جب ہنری کسنجر نے امریکہ کو انڈیا کے بجائے پاکستان کی طرف جھکنے پر آمادہ کیا

ہنری کسنجر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

کچھ لوگ امریکی سیاستدان ہنری کسنجر کو ڈپلومیسی اور سٹیٹس مین شپ کا ماہر سمجھتے تھے لیکن بہت سے لوگوں کے نزدیک وہ ایک سختی برتنے والے سیاست دان تھے جنھوں نے اپنا مطلب نکالنے کے لیے امریکی طاقت کے دھونس کا استعمال کیا۔

سنہ 1971 کی جنگ میں انڈیا کے ساتھ ان کی دشمنی تھی۔ سنہ 2005 میں جب وائٹ ہاؤس کی خفیہ ٹیپ منظر عام پر آئی تو انھیں انڈیا اور اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کے لیے غلط الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے سنا گیا۔ بعد میں انھوں نے اس پر معافی بھی مانگ لی۔

1971 کی جنگ میں امریکی صدر رچرڈ نکسن اور ان کے سکیورٹی ایڈوائزر ہنری کسنجر پوری طرح پاکستان کے ساتھ کھڑے نظر آئے۔

جب پاکستانی فوج نے بنگلہ دیش کی تحریک آزادی کو فوجی طاقت سے کچلنا شروع کیا تو امریکی محکمہ خارجہ کا پہلا ردعمل پاکستانی فوج کے مظالم کی مذمت کرنا تھی۔

اس وقت کے اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ برائے مشرقی اور جنوبی ایشیائی امور کرسٹوفر وان ہولن نے ‘ایشیئن سروے’ میگزین کے اپریل 1980 کے شمارے میں ‘دی ٹلٹ پالیسی ری وزیٹڈ’ کے عنوان سے ایک مضمون میں لکھا امور خارجہ، دفاع اور سی آئی اے کے حکام کی آپسی میٹنگ میں، جس میں ہنری کسنجر کے اپنے کچھ اتحادی بھی شامل تھے، وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ پاکستانی فوج کی بربریت کے بہانے انڈیا کے قریب آنا امریکہ کے مفاد میں ہوگا۔

لیکن کسنجر اس خیال سے متفق نہیں تھے۔ انھوں نے پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشیدگی کو مقامی نقطہ نظر سے دیکھنے کے بجائے اسے امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان کشیدگی کے نقطہ نظر سے دیکھنا شروع کیا۔

والٹر آئزکسن نے ہنری کسنجر کی سوانح عمری میں لکھا کہ اول تو کسنجر نے ‘انڈیا اور پاکستان کے تناظر میں اخلاقیات کو ایک طرف رکھا اور حقیقت پسندی کو ترجیح دی۔ دوم، انھوں نے اس تنازع کو مکمل طور پر سوویت-امریکی مقابلے کے تناظر میں دیکھا۔ کسنجر کی پاکستان کی حمایت کی پالیسی کو امریکی صدر رچرڈ نکسن کے وزیر اعظم اندرا گاندھی اور انڈیا مخالف موقف سے بھی حوصلہ ملا۔’

کسنجر اور نکسن

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

کسنجر (دائیں) اور صدر نکسن

نکسن اور کسنجر نے اندرا کے لیے نازیبا الفاظ استعمال کیے

یہ تلخی اس حد تک بڑھی کہ جب اندرا گاندھی نومبر سنہ 1971 میں امریکہ کے دورے پر گئیں تو رچرڈ نکسن نے انھیں اپنے دفتر کے باہر 45 منٹ تک انتظار کرایا۔

کیتھرین فرینک اپنی اندرا گاندھی کی سوانح عمری میں لکھتی ہیں: ’اندرا گاندھی نے اس توہین کا بدلہ بڑے تحمل سے لیا۔ اس کے بعد ہونے والی ملاقات میں انھوں نے پاکستان کا ذکر تک نہیں کیا اور نکسن سے امریکی خارجہ پالیسی کے بارے میں سخت سوالات کیے۔ اندرا نے نکسن سے اس انداز میں بات کی جس طرح ایک پروفیسر حوصلے کو بڑھانے کے لیے پڑھائی میں کمزور اپنے طالب علم سے بات کرتا ہے۔’

نکسن نے غیر جذباتی شائستگی کے ساتھ کسی طرح اپنے غصے پر قابو رکھا۔ ملاقات کے بعد کسنجر نے اپنے صدر کی تعریف کی اور اندرا گاندھی کے لیے غیر پارلیمانی زبان استعمال کی۔

گیری باس اپنی کتاب ‘دی بلڈ ٹیلیگرام انڈیاز سیکرٹ وار ان ایسٹ پاکستان’ میں لکھتے ہیں: ‘نکسن نے اپنی تعریف کرتے ہوئے کسنجر سے کہا: ‘ہم نے اس ‘عورت’ کو معمولی معاملوں میں کچھ چھوٹ دی۔ لیکن ہم اصل معاملے پر ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹے۔’

اس پر کسنجر ان کی طرف دیکھ کر مسکرائے اور کہنے لگے ‘آپ نے دیکھا نہیں کہ ہم نے انھیں کس طرح چاروں طرف سے گھیر لیا ہے۔ جناب صدر، اگرچہ وہ ایک ۔۔۔ ہیں، لیکن وہ یہاں سے باہر جا کر یہ نہیں کہہ سکتیں کہ امریکہ نے انھیں کاٹ کھایا۔ آپ نے اچھا کیا کہ ان کے ساتھ زیادہ سختی نہیں کی ورنہ وہ روتی ہوئی واپس لوٹ جاتیں۔’

ہنری کسنجر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

ہنری کسنجر

انڈیا اور پاکستان پر کسنجر اور امریکی محکمہ خارجہ کے درمیان اختلافات

چین کے اپنے خفیہ دورے سے واپس آ کر ہنری کسنجر نے امریکی صدر رچرڈ نکسن اور ان کے مشیروں کے سامنے اس سفر کا تجزیہ پیش کیا۔

سیمر ہرش اپنی کتاب ‘دی پرائس آف پاور’ میں لکھتے ہیں: ‘کسنجر نے کہا تھا کہ اگر انڈیا نے پاکستان پر حملہ کیا تو چین پاکستان کی مدد کے لیے آگے آئے گا۔ اگر ایسا ہوا تو سوویت یونین انڈیا کی طرف سے میدان میں اترے گا۔ امریکہ کو پاکستان کے پیچھے کھڑا ہونا چاہیے تاکہ نہ انڈیا پاکستان پر حملہ کرنے کا سوچ سکے اور نہ ہی سوویت یونین کو اس معاملے میں مداخلت کا موقع ملے۔’

امریکی محکمہ خارجہ نے کسنجر کے اس جائزے سے اتفاق نہیں کیا۔ ان کا خیال تھا کہ اگر انڈیا اور پاکستان کے درمیان جنگ ہوتی ہے تو امریکہ کو انڈیا کا ساتھ دینا چاہیے تاکہ چین کو مداخلت کا موقع نہ ملے۔

جب اس نظریے کو سینیئر ریویو گروپ کے سامنے رکھا گیا تو کسنجر غصے میں آگئے۔ انھوں نے کہا کہ ’صدر ہمیشہ کہتے رہے ہیں کہ ہمیں پاکستان کا ساتھ دینا چاہیے۔ لیکن مجھے اس کے بالکل برعکس پیشکش کی جا رہی ہے۔ کبھی کبھی مجھے ایسا لگتا ہے جیسے میں پاگل خانے میں بیٹھا ہوں۔’

کسنجر

،تصویر کا ذریعہAFP

،تصویر کا کیپشن

صدر نکسن کے سامنے ہنری کسنجر

کسنجر نے نکسن سے زیادہ فعال کردار ادا کیا

اگست میں کسنجر کا غصہ مزید بڑھ گیا جب انڈیا نے سوویت یونین کے ساتھ دوستی کا معاہدہ کیا۔

لیکن امریکی اس بات کا اندازہ نہیں لگا سکتے تھے کہ یہ معاہدہ ایک طرح سے انڈیا کی طرف سے کسنجر کے خفیہ دورہ چین کا جواب تھا۔ کسنجر کے سوانح نگار والٹر آئزکسن لکھتے ہیں: ‘پاکستان کے دوست چین کے ساتھ تعلقات قائم کر کے امریکہ نے انڈیا کو سوویت یونین کے قریب دھکیل دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جب اندرا گاندھی امریکہ آئیں تو دونوں طرف سے بے حسی کا مظاہرہ کیا گیا۔’

بعد ازاں کسنجر نے اس ملاقات کا تذکرہ کرتے ہوئے اپنی کتاب ‘دی وائٹ ہاؤز ایئرز’ میں لکھا: ‘کسی بھی غیر ملکی رہنما کے ساتھ یہ نکسن کی بدترین اور بدقسمت ملاقات تھی۔‘

اندرا گاندھی حیران تھیں کہ ہنری کسنجر اس گفتگو میں رچرڈ نکسن سے زیادہ فعال کردار ادا کر رہے تھے۔

نکسن چند منٹ بات کرتے اور پھر کسنجر کی طرف متوجہ ہو جاتے اور پوچھتے ’کیا یہ ٹھیک ہے، ہنری؟‘ پھر کسنجر اپنی بات شروع کرتے۔

پھر نکسن چند الفاظ کہتے اور کسنجر سے پوچھتے، ‘کیا آپ بھی اس پر کچھ کہیں گے؟’ اندرا نے بعد میں کہا کہ ’میں نکسن کی بجائے کسنجر سے بات کرتی تو بہتر ہوتا۔‘

جنرل یحی خان

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

جنرل یحی خان

امریکی محکمہ خارجہ کو پاکستان کی طرف جھکنے پر آمادہ کیا

22 نومبر 1971 کو جب انڈین فوج بنگالی علیحدگی پسندوں کی حمایت میں سرحد عبور کر کے مشرقی پاکستان میں داخل ہوئی تو کسنجر دنیا کے ان چند لوگوں میں سے ایک تھے جن کا خیال تھا کہ یہ واقعہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان جنگ کا باعث بنے گا۔

جبکہ امریکی وزارت خارجہ اس پیش رفت پر زیادہ توجہ نہیں دے رہی تھی۔ یہاں تک کہ پاکستانی صدر یحییٰ خان بھی کہہ رہے تھے کہ انھیں اب بھی امید ہے کہ جنگ سے بچا جا سکتا ہے۔

3 دسمبر کو یو ایس کرائسز کمیٹی کے اجلاس میں کسنجر نے وزارت خارجہ سے مطالبہ کیا کہ نکسن کا پاکستان کی طرف جھکاؤ قبول کیا جائے۔

کسنجر نے کہا: ’مجھے ہر آدھے گھنٹے بعد صدر کی طرف سے ڈانٹ ڈپٹ سننی پڑتی ہے کہ ہم انڈیا کے خلاف سخت رویہ کیوں اختیار نہیں کر رہے؟ میں حیران ہوں کہ ہم ان کی خواہشات پر عمل کیوں نہیں کر رہے؟‘

والٹر آئزاکسن لکھتے ہیں: ‘کسنجر نہ صرف نکسن کی طرف سے ہدایات دے رہا تھا بلکہ اسے انڈیا کے خلاف مزید سخت موقف اپنانے پر اکسا رہے تھے۔‘

انھون نے 5 دسمبر کو نکسن سے کہا: ‘اگر پاکستان ہار گیا تو سوویت یونین کی نظروں میں ہمارا وقار کم ہو جائے گا۔ یہاں تک کہ چینی بھی اسے پسند نہیں کریں گے۔ لیکن اگر انڈیا جیت جاتا ہے تو دوسری جگہوں پر علیحدگی کی تحریکیں شروع ہو جائیں گی اور سوویت یونین کو بھی دوسری جگہوں پر مداخلت کرنے کی ترغیب مل جائے گی۔‘

دوسری ملاقات میں وہ مزید دو ٹوک ہو گئے اور نکسن سے کہا: ‘ہم کسی بھی صورت میں یہ نہیں چاہیں گے کہ ہمارا اور چین کا دوست روس کے دوست سے لڑائی میں شکست کھا جائے۔‘

اندرا گاندھی اور صدر نکسن

،تصویر کا ذریعہNIXON LIBRARY

،تصویر کا کیپشن

اندرا گاندھی اور صدر نکسن

انڈیا نے امریکی اور سوویت دباؤ کی وجہ سے جنگ بندی کا اعلان کیا

16 دسمبر 1971 کو جب انڈیا نے پاکستان کے ساتھ جنگ بندی کی پیشکش کی تو پاکستان نے اسے فوراً قبول کر لیا۔

اندرا گاندھی نے کشمیر کے بڑے علاقے پر قبضہ کیے بغیر جنگ بندی کا اعلان کر دیا۔

لیکن کسنجر نے کہا: ’مجھے یقین ہے کہ انڈیا نے یہ فیصلہ سوویت دباؤ میں جھجکتے ہوئے کیا۔ سوویت فیصلے بھی امریکی دباؤ کی وجہ سے آئے جس میں امریکہ کا اپنے ساتویں بحری بیڑے کو خلیج بنگال میں بھیجنا اور امریکی صدر کا مجوزہ سوویت دورہ منسوخ کرنا شامل تھا۔‘

لیکن 1971 کی جنگ میں پاکستان کا کھل کر ساتھ دینے کے باوجود پاکستان کے حکمرانوں نے ہنری کسنجر سے دوری برقرار رکھی۔ ذوالفقار علی بھٹو اپنی معزولی اور پھانسی تک اس کا ذمہ دار ہنری کسنجر کو ٹھہراتے رہے۔

ان کی بیٹی بے نظیر بھٹو نے اپنی سوانح عمری ‘ڈاٹر آف دی ایسٹ’ میں لکھا: ‘میرے والد نے کسنجر کو ان کے زوال کا ذاتی طور پر ذمہ دار ٹھہرایا۔ جب بے نظیر بھٹو پاکستان کی وزیر اعظم بنیں تو انھوں نے امریکہ کا ساتھ دیا لیکن ہنری کسنجر سے اپنے والد کی دشمنی برقرار رکھی۔

کسنجر چین میں

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

کسنجر چین میں

چین کا خفیہ دورہ

ہنری کسنجر کی سفارتی زندگی کا سب سے بڑا لمحہ وہ آیا جب وہ پوری دنیا کو بے وقوف بنا کر پاکستان کے دورے کے دوران وہ چین پہنچ گئے۔

10 جولائی 1971 کو نیویارک ٹائمز کے اندرونی صفحات میں ایک مختصر سی تین سطر کی کہانی شائع ہوئی کہ ‘راولپنڈی کی گرم اور مرطوب ہواؤں سے بچنے کے لیے نکسن کے سلامتی کے مشیر ہنری کسنجر نے پورا دن شمالی پاکستان کے سرد پہاڑوں نتھیاگلی میں گزارا۔

اطلاعات ہیں کہ کسنجر کی طبیعت قدرے ناساز ہے۔ اصل بات یہ تھی کہ کسنجر کبھی نتھیاگلی نہیں گئے اور کسنجر کی گاڑیوں کا ایک فرضی قافلہ جس پر سائرن لگے تھے اور امریکی پرچم لہرا رہے تھے وہ نتھیاگلی کی طرف بڑھا لیکن کسنجر اس میں موجود نہیں تھے۔ ان کی جگہ ان کا ‘ڈبل’ ان کی گاڑی میں سوار تھا۔

ہنری کسنجر اپنی سوانح عمری میں لکھتے ہیں: ‘میرا منصوبہ یہ تھا کہ میں پاکستان پہنچتے ہی پیٹ میں درد محسوس کروں۔ سفارت خانے کے ڈاکٹر مجھے کچھ دوائیں دیں گے۔ میری طبیعت پھر بھی ٹھیک نہیں ہوگی اور پاکستان کے صدر یحییٰ خان مجھے نتھیاگلی میں اپنے گیسٹ ہاؤس میں ایک یا دو دن آرام کرنے کا مشورہ دیں گے اور اس دوران میں چین سے خفیہ بات چیت کے لیے بیجنگ روانہ ہو جاؤں گا۔ لیکن خدا نے مجھے اس فریب کی سزا دینے کا فیصلہ کیا اور جب میں نے اپنے سفر کا دہلی دورہ مکمل کیا تو مجھے درحقیقت پیٹ میں درد ہونے لگا اور کسی کو بتائے بغیر اور بغیر کسی طبی مدد کے مجھے یہ درد برداشت کرنا پڑا۔‘

ہنری کسنجر

پاکستانی خارجہ سیکرٹری کسنجر کو اپنی ذاتی گاڑی میں ایئرپورٹ لے گئے

9 جولائی 1971 کی صبح جب کسنجر صبح 3:30 بجے بیدار ہوئے تو انھوں نے جلدی جلدی ناشتہ کیا۔

اس سے قبل پاکستان کے خارجہ سیکریٹری سلطان محمد خان اپنی ذاتی گاڑی میں کسنجر کے گیسٹ ہاؤس انھیں الوداع کہنے کے لیے پہنچے۔

سلطان خان اپنی سوانح عمری ‘میموئرز اینڈ ریفلیکشنز’ میں لکھتے ہیں: ‘میں نے سرکاری گاڑی اس لیے استعمال نہیں کی کہ ڈرائیور کو اتنی صبح فون کرنے کا مطلب لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرنا ہوتا۔ میرے بیٹے ریاض نے رات کو وہ کار استعمال کی تھی۔ چابی ڈھونڈی تو نہیں ملی پھر میں اس کے پاس گیا۔

‘جب میں نے اسے جگایا تو اس کا پہلا سوال یہ تھا کہ کیا ماں کی طبیعت ٹھیک ہے؟ کیا آپ اتنی صبح ڈاکٹر کے پاس جا رہے ہیں؟ اسے مطمئن کرنے کے لیے میں نے جواب دیا، ہم نتھیاگلی جا رہے ہیں۔ آنکھیں بند کر کے وہ بڑبڑایا، صبح تین بجے نتھیاگلی؟ آپ کی نسل میری سمجھ سے بالاتر ہے۔’

ٹھیک چار بجے پاکستانی فوج کی گاڑیاں کسنجر کو اسلام آباد کے چکلاتا ایئرپورٹ لے گئیں۔ سلطان خان بھی ان کے ہمراہ تھے۔

پاکستان میں امریکی سفیر فارلینڈ کے مشورے پر کسنجر نے صبح چار بجے سر پر ٹوپی اور آنکھوں پر دھوپ کا چشمہ لگایا تاکہ اسلام آباد ایئرپورٹ پر کوئی انھیں پہچان نہ سکے۔

طیارہ یحییٰ خان کا ذاتی پائلٹ اڑا رہا تھا۔ کسنجر کا طیارہ چکلاتا ایئرپورٹ پر کھلے عام کھڑا کیا گیا تھا تاکہ اسے دیکھنے والے صحافیوں کو یہ تاثر ملے کہ کسنجر ابھی تک پاکستان میں ہیں۔

کسنجر اور چینی وزیر اعظم کی ملاقات

،تصویر کا ذریعہAFP

،تصویر کا کیپشن

کسنجر اور چینی وزیر اعظم کی ملاقات

چو این لائی اور کسنجر کی ملاقات

جب کسنجر کا طیارہ 12 بج کر 15 منٹ پر بیجنگ کے فوجی ہوائی اڈے پر اترا تو پولٹ بیورو کے سینیئر ترین ارکان میں سے ایک مارشل یہ چیان ینگ نے ان کا استقبال کیا۔

ٹھیک 4.30 بجے چینی وزیر اعظم چو این لائی کسنجر سے ملنے گیسٹ ہاؤس پہنچے۔ ان کے دبلے پتلے چہرے سے اعتماد ٹپک رہا تھا۔ انھوں نے خوبصورت سلائی ہوئی ماؤ ٹینک پہن رکھی تھی۔

کسنجر لکھتے ہیں: ’اس نے اپنی دلکش مسکراہٹ سے ہمیں مسحور کر دیا۔ مجھے یہ تاثر بھی ملا کہ وہ انگریزی بہت اچھی طرح سمجھتا ہے، حالانکہ وہ چینی زبان میں بات کر رہا تھا۔ میں گیسٹ ہاؤس کے دروازے پر پہنچا اور اس کے استقبال کے لیے ہاتھ بڑھایا۔ وہ اور مجھے دونوں کو یاد تھا کہ کس طرح 27 سال پہلے امریکی وزیر خارجہ ایلن فوسٹر ڈلس نے ان کے بڑھے ہاتھ کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔’

’تھوڑے ہی عرصے میں میں نے دریافت کیا کہ چو این لائی کا فلسفہ، تاریخی تجزیے اور مزاحیہ فصاحت میں کوئی ثانی نہیں تھا۔ امریکی واقعات اور میرے بارے میں اس کا علم حیرت انگیز تھا۔ کسنجر اور چو این لائی کے درمیان ملاقات کئی گھنٹے تک جاری رہی۔’

وائٹ ہاؤس میں صدر نکسن کے ساتھ کسنجر

،تصویر کا ذریعہAFP

،تصویر کا کیپشن

وائٹ ہاؤس میں صدر نکسن کے ساتھ کسنجر

کسنجر اسلام آباد میں اپنی شرٹ بھول گئے

پوری گفتگو کے دوران چو این لائی کے سامنے صرف ایک چھوٹا سا کاغذ رکھا گیا جس پر انھوں نے ٹیلی گرافک زبان میں چند الفاظ لکھے تھے۔

کسنجر نے بعد میں تبصرہ کیا: ’ہمارے درمیان گفتگو ایسی تھی جیسے سیاسی فلسفے کے دو پروفیسر آپس میں بات کر رہے ہوں۔ کسنجر نے اپنے معاون ڈیو ہالپرین کو ہدایت کی تھی کہ وہ اس طویل سفر کے دوران خاص طور پر اپنے دورہ چین کے لیے دو کلین شرٹس الگ رکھیں۔

لیکن جب وہ کسنجر کو چھوڑ کر نتھیاگلی جا رہے تھے تو انھیں معلوم ہوا کہ کسنجر نے وہ قمیضیں اسلام آباد میں چھوڑ دی ہیں۔ کسنجر کو اس بات کا علم ہوائی جہاز میں ہی ہوا۔ جب انھوں نے بیجنگ میں اترنے سے پہلے اپنی شرٹ بدلنے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ یہ سوٹ کیس میں نہیں ہے۔’

کسنجر لکھتے ہیں: ’مجھے جان ہالڈریج سے ایک قمیض ادھار لینی پڑی۔ ان کا قد چھ فٹ دو انچ تھا۔ اگر آپ اس عرصے کے دوران لی گئی تصاویر کو غور سے دیکھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ان میں میری گردن نظر نہیں آ رہی، کیونکہ جان کی گردن مجھ سے کم از کم ایک انچ چھوٹی تھی۔’

کسنجر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

کسنجر

کسنجر نے انڈین سفیر لکشمی کانت جھا کو فون کیا

کسنجر 11 جولائی کو نکسن کے دورہ چین کی تیاری کرتے ہوئے اسلام آباد واپس آئے۔ ہوائی اڈے سے پہلے انھین نتھیاگلی لے جایا گیا تاکہ یہ ظاہر ہو کہ وہ نتھیاگلی سے واپس آ رہے ہیں۔

شام چھ بجے کسنجر امریکہ واپس جانے کے لیے اپنے جہاز میں سوار ہوئے۔ نکسن امریکہ میں ان کا بے تابی سے انتظار کر رہے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ یہ سفر کامیاب رہا کیونکہ کسنجر نے جہاز میں سوار ہوتے ہی انھیں پہلے سے طے شدہ کوڈ ‘یوریکا’ بھیج دیا تھا۔

جس دن امریکہ نے یہ اعلان کرنا تھا کہ ہنری کسنجر نے خفیہ طور پر چین کا دورہ کیا ہے، اس دن امریکہ میں انڈیا کے سفیر لکشمی کانت جھا کے پاس ایک فون آیا۔ اس وقت وہ اپنے گھر کے باہر تھے۔ ان کے انڈین سکیورٹی گارڈ نے، جشس انگریزی نہیں آتی تھی، کہا کہ ‘صاحب بہادر کے لیے کشن چندر جی کا فون آیا تھا۔’

اندرا گاندھی کی سوانح عمری میں پپل جےکر لکھتے ہیں: ‘جھا کو سمجھ نہیں آیا کہ یہ کشن چندر کون ہے؟ اس نے اپنے سیکریٹری سے اس کے چھوڑے نمبر پر فون کرنے کے لیے کہا۔ معلوم ہوا کہ یہ فون کسنجر کا تھا جسے ان کے گارڈ نے کشن چندر سمجھ لیا تھا۔ کسنجر اس وقت لاس اینجلس میں تھے۔’

انھوں نے انڈین سفیر سے پوچھا کہ ‘آج رات ساڑھے آٹھ بجے آپ کہاں ہوں گے؟ جھا نے کہا کہ وہ رات کے کھانے پر ہوں گے۔ کسنجر نے ان کا نمبر لیا اور کہا کہ وہ انھیں ٹھیک 8:30 بجے کال کریں گے۔ انھوں نے مسٹر جھا کو یہ نہیں بتایا کہ کال کس بارے میں ہوگی۔ 8.30 پر جب کسنجر کا فون آیا تو جھا نے خود فون اٹھایا۔

کسنجر نے کہا: ’آدھے گھنٹے کے بعد صدر نکسن یہ اعلان کرنے والے ہیں کہ انڈیا اور پاکستان کے دورے کے دوران میں خفیہ طور پر چین بھی گیا تھا۔ صدر نکسن چاہتے ہیں کہ وہ اپنا ایک پیغام وزیر اعظم اندرا گاندھی تک پہنچائیں۔ آپ اسے لکھ لیں۔ پیغام میں کہا گیا کہ امریکہ چین کے ساتھ سیاسی تعلقات قائم کرنے جا رہا ہے۔ اگر انڈیا اس کی مخالفت کرتا ہے تو اسے غیر دوستانہ اقدام تصور کیا جائے گا۔ صدر نکسن یہ سمجھ رہے تھے کہ انڈیا اس کی مخالفت کرے گا۔

امریکہ کے اس قدم پر اندرا گاندھی نے کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ اس نے خاموشی سے ماسکو کو پیغام بھیجا۔ اس واقعے کے ٹھیک اور ایک ماہ بعد 9 اگست 1971 کو انڈیا نے سوویت یونین کے ساتھ دوستی کا معاہدہ کر لیا۔

BBCUrdu.com بشکریہ