حوثی باغی، لبنان اور پراکسیز: غزہ جنگ خطے کو کیسے اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے؟

غزہ

،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES

  • مصنف, خالد کرامت
  • عہدہ, بی بی سی اردو، لندن

اسرائیل کو عنقریب انتقامی کارروائیوں کا سامنا ہو سکتا ہے۔ اُس کی ایک مثال ہم سب پہلے ہی دیکھ چکے ہیں یعنی حوثی باغیوں کا اسرائیل سے وابستہ بحری جہاز کو ہائی جیک کرنا اور اسرائیلی اہداف کو نشانہ بنانا۔

حوثیوں نے اکتوبر میں شروع ہونے والی غزہ جنگ کے بعد حماس کی مدد کے عزم کا اظہار کیا تھا اور وہ مغربی طاقتوں کی جانب سے انتباہ کے باوجود بھرپور طریقے سے ان کی پُشت پناہی کر رہے ہیں۔

دوسری جانب لبنان میں حماس کے نائب صالح العروری کی ڈرون حملے میں ہلاکت ایک اور ایسی پیش رفت ہے جو مشرق وسطی میں حالات کو خطرناک موڑ پر لے آئی ہے۔ کیا خطے کی دوسری ریاستی اور غیر ریاستی طاقتیں بھی اس جنگ میں بھر پور طریقے سے شامل ہونے والی ہیں؟

اسرائیل کے سب سے اہم اتحادی امریکہ نے جنگ کو حزب اللہ تک لے جانے کے خلاف بارہا خبردار کیا ہے کیونکہ اس کے بہت دور رس نتائج ہو سکتے ہیں۔

جب سے اکتوبر میں حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ شروع ہوئی اُس کے بعد سے یہ سوال بار بار اُٹھائے جا رہے ہیں کہ خطے میں بڑی طاقتوں کا کیا مؤقف ہے اور کیا حالات کسی بڑے تصادم کی طرف جا سکتے ہیں؟ یہ سوال حالیہ پیش رفت کے بعد اور بھی اہمیت اختیار کر گئے ہیں۔

جب اسرائیل نے غزہ پر انتقامی حملہ کیا تھا تو ملک کی لیڈرشپ نے حماس کا مکمل طور پر خاتمہ کرنے کا عندیہ دیا تھا۔ اب ملک سے باہر موجود حماس کی لیڈرشپ پر حملہ اس جنگ کو نیا رخ دے رہی ہے۔

حماس کے جن رہنما کو ٹارگٹ کیا گیا ہے وہ حماس، حزب اللہ اور ایران کے درمیان اہم رابطہ کار کا کردار ادا کر رہے تھے۔ اس حملے کے بعد ان خدشات کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے کہ اب یہ جنگ غزہ تک محدود نہیں رہے گی۔

اس واقعے کے بعد اسرائیل کے سابق وزیر اور برطانیہ میں ملک کے سابق سفیر مارک ریگیو نے اپنے بیان میں کہا کہ ’جس نے بھی یہ کیا ہے، یہ لبنان کی ریاست پر حملہ نہیں ہے۔ یہ دہشت گرد تنظیم حزب اللہ پر حملہ نہیں ہے۔۔۔ جس نے بھی کیا ہے یہ حماس پر حملہ ہے۔ یہ واضح ہے۔‘

بیروت

،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES

اسرائیل عام طور پر اس قسم کے ٹارگٹڈ قتل کرنے کے بعد نہ تصدیق کرتا ہے اور نہ ہی تردید۔ مگر دوسری جانب اس حملے کے لیے اسرائیل ہی کو ذمہ دار ٹھرایا جا رہا ہے۔

اس حملے نے حزب اللہ کو جھنجھوڑا ہے اور عام طور پر ایسے واقعات کے بعد ردِ عمل میں بدلہ لینے کی روایت بھی موجود ہے۔ اس پر سامنے آنے والے رد عمل سے حالات کی سنگینی کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔

حماس کے سینئیر رہنما اسماعیل حنیا نے اسے ایک ’شدت پسندانہ حملہ‘ قرار دیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ ’اسرائیل ہمارے ملک اور ہمارے عوام کے خلاف اپنے مظالم کا دائرہ وسیع کررہا ہے۔‘

لبنان کے نگراں وزیر اعظم نجیب مکاتی نے کہا کہ ’یہ اسرائیل کی جانب سے کیا گیا نیا جنگی جرم ہے اور اب اسرائیل لبنان کو بھی اس تنازعہ میں گھسیٹنا چاہتا ہے۔‘

مشرق وسطی کے امور کے ماہر اور مغربی تھنک ٹینکس سے وابستہ رہنے والے تجزیہ کار سلمان شیخ کے مطابق ’العروری کے قتل نے نصراللہ اور حزب اللہ کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔ زیادہ تر لبنانی اسرائیل کے ساتھ جنگ نہیں چاہیں گے مگر متناسب جواب نہ دینے پر اسرائیل کو مزید حوصلہ ملے گا کہ لبنان میں مزید اہداف کو نشانہ بنائے۔‘

حزب اللہ کے مطابق ’یہ حملہ لبنان، اس کے عوام، سکیورٹی اور خود مختاری پر ہے۔‘ حزب اللہ کا مزید یہ بھی کہنا ہے کہ وہ اس کے لیے اسرائیل کو سزا دیں گے۔

امریکہ کے مطابق صالح العروری ایک دہشت گرد تھے اور اگر وہ ہلاک ہو بھی گئے ہیں تو اس پر کسی کو آنسو بہانے کی ضرورت نہیں۔

اس بیان سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسرائیل کے لیے امریکہ کی حمایت برقرار ہے۔ گو کہ خطے میں مسلمان ممالک اب تک اس تنازعے میں کوئی مثبت کردار ادا کرنے سے قاصر رہے ہیں البتہ اس جنگ میں دوسری غیر ریاستی مسلح طاقتیں شامل ہیں اور متحرک بھی ہیں۔

یمن کے حوثی باغی غزہ میں جاری جنگ کی وجہ سے اسرائیل کو نشانہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اپنی سٹریٹیجک پوزیشن کا استعمال کرتے ہوئے حوثی باغیوں نے بحیرہ احمر سے گزرنے والی بڑے بحری جہازوں کو نقصان پہنچایا ہے جن میں اسرائیل سے وابستہ بحری جہاز بھی شامل ہیں۔

یہ مغربی طاقتوں کے لیے ایک بڑا درد سر بن گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ حوثی باغی اسرائیل کے لیے خطرہ کیسے بنے اور یہ اس جنگ کی ایک اہم کڑی کیوں ہے؟

جغرافیائی حساب سے حوثی یمن کی کوسٹ لائن کے ایسے علاقے کو کنٹرول کرتے ہیں جو عالمی تجارت کے لیے بہت اہم ہے۔۔۔ اس تجارت میں اسرائیل کا بھی اہم حصہ ہے اور اسی راستے سے انھوں نے اسرائیل سے وابستہ بحری جہاز گیلیکسی لیڈر کو ہائی جیک کیا اور اُسے الہدیدہ کی بندرگاہ کے پاس لے گئے۔

حوثی

،تصویر کا ذریعہEPA

نومبر سے اب تک حوثی 20 سے زیادہ مرتبہ بحری جہازوں پر حملے کر چکے ہیں۔ ان حملوں کی وجہ سے نہ صرف اسرائیل بلکہ عالمی سطح پر تجارت کو نقصان پہنچ رہا ہے۔

امریکہ اور برطانیہ سمیت 12 بڑے ممالک نے وارننگ جاری کی ہے کہ حوثی باغیوں نے اگر یہ حملے جاری رکھے تو اُن کو نتائج بھگتنا پڑیں گے۔

مغربی اتحادیوں کے بحری جہازوں نے جوابی حملے بھی کیے ہیں۔ یوں یہ طاقتیں براہ راست اس تنازعے میں شامل ہو گئی ہیں۔

یورپی یونین کی پارلیمان کے سابق رکن اور تجزیہ نگار سٹروآن سٹیونسن کہتے ہیں کہ ’ایران کی پشت پناہی سے بحیرہ احمر میں بحری جہازوں پر حملے مغربی دنیا کہ لیے یقینی طور وہ لمحہ ہے جب بات حد سے آگے بڑھ گئی ہے۔‘

مغربی اتحادیوں کی کارروائیاں خطے کی دوسری طاقتوں کو بھی اس تنازعہ میں گھسیٹ سکتی ہیں۔

اب تک اس جنگ میں غیر ریاستی مسلح گروہوں اور پراکسیز کا اہم کردار رہا ہے۔ ایران کی پشت پناہی والے گروہوں پر ان کارروائیوں میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔

اس تناظر میں اگر شام اور عراق کے حالات دیکھیں تو وہاں بھی امریکی فوجی اڈوں پر حملوں کو اسی جنگ کی ایک کڑی کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔

بیروت میں حماس کے رہنما کا قتل اور ایران میں بم دھماکوں میں 200 سے زیادہ افراد کی ہلاکت۔ یہ سب اشارہ دے رہے ہیں کہ اسرائیل حماس جنگ میں خطے کے دیگر اداکار بھی شامل ہو سکتے ہیں یا ہو چکے ہیں۔

اس جنگ میں مختلف ممالک کے ممکنہ کردار پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ اس اس تنازعہ کی وجہ سے یہ ملک بھی لپیٹ میں آ سکتے ہیں۔

ایران

حماس اور دیگر پراکسیوں کی پشت پناہی کرنے پر اسرائیل یا امریکہ ایران پر براہ راست حملہ کر سکتے ہیں۔ یہ بڑی طاقتوں کے ساتھ وسیع تر علاقائی تنازع کو جنم دے سکتا ہے۔

لبنان

حزب اللہ اگر لبنان سے اپنے حملوں میں اضافہ کرتا ہے تو اُس کی بھی اسرائیل کے ساتھ جنگ شروع ہوسکتی ہے۔ یہ لبنان اور خطے کو غیر مستحکم کر سکتا ہے۔

یمن

اگر حوثی باغیوں نے بحیرہ احمر میں اپنے حملے جاری رکھے تو یہ اسرائیل کی سمندری سلامتی اور تجارت کے لیے بہت بڑا خطرہ ثابت ہوسکتا ہے۔ مغربی طاقتوں کا ان حملوں پر رد عمل دیکھ کر اس کا اندازہ ہوجاتا ہے۔

چین اور روس

چین اور روس دونوں خطے میں امریکی اثر و رسوخ کو چیلنج کرنے کے لیے مشرق وسطیٰ کے حالیہ تنازع میں مداخلت کر سکتے ہیں۔ اس مداخلت کی وجہ سے عالمی جنگ جیسے حالات پیدا ہو سکتے ہیں۔

اسرائیل

،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES

اس جنگ میں اب تک زیادہ بڑا کردار پراکسیز یا غیر ریاستی اداروں کا رہا ہے مگر باتھ سپا یونیورسٹی سے منسلک مشرق وسطی کے ماہر ڈاکٹر افتخار ملک کے مطابق بیشتر عرب ممالک اور اسلامی ممالک کی جانب سے سٹیٹس کو، کو چیلنج کرنے یہ بدلنے کی خاطر خواہ کوشش نظر نہیں آئی۔

سوال یہ ہے کہ کیا اس صورت میں یہ مشرق وسطی کے ممالک بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر ایک عالمی جنگ میں بدل سکتی ہے؟

ڈاکٹر افتخار ملک کہتے ہیں کہ ’اس جنگ میں فلسطینیوں کا زیادہ جانی اور مالی نقصان ہورہا ہے لیکن باقی دنیا اور مشرق وسطی کی بے حسی دیکھ کر لگتا ہے کہ اسرائیل سٹیٹس کو، کو جاری رکھے گا اور زیادہ سے زیادہ تباہی کرے گا۔‘

ڈاکٹر افتخار ملک مزید یہ بھی کہتے ہیں کہ ’اس معاملے میں ایران بھی بہت محتاط ہے جبکہ حوثیوں کو بھی امریکی اور برطانوی اپنی فضائی طاقت سے کنٹرول کر لیں گے۔‘

ڈاکٹر افتخار کہتے ہیں کہ ’اسرائیل کو کوئی چیلنج کرنے والا نہیں ہے۔‘

بظاہر خطے میں ممالک براہ راست کسی تصادم کا حصہ نہیں بن رہے یا بننا نہیں چاہتے مگر یہ ریاستیں بلواسطہ لڑائی میں شامل نہ بھی ہوں تب بھی پراکسیز اور غیر ریاستی تنظیمیں اس جنگ میں شامل ہو چکی ہیں جو ان ممالک کو نہ چاہتے ہوئے بھی لڑائی کا حصہ بنا رہی ہیں۔

لبنان کے وزیر خارجہ عبداللہ بو حبیب کہتے ہیں کہ ’حکومت اور لبنان کے عوام جنگ نہیں چاہتے‘ مگر وہ مزید یہ بھی کہتے ہیں کہ ’غزہ میں جو ہوتا ہے اُس سے لبنان میں بھی یقینی طور پر اثر پڑتا ہے۔‘

مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ سے منسلک ماہر جیورج ٹاؤن یونیورسٹی کے پروفیسر فیراس مکصاد کہتے ہیں کہ ’حزب اللہ کی ترجیح تو سٹیٹس کو ہے مگر اسرائیل اسے بدلنا چاہتا ہے چاہے اس سے وسیع جنگ ہی کیوں نہ ہو جائے۔‘

اور فی الحال اسرائیل اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے کارروائیاں جاری رکھ رہا ہے جس کو روکنے میں عرب ممالک اور اسلامی ممالک ناکام ہیں۔ مگر جہاں مسلم دنیا اب تک ناکم رہی ہے وہاں مغربی دنیا میں اس سٹیٹس کو پر سوال اُٹھنے لگے ہیں اور شاید وہ اب اس تنازعہ کو ایک نیا موڑ دیں۔

BBCUrdu.com بشکریہ