’انکل وہ پتھر چمک رہا ہے‘: ایک بڑا ہیرا دریافت کرکے ملک کی قسمت بدلنے والے نوجوانوں پر کیا بیتی

کوہ نور

،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, میری گڈ ہارٹ
  • عہدہ, بی بی سی نیوز

یہ سنہ 2017 کی سب سے اچھی خبر تھی۔ سیرا لیون کے ’پیس ڈائمنڈ‘ کی دریافت نے دنیا بھر کے میڈیا نے خوب کوریج دی۔

ایک افریقی ملک میں جہاں ہیروں کے بجائے خونریزی اور غربت زوروں پر تھی، اس قیمتی پتھر سے حاصل ہونے والی آمدنی مقامی افراد کی زندگیوں کو بدلنے کے لیے استعمال ہونے والی تھی۔

لیکن اس کارنامے کے پیچھے وہ کان کن کارفرما تھے، جنھوں نے اس پتھر کو تلاش کرنے کے لیے بہت محنت کی تھی۔

کمبا جانبول اور اینڈریو سیفی ان پانچوں میں سب سے کمسن نوجوان تھے، جنھوں نے پورے ملک کی قسمت بدل کر رکھی دی۔

جب کمبا جانبول کی نظر خاک میں ڈھکے اس بڑے اور چمکدار پتھر پر پڑی تو ایسا لگا کہ ان کا خواب پورا ہو گیا ہے۔ مگر چھ برس بعد ان کی یہ معجزاتی دریافت مایوسی میں بدل گئی۔

کوہ نور

زندگی کی منصوبہ بندی

اینڈریو سیفی بہت ذہین طالب علم تھے لیکن غربت کی وجہ سے انھیں سکول چھوڑنا پڑا۔ کمبا جانبول کا خاندان سنہ 1991 اور سنہ 2002 کے درمیان خانہ جنگی کی وجہ سے تباہ حال ہو چکا تھا۔ ایک مقامی پادری نے کھدائی کے لیے پانچ افراد کو سپانسر کیا، جس میں یہ دونوں بھی شامل ہوئے۔

شرط یہ تھی کہ انھیں مزدوری نہیں دی جائے گی اور اس کے بدلے میں انھیں اور ان کے اہل خانہ کو کھدائی کا سامان اور خوراک دی جائے گی۔ اگر ہیرا دریافت ہو جائے تو ’سپانسر‘ کو سب سے زیادہ حصہ ملے گا۔

سخت کام کے اوقات کے باوجود دونوں نوجوان اس کام پر راضی ہو گئے۔۔۔ صبح سویرے سے ناشتے تک کھجور کے کھیتوں میں کام کرتے اور پھر سارا دن کھدائی کرتے۔

انھیں یہ امید تھی کہ وہ دوبارہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے پیسے جمع کر لیں گے۔ لیکن حقیقت یہ تھی کہ یہ کام بہت خطرناک تھا۔

اینڈریو سیفی کے مطابق ’میں نے کمبا جانبول کو بتایا کہ میرا خواب ٹوٹ گیا ہے۔‘

کمبا جانبول یاد کرتے ہیں کہ کس طرح اس کام کے دوران انھیں شدید بارشوں اور شدید گرمی کو برداشت کرنا پڑتا تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ہم ایک دوسرے کو ہمت دینے کے لیے تسلی دیتے تھے۔ ہم مذاق کیا کرتے تھے۔ ہمارے پاس بلوٹوتھ ڈیوائس تھی جس پر ہم گانے سنتے تھے۔‘

یہ لوگ خواب دیکھتے تھے کہ اگر وہ اچانک امیر ہو گئے تو کیا کریں گے۔ کمبا جانبول دو منزلہ مکان بنانا اور ٹویوٹا ایف جے کروزر خریدنا چاہتے تھے جبکہ اینڈریو سیفی اپنی تعلیم مکمل کرنے کے خـواہاں تھے۔

کوہ نور ہیرا

،تصویر کا ذریعہGetty Images

سب سے بڑا ہیرا

بالآخر وہ منحوس دن آ ہی گیا۔ اس دن کان روانہ ہونے سے پہلے انھوں نے اُبلے ہوئے کیلے کا ناشتہ کیا اور اپنی کامیابی کے لیے خصوصی دعا کی۔

کان کنوں نے معمول کے مطابق اس دن ہیروں کی تلاش میں کام شروع کیا تھا۔

13 مارچ 2017 جمعے کا دن تھا۔ ان کا منصوبے میں کھدائی، زمین کو توڑنے، کنکریاں الگ کرنے اور بارش کے پانی کو کان میں جانے سے روکنا شامل تھا۔

پھر کمبا جانبول کی نظر ایک چمکتے ہوئے پتھر پر پڑی۔

انھوں نے کہا کہ ’میں نے بہتے پانی میں یہ پتھر دیکھا، جو نیچے کی طرف جا رہا تھا، میں نے اس سے پہلے کوئی ہیرا نہیں دیکھا، یہ صرف میری دانشمندی تھی۔‘

ان کے مطابق ’میں نے ایک منٹ سے زیادہ اس پتھر پر نظریں جمائے رکھیں، پھر میں نے اپنے چچا سے کہا ’انکل وہ پتھر چمک رہا ہے، یہ کیسا پتھر ہے؟‘

Koh e Noor

،تصویر کا ذریعہVideo grape

ہیرا 65 لاکھ ڈالر میں فروخت ہوا

کمبا جانبول نے نیچے پہنچ کر پانی سے پتھر اٹھایا۔

’یہ بہت ٹھنڈا تھا۔ جیسے ہی میں نے اسے دیکھا، اس نے یہ کہہ کر میرے ہاتھ سے چھین لیا، ‘یہ ہیرا ہے!‘

یہ ہیرا 709 قیراط کا تھا جو کہ دنیا کا 14 واں بڑا ہیرا تھا۔

کان کنوں نے پادری ایمانوئل موموہ کو اطلاع دی اور انھوں نے اسے بلیک مارکیٹ میں فروخت کرنے کے بجائے حکومت کے حوالے کر کے تاریخ رقم کر دی۔

یہ ہیرا نیلامی میں 65 لاکھ ڈالر میں فروخت ہوا۔

کمبا جانبول اور اینڈریو سیفی کی طرح، ہزاروں ’سیرا لیونین‘ کی غیر سرکاری کانوں میں کام کرتے ہیں۔

اگر وہ خوش قسمت ہیں تو انھیں ہیرے کا ایک چھوٹا ٹکڑا مل سکتا ہے لیکن اس جیسا مکمل ہیرا ملنا ایک خواب ہے، جس کی وجہ سے بہت سارے لوگ اس ٹوہ میں لگے ہوئے ہیں۔

ایک معاہدہ طے پایا کہ ہر کان کن کو حصہ ملے گا اور منافع کا ایک حصہ مقامی ترقی کے لیے حکومت کو جائے گا۔

ابتدائی طور پر ہر کان کن کو 80,000 ڈالر ملے۔ یہ اس سے کئی گنا زیادہ تھا، جس کا اینڈریو سیفی اور کمبا جانبول نے سوچ رکھا تھا، جب انھوں نے اس کام پر ہاتھ ڈالا تھا۔ لیکن اتنا چھوٹا حصہ ملنے پر انھیں مایوسی بھی ہوئی۔

جھیل

،تصویر کا ذریعہGetty Images

تمام پیسے خرچ ہو چکے ہیں

کمبا جانبول کہتے ہیں کہ ’جب مجھے اپنا حصہ ملا تو میں نے اسے چھوئے بغیر ایک ہفتے تک اپنے پاس رکھا۔ اس کے بعد میں گھر خریدنے فری ٹاؤن چلا گیا۔‘

اینڈریو سیفی اپنی پڑھائی مکمل کرنے کے لیے کینیڈا جانا چاہتے تھے اور جان بل بھی ان کے ساتھ وہاں جانے کے خواہشمند تھے۔

انھوں نے اپنے سفر، یونیورسٹی کی فیس اور رہائش کے لیے ایک ایجنٹ کو 15,000 ڈالر ادا کیے۔

انھیں گھانا لے جایا گیا، جہاں وہ چھ ماہ تک رہے اور ان کی بہت سی رقم ضائع ہو گئی۔

لیکن یہ منصوبہ اس وقت ناکام ہو گیا جب ان کی ویزا درخواست مسترد کر دی گئی۔ جان بل سیرا لیون واپس آ گئے۔ اس کے حصے کی بڑی رقم خرچ ہو چکی تھی۔ جبکہ اینڈریو سیفی نے اپنے نئے سفر کا آغاز کیا۔

وہ ایک تیسرے ملک میں چلے گئے، جس کا نام ان کی سکیورٹی کی وجہ سے ظاہر نہیں کیا جا رہا ہے۔ وہاں انھیں بتایا گیا کہ وہ دن میں ڈرائیور کے طور پر کام کر سکتے ہیں اور شام کو تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔ لیکن جب اینڈریو سیفی وہاں پہنچے تو حقیقت بالکل مختلف تھی۔

وہ کہتے ہیں کہ ’مجھے اصطبل میں گھوڑوں کی دیکھ بھال کرنی تھی اور وہیں کھانا اور سونا پڑتا تھا۔ باقی کارکنوں کو رہائش دی گئی لیکن مجھے وہیں ہسپتال میں سونے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔‘

اینڈریو سیفی کو اس قسم کی زندگی کی امید نہیں تھی۔ اور گھر سے دور ان کی حالت غیر ہو گئی تھی۔

انھوں نے سیرا لیون میں جو گھر خریدا تھا اس کے علاوہ ان کے حصے میں ہیرے کی فروخت سے جو پیسہ آیا وہ مکمل خرچ ہو چکا تھا۔ اب وہ کہتے ہیں کہ وہ گھر جانا چاہتے ہیں۔

ہیرا

اس دریافت پر ہمیں کوئی شناخت نہیں ملی

ان لوگوں کے دلوں میں سب سے بڑا درد یہ ہے کہ انھیں اپنی دریافت کا صحیح ’کریڈٹ‘ کبھی نہیں ملا۔

میڈیا رپورٹس بنیادی طور پر اس پادری پر مرکوز تھیں جنھوں نے ان لوگوں کو کان کنی کے لیے ملازم رکھا تھا۔ درحقیقت کان کنوں کے بارے میں بہت کم ذکر کیا گیا تھا۔ اینڈریو سیفی کو بھی لگتا ہے کہ جیسے ان کا نام لینے والا ہی کوئی نہیں ہے۔

جان بل کو لگتا ہے کہ شاید وہ اس رقم کو مختلف طریقے سے خرچ کر سکتے تھے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’جب میرے پاس پیسہ تھا، میں بہت چھوٹا تھا۔ پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں، مجھے اچھا نہیں لگتا۔ اس وقت میں صرف دکھاوا کر رہا تھا، کپڑے اور دوسری چیزیں خرید رہا تھا۔ آپ جانتے ہیں کہ نوجوان یہی کرتے ہیں۔‘

ان کے مطابق ’اگر میں نے زیادہ پیسہ کمانے کے لیے بیرون ملک جانے کی خواہش نہ رکھی ہوتی تو میں اس ضائع شدہ رقم سے بہت کچھ کر لیتا۔‘

یہ وہ زندگی نہیں تھی جس کی انھوں نے توقع کی تھی، لیکن کمبا جانبول فی الحال فری ٹاؤن میں اچھی زندگی گزار رہے ہیں اور ایلومینیم کی کھڑکیاں بناتے ہیں۔ اینڈریو سیفی کی بیرون ملک مقیم ہونے کی خواہش پوری نہ ہو سکی۔

کمبا جانبول کہتے ہیں کہ ’جب میں پیدا ہوا تو میرے والدین کے پاس گھر نہیں تھا۔ میرے بچے فری ٹاؤن میں اپنے والد کے گھر پروان چڑھ رہے ہیں۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ میرے ساتھ جو ہوا میرے بچوں کو برداشت نہیں کرنا پڑے گا۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ