپنے ہاتھ سے سات بار لکھی ہیں اور ان کی خاص بات یہ ہے کہ یہ تمام جلدیں انھوں نے جدید قلم اور سیاہی سے تحریر نہیں کیں۔

اگر آپ ان کی تحریر کو غور سے دیکھیں تو یہ شائبہ بھی نہیں ہو گا کہ یہ ہاتھ سے لکھا ہوا کام ہے۔

وہ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انھوں نے اپنی زندگی کے گذشتہ چونتیس برس قرآن لکھنے میں گزارے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ وہ اس کام کو آئندہ بھی جاری رکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

انھوں نے پہلی بار سنہ 1989 میں قرآن لکھنے کا آغاز کیا تھا اور اس وقت وہ بیس سال کے تھے۔ ان کے مطابق اس وقت قرآن کی جلدیں اتنی آسانی سے دستیاب نہیں ہوا کرتی تھیں۔

محمد عبداللہِ قرآن حفظ کر چکے تھے اور اپنی عمدہ تلاوت کے باعث وہ ’ابی امرہ‘ کے نام سے مشہور تھے۔ صومالیہ میں چھوٹے بچوں کو قرآن پڑھانے والے سکولوں میں بھیجنے کی روایت عام ہے اور ساتھ ہی بچوں کو قرآن حفظ کروانے کی روایت بھی موجود ہے۔

شیخ محمد عبداللہ نے بی بی سی کو بتایا کہ شروعات میں انھوں نے پہلی مرتبہ قرآن درختوں سے نکلنے والی مخصوص گوند کی مدد سے لکھا۔ اس وقت ان کے پاس جدید قلم بھی دستیاب نہیں ہوتا تھا اور وہ ایک روایتی قلم سے لکھا کرتے تھے۔

قرآن

انھوں نے بتایا کہ ’جب میں نے قرآن لکھنا شروع کیا تو اس وقت جدید کتابیں اور قلم موجود نہیں تھے جو اب ہر جگہ دستیاب ہیں۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’آغاز میں، میں نے کاغذ اکٹھے کیا اور صومالیہ کے دیہی علاقوں میں اُگنے والے درختوں سے نکلنے والی گوند کی مدد سے قرآن تحریر کرنا شروع کیا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’میں نے پہلی تین کتابیں گوند سے لکھیں اور آخری چار میں، میں نے باقاعدہ قلم استعمال کیا۔‘

انھوں نے بتایا کہ قرآن کی تمام سورتوں اور آیات کو لکھنا آسان نہیں ہے کیونکہ اس دوران غلطیوں سے بچنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ تاہم اس حوالے سے ان کی لگن نے انھیں قرآن کی تحریر مکمل کرنے کے قابل بنایا۔

اس بارے میں بات کرتے ہوئے وہ بتاتے ہیں کہ ’آخری کتاب میں مجھے سب سے زیادہ وقت لگا۔ مجھے اسے لکھنے میں آٹھ مہینے لگے، لیکن باقیوں میں مجھے تین سے چار مہینے لگے اور اس بار خاص طور میں بہت محتاط رہا۔‘

انھوں نے اپنی کمیونٹی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ ان کی لکھی ہوئی کتابوں کو بہت سراہتے ہیں اور اکثر ان سے ان کی لکھی ہوئی جلد مانگتے ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’لوگ بہت خوش ہوتے ہیں جب انھوں نے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ہاتھ سے لکھی ہوئی جلد ہے اور وہ مجھے مبارکباد دیتے ہیں۔‘

صومالیہ

شیخ محمد نے بتایا کہ انھوں نے جو قرآن کی پہلی جلد تحریر کی اسے لے کر وہ اپنے اس سکول چلے گئے جہاں قرآن پڑھایا جاتا ہے۔ ان کے مطابق دوسری جلد موغادیشو کے باکارہ مارکیٹ میں لگنے والی آگ میں جل گئی تھی۔

دیگر پانچ جلدیں میں سے انھوں نے کچھ اپنے پاس رکھی ہوئی ہیں اور کچھ ان افراد کو دی ہیں جنھوں نے فرمائش کر کے ان سے یہ لکھوائی تھیں۔

شیخ محمد عبداللہِ سنہ 1970 میں موغادیشو میں ہی پیدا ہوئے تھے۔

انھوں نے مشرق شبیل کے علاقے کے وارشیخ ضلع کے ایک قرآن سکول میں قرآن کی تعلیم حاصل کرنا شروع کی اور بعد میں موغادیشو شہر کے ایک اور سکول سے گریجویشن کی۔

انھوں نے دو شادیاں کر رکھی ہیں اور ان کے سات بچے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو بھی اسی راستے پر چلانا چاہتے ہیں جس کے ذریعے ان کی پرورش قرآن سیکھتے ہوئے ہوئی تھی۔

بچپن سے لے کر اب تک ان کی زندگی مساجد اور قرآنی مکاتب میں دین اور قرآن کی تعلیم دیتے ہوئے گزری ہے۔

وہ چاہتے ہیں کہ مستقبل میں بھی وہ جب تک زندہ ہیں قرآن لکھتے رہیں گے۔

شیخ محمد نے کہا کہ ’قرآن کو ہاتھ سے لکھنا میرے لیے دنیا کی سب سے اہم چیز ہے اور یہ آخرت اور دنیا میں کامیابی کی ضامن ہے اس لیے میں اسے لکھتا رہوں گا۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ