ویلز میں قرون وسطیٰ کا پراسرار قبرستان: ’یہ لوگ دانتوں کو بطور اوزار استعمال کرتے تھے‘

اس برادری کے بارے میں مزید معلومات کے لیے ہڈیوں کا ڈی این اے تجزیہ کیا جائے گا

،تصویر کا ذریعہBBC/KEVIN CHURCH

،تصویر کا کیپشن

اس برادری کے بارے میں مزید معلومات کے لیے ہڈیوں کا ڈی این اے تجزیہ کیا جائے گا

  • مصنف, ربیکا موریل اور ایلیسن فرانسس
  • عہدہ, بی بی سی نیوز سائنس

ویلز میں قرون وسطیٰ کے ابتدا کا قبرستان دریافت ہوا ہے جو آثارِ قدیمہ کے ماہرین کے لیے ایک معمہ بن گیا ہے اور وہ اسے دیکھ کر اپنا سر کھجانے پر مجبور ہو گئے ہیں۔

اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ کل 70 قبریں ہیں جن میں سے 18 کو کھود لیا گیا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ یہ چھٹی یا ساتویں صدی کی ہیں۔

بہتر حالت میں ملنے والے کچھ انسانی ڈھانچے غیر معمولی انداز میں لیٹے ہوئے پائے گئے اور اس جگہ سے غیر متوقع نوادرات بھی نکل رہے ہیں۔

جہاں اس کھدائی سے اس پرانے زمانے کی آبادی کے بار میں مزید تفصیلات مل رہی ہیں وہیں بہت سارے سوال بھی سامنے آ رہے ہیں۔

ان قبروں کو باہر نکالنے کے لیے تقریباً دو سالوں سے ماہرین کی ٹیم احتیاط سے ان کے اوپر پڑی مٹی کی تہہ کو ہٹانے کا کام کر رہی ہے۔

ملنے والے ڈھانچوں میں سے ایک کے سامنے کے دانت بہت گھسے ہوئے ہیں

،تصویر کا ذریعہBBC/KEVIN CHURCH

،تصویر کا کیپشن

ملنے والے ڈھانچوں میں سے ایک کے سامنے کے دانت بہت گھسے ہوئے ہیں

یونیورسٹی آف ریڈنگ میں آثار قدیمہ کے مقامات پر ملنے والی ہڈیوں کی ماہر سمر کورٹس کہتی ہیں کہ 1500 سال پرانے ہونے کے باوجود ڈھانچے اچھی حالت میں ہیں۔

وہ وہاں سے نئی نکلنے والی کھوپڑی کی طرف اشارہ کرتی ہیں جس سے اس وقت کے لوگوں کے رہن سن کے متعلق مزید معلومات مل رہی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ کچھ دانت عجیب طریقے سے گِھسے ہوئے ہیں ’جس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ دانتوں کو بطور اوزار استعمال کیا جاتا تھا۔‘

’شاید ٹیکسٹائل کے کام کے لیے، چمڑے کے کام یا ٹوکری بنانے کے لیے، وہ اپنے اگلے دانتوں سے کچھ کھینچتے تھے۔‘

لیکن کچھ ڈھانچے جس انداز میں پائے گئے وہ ایک معمہ ہے۔ وہ مختلف انداز میں پائے گئے۔

کچھ ڈھانچے سیدھے لیٹے ہوئے ہیں، کچھ کروٹ لیے ہوئے ہیں اور کچھ کے گھٹنے ان کے سینے کے ساتھ لگے ہوئے ہیں۔

ماہرین آثار قدیمہ اس بارے میں یقینی نہیں بتا پا رہے کہ اس کا مطلب کیا ہے۔ کیا یہ قبرستان ایک طویل عرصے کے لیے استعمال ہوا جس دوران دفن کرنے کے طریقوں میں تبدیلی آتی رہی؟ یا کچھ لوگوں کو مختلف طریقے سے دفنایا گیا تاکہ دکھایا جائے کہ وہ مختلف ہیں؟

ماہرین کی ٹیم کا خیال ہے کہ اس مقام پر تقریباً 70 قبریں ہیں اور اب تک 18 کو مکمل طور پر کھود لیا گیا ہے

،تصویر کا ذریعہBBC/KEVIN CHURCH

،تصویر کا کیپشن

ماہرین کی ٹیم کا خیال ہے کہ اس مقام پر تقریباً 70 قبریں ہیں اور اب تک 18 کو مکمل طور پر کھود لیا گیا ہے

قبروں کے اردگرد جو چیزیں مل رہی ہیں وہ بھی حیران کن ہیں اور وہ یہ بتاتی ہیں کہ پہلی صدی کے وسط میں زندگی دورِ حاضر سے بہت مختلف تھی۔

برتنوں اور پیالیوں کے ٹکرے ملے ہیں اور جانور کی ہڈی کے ٹکرے بھی ملے ہیں جنھیں ذبح کر کے جلا دیا گیا تھا۔ ایک ایسی چیز بھی ملی ہے جو اس آبادی کے بارے میں ایک دلچسپ معلومات دیتی ہے وہ ہے ایک لکڑی کا چھوٹا ٹکڑا جسے مارکر کے طور پر کھیل میں سکور لکھنے کے لیے استعمال ہوتا تھا۔

ایک لکڑی کا چھوٹا ٹکڑا جسے مارکر کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا

،تصویر کا ذریعہBBC/KEVIN CHURCH

،تصویر کا کیپشن

ایک لکڑی کا چھوٹا ٹکڑا جسے مارکر کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا

یونیورسٹی آف کارڈف میں قرون وسطیٰ کے آثار قدیمہ کے ماہر ڈاکٹر اینڈی سیمین اس ٹیم کے سربراہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں اس دور کے قبرستان کے برعکس یہ جگہ صرف مُردوں کو ٹھکانے لگانے کے لیے نہیں ہوتی تھی۔

’جب ہم قبرستان کے بارے میں سوچتے ہیں تو ہم ایک بند جگہ کے بارے میں سوچتے ہیں جہاں ہم نہیں جاتے لیکن یہ ماضی میں شاید زندگی کے لیے کافی مرکزی ہوتے تھے۔‘

’اور یہ جگہ صرف تدفین کے لیے نہیں ہے، اس جگہ پر لوگ اکٹھے ہوتے تھے، وہ اپنے مردوں کو دفن کر رہے تھے لیکن وہ دیگر سماجی سرگرمیاں بھی یہاں کرتے تھے جیسے کھانا پینا۔‘

ایک قبر میں فرانس سے درآمد کیا گیا شیشے کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا ملا

،تصویر کا ذریعہBBC/KEVIN CHURCH

،تصویر کا کیپشن

ایک قبر میں فرانس سے درآمد کیا گیا شیشے کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا ملا

سب سے زیادہ حیران کرنے والی بات یہ ہے کہ یہاں ملنے والی نوادرات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ یہ لوگ عام انسان نہیں تھے۔

جب ہم اس جگہ پر تھے ایک آواز بلند ہوئی ’مجھے شیشہ ملا ہے‘، یہ ایک قبر میں پڑا ہوا ہے۔

اینڈی سیمین اس کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں ’یہ ایک رم شارڈ ہے، ایک آئس کریم کی شکل کا برتن ہے- بہت عمدہ مواد، بہت عمدہ شیشہ۔۔۔ یہ واقعی ایک اچھی تلاش ہے،‘

ان کے خیال میں یہ فرانس کے بورڈو کے علاقے سے ہے اور یہ واحد درآمد شدہ چیز نہیں ہے جو یہاں سے ملی ہے، ٹیم کو مٹی کے برتنوں کے ٹکڑے بھی ملے ہیں جو ممکنہ طور پر شمالی افریقہ سے ہیں۔

ڈھانچے نمایاں طور پر محفوظ ہیں

،تصویر کا ذریعہBBC/KEVIN CHURCH

،تصویر کا کیپشن

ڈھانچے نمایاں طور پر محفوظ ہیں

ملنے والی ان اشیا کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ یہ لوگ اثرورسوخ والے تھے۔

یونیورسٹی آف کارڈف سے تعلق رکھنے والے ٹیوڈور ڈیوس کہتے ہیں ’جو شواہد ہمیں یہاں ملے ہیں وہ یہ ہیں کہ ان لوگوں کے پاس بہت ہی اعلیٰ معیار کی درآمدی اشیا تک رسائی ہے۔ جسے بہت زیادہ دولت رکھنے والے لوگوں کے ساتھ تجارت کے ذریعے ہی حاصل کیا جا سکتا تھا۔‘

’یہاں کیا ہو رہا ہے اور دفنائے جانے والے یہ لوگ کون ہیں؟‘

ملنے والی نوادرات سے پتا چلتا ہے کہ قبرستان میں دفن افراد اثررسوخ والے تھے

،تصویر کا ذریعہBBC/KEVIN CHURCH

،تصویر کا کیپشن

ملنے والی نوادرات سے پتا چلتا ہے کہ قبرستان میں دفن افراد اثررسوخ والے تھے

یہ جاننے کے لیے کہ یہ قبرستان کب استعمال کیا جاتا تھا مزید تحقیق درکار ہے اور ڈی این اے کے تجزیے سے دفن ہوئے ڈھانچوں کے بارے میں مزید معلومات ملیں گی۔ یہ قبرستان ہر انفرادی شخص اور اس پوری برادری کے بارے میں بھی کچھ معلومات دے گی جس سے اس دور کے اوپر کچھ روشنے آئے گی جس کے بارے میں آج بھی ہم بہت کم جانتے ہیں۔

لیکن اس سوال کے جواب میں زیادہ وقت لگے گا کہ یہاں اصل میں کون رہتا تھا اور کسی کی یہاں وفات ہوئی۔

BBCUrdu.com بشکریہ