’سیاست، بغاوت اور تاریخی مقدمہ‘: کیا ڈونلڈ ٹرمپ صدارتی انتخابات میں حصہ لے سکیں گے؟

ڈانلڈ ٹرمپ

،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES

  • مصنف, ٹام جیوگہیگن
  • عہدہ, بی بی سی نیوز

سال 2024 اس وقت دنیا کے بیشتر ملکوں ملکوں میں انتخابات کا سال ہے۔ بنگلہ دیش، انڈیا، پاکستان کے علاوہ برطانیہ اورامریکہ میں بھی عوام اس سال فیصلہ کریں گے کہ انھیں ملکی قیادت میں تبدیلی لانی ہے یا موجودہ حکومت کی پالیسیوں کو ہی اپنی حمایت دے کر ایک اور موقع دینا ہے۔ لیکن لگ بھگ ہر ملک میں سیاسی حریف ایک دوسرے پر نہ صرف مقدمات قائم کر رہے ہیں بلکہ ایک دوسرے پر ملک میں انتخابات کو یکطرفہ بنانے کے الزمات بھی عائد کیے جا رہے ہیں۔ دنیا میں سپر پاور کہلانے والا امریکہ بھی اس صورتحال سے الگ نہیں جہاں موجودہ صدر جو بائیڈن کے حریف ڈونلڈ ٹرمپ کا فی الحال الیکشن میں حصہ لینا بھی خطرے میں ہے۔

امریکہ کی سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ وہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے صدارتی انتخابات میں لڑنے کی اہلیت کا فیصلہ کرنے کے تاریخی مقدمے کی سماعت کرے گی۔

عدالت نے سابق صدر ٹرمپ کی کولوراڈو سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل سننے پر اتفاق کیا ہے۔ اس فیصلے نے 2024 کے انتخابات کے دوران اس ریاست میں ان کا نام بیلٹ سے ہٹانے کا فیصلہ دیا تھا۔

کیس کی سماعت فروری میں ہوگی اور اس کا اطلاق قومی سطح پر ہو گا۔

مختلف ریاستوں میں ڈونلڈ ٹرمپ کو نااہل کرنے کے مقدمات دائر ہیں جن میں یہ دلیل دی جا رہی ہے کہ میں تین سال پہلے کیپیٹل ہل پر ہونے والے فساد اور بغاوت میں ملوث تھے۔

قانونی چیلنجز اس بات پر منحصر ہیں کہ آیا امریکہ میں خانہ جنگی کے دور کی آئینی ترمیم ڈونلڈ ٹرمپ کو بطور امیدوار کھڑے ہونے کے لیے نااہل قرار دیتی ہے یا نہیں۔

اس سے پہلے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو امریکہ کی دو ریاستوں کولوراڈو اور میئن میں بطور صدارتی امیدوار انتخابات میں لڑنے سے نااہل قرار دے دیا تھا۔

تو اس قانونی عمل سے آنے والے الیکشن پر کیا فرق پڑے گا۔

یہ واضح ہے کہ نومبر 2024 میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ امریکی صدر جو بائیڈن کے خلاف رپبلکن پارٹی کے ممکنہ حریف ہوں گے۔

ان کی کیمپین نے دونوں فیصلوں کو ’ظالمانہ‘ اور ’انتخابات کی چوری کی کوشش‘ قرار دیا ہے۔

ریاست میئن کے الیکشن کے اعلیٰ عہدیدار نے فیصلہ کیا کہ کیپیٹل ہل میں دنگے فساد کے واقعے میں سابق صدر کے کردار کی وجہ سے وہ الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتے۔ اس سے کچھ دن قبل ہی کولوراڈو کی سب سے بڑی عدالت نے اس سے ملتا جلتا ہی فیصلہ دیا تھا۔

دونوں فیصلے اس وقت رکے ہوئے ہیں کیونکہ ان پر اپیلیں ہوئی ہوئی ہیں تو ابھی یہ بات واضح بھی نہیں ہے کہ جب ان دونوں ریاستوں میں عوام اپنے رپبلکن امیداوار کا انتخاب کرنے کو نکلیں گی کیا اس وقت سابق صدر کا نام بیلٹ پر ہو گا یا نہیں۔

ڈانلڈ ٹرمپ

،تصویر کا ذریعہReuters

میئن میں ایسا فیصلہ کیوں ہوا؟

کولوراڈو کے برعکس جہاں یہ فیصلہ ریاست کی سپریم کورٹ نے کیا تھا ریاست میئن میں یہ فیصلہ آئین میں موجود شق کی وجہ سے انتخابات کروانے والے ریاست کے سب سے اعلیٰ افسر نے کیا۔

ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والی میئن کی سیکرٹری آف سٹیٹ شینا بیلو نے 34 صفہات پر مشتمل فیصلہ دیا جس میں انھوں نے کہا کہ صدر ٹرمپ کا نام رپبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار کے انتخابات سے 14 ترمیم کے سیکشن 3 کے مطابق ہٹنا چاہیے۔

یہ شق ایسے لوگوں کو وفاقی عہدوں سے نااہل کر دیتی ہے جنھوں نے ’فساد یا بغاوت‘ میں حصہ لیا ہو۔

ان کے فیصلے میں کہا گیا تھا کہ صدر ٹرم کئی مہینوں سے اپنے حامیوں کو الیکشن فراڈ کے بیانیے سے بھڑکا رہے تھے اور اس کا اختتام چھ جنوری 2021 کو کیپیٹل ہل پر حملے پر ہوا۔

شینا بیلو ایک منتخب نمائندہ ہیں اور ان پر ڈانلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم نے الزام لگایا گیا کہ انھوں نے یہ فیصلہ سیاسی بنیادوں پر کیا۔ انھوں نے اس الزام کی تردید کی اور کہا ہے یہ ’قانون پر مبنی اور مکمل‘ تھا۔

اس فیصلے کے بعد بی بی سی نیوز سے بات کرتے ہوئے شینا بیلو نے کہا تھا کہ اپنی ریاست میں انتخابی قوانین کی پاسداری ان کی ذمہ داری ہے اور وہ امید کرتی ہیں کہ ’سپریم کورٹ اس معاملے کو پورے ملک کے لیے طے کر دے گی۔‘

کولوراڈو میں کیا ہوا؟

19 دسمبر کو کولوراڈو کی سپریم کورٹ نے کہا کہ انھیں ’صدر ٹرمپ کے بغاوت میں ملوث ہونے کے واضح اور قائل ثبوت‘ ملے ہیں۔

یہ پہلی دفعہ ہے کہ سیکشن تین کا استعمال کر کے صدارتی امیدوار کو نااہل کیا جا رہا ہے۔

213 صفہات پر مشتمل فیصلے میں کہا گیا ہے کہ چھ جنوری اور اس سے پہلے ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے لیے گیے اقدامات بغاوت کے زمرے میں آتے ہیں۔

کولوراڈو میں سابق صدر کے وکیلا نے عدالت کو کہا کہ انھیں نااہل نہیں کرنا چاہیے کیونکہ کیپیٹل ہل میں جو کچھ ہوا وہ اس کے ذمہ دار نہیں ہیں۔

انھوں نے یہ بھی کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ پر بغاوت پر اکسانے کا الزام نہیں لگایا گیا۔

کیا ڈونلڈ ٹرمپ ان دونوں فیصلوں کے باوجود 2024 کے انتخابات میں حصہ لے سکتے ہیں؟

جی۔ یہ دونوں فیصلے صرف کولوراڈو اور میئن میں ہی عمل درآمد ہو سکتے ہیں۔

میئن کے فیصلے کے بعد کیلیفورنیا کے سیکرٹری آف سٹیٹ نے رپبلیکن امیدواروں کی دوڑ سے ڈانلڈ ٹرمپ کو نکالنے کے مطالبے کو یہ کہہ کر رد کر دیا کہ یہ عدالتوں کا فیصلہ ہے جبکہ مشی گن کی اعلیٰ عدالت نے ٹرمپ کو نااہل قرار دینے کے مقدمے کی سماعت کرنے سے انکار کر دیا۔

سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو رپبلکن پارٹی کے باقی امیدواروں سے برتری حاصل ہے لہٰذا وہ ابھی بھی کولوراڈو یا میئن کے انتخابات میں لڑے بغیر پارٹی کے الیکشن جیت کر صدارتی امیدوار بن سکتے ہیں۔

امریکہ میں دو مرکزی سیاسی جماعتیں اپنی ہی جماعت کے اندر ریاستوں میں انتخابات کروا کر ایک صدارتی امیدوار چنتی ہیں جس کی ابتدا جنوری میں ہو جاتی ہے۔

ان دونوں ریاستوں میں گذشتہ عام انتخابات کے دوران جو بائیڈن نے ڈونلڈ ٹرمپ کو بھاری اکثریت سے شکست دی تھی اور اس بات کا امکان نہیں ہے کہ ڈانلڈ ٹرمپ کو ایک بار پھر وائٹ ہاؤس میں داخل ہونے کے لیے ان ریاستوں کو جیتنے کی ضرورت ہوگی۔

اس سے آگے کیا ہو گا؟

امریکہ کی سپریم کورٹ نے تصدیق کر دی ہے کہ وہ اس معاملے میں داخل ہو کر ایسا فیصلہ دیں گے جو پورے ملک میں لاگو ہو گا۔

یہ اس وجہ سے ہوا کیونکہ کولوراڈو کی رپبلکن پارٹی اور ڈانلڈ ٹرمپ نے خود ریاست کی سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف ملک کی سپریم کورٹ سے رجو کیا۔

عدالت عظمیٰ نے 5 جنوری کو یہ فیصلہ کیا کہ وہ کیس کی جلدی سماعت کرے گی اور فروری میں کسی وقت دلائل سنے گی۔

سابق صدر ٹرمپ کا نام کولوراڈو میں بیلٹ پیپر پر تب تک رہے گا جب تک کہ ملک کی سپریم کورٹ اس معاملے پر کوئی فیصلہ نہیں دے دیتی۔

میئن میں ہونے والے فیصلے کے خلاف بھی ریاست کی عدلیہ میں اپیل کی گئی ہے۔ امریکی سپریم کورٹ کا کوئی بھی فیصلہ اس کی جگہ لے لے گا اور قومی سطح پر لاگو ہوگا۔

عدالت کے ججوں کو قانونی دلائل سننے ہوں گے لیکن اس میں وقت لگے گا، ان پر یہ دباؤ بھی ہو گا کہ وہ ان ریاستوں میں پارٹی کے امیدواروں کے درمیان ہونے والے انتخابات سے پہلے فیصلہ دیں۔ میئن اور کولوراڈو میں انتخابات 5 مارچ کو ہونے ہیں، اسے ’سوپر ٹیوز ڈے‘ بھی کہا جاتا ہے اس دن زیادہ تر امریکی ریاستوں میں صدارتی امیدوار چننے کے لیے انتخابات ہوتے ہیں۔

جب ڈونلڈ ٹرمپ صدر تھے تو انھوں نے سپریم کورٹ میں تین کنزرویٹو ججوں کی تقرری کی تھی جس کی وجہ سے عدالت میں قدامت پسند ججوں کی اکثریت ہو گئی ہے۔

اس صورتحال کے متعلق ہر چیز پہلی دفعہ ہو رہی ہے اور ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی لہٰذا اس کی وجہ سے یہ سوال بار بار سامنے آتا ہے کہ اس سے عام انتخابات پر کیا اثر پڑ سکتا ہے۔

جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں انسٹی ٹیوٹ فار کانسٹی ٹیوشنل سٹڈیز کی ڈائریکٹر میوا مارکس کا کہنا ہے کہ جن وجہ سے کولوراڈو کی عدالت نے جماعت کے اندر ہونے والے انتخابات سے ڈانلڈ ٹرمپ کو نااہل کیا ہے انھی وجوہات کی بنا پر وہ عام انتخابات سے بھی نااہل ہو سکتے ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ جب تک عدالتوں میں اس معاملے پر پیش رفت نہیں ہوتی یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ نومبر میں ہونے والے عام انتخابات میں کیا ہوا۔

قانونی ماہرین کی کیا رائے ہے؟

یہاں دو مرکزی قانونی مسائل ہیں جن پر غور کرنا ہو گا۔

کیا کیپیٹل ہل سے پہلے کے ڈونلڈ ٹرمپ کے اقدامات بغاوت کے مترادف ہیں۔

اور دوسرا یہ کہ سیکشن تین جن وفاقی عہدوں پر فائز ہونے سے روکتا ہے ان میں صدر کا عہدہ بھی شامل ہے یا نہیں۔

کولوراڈو کی نچلی عدالت نے پہلے ہی فیصلہ دے دیا ہے کہ سابق صدر بغاوت میں ملوث ہوئے لیکن اس قانون کا اطلاق صدر کے منصب پر نہیں ہوتا۔

لیکن کولوراڈو کی سپریم کورٹ نے اس بات کے ساتھ اتفاق نہیں کیا اور قانونی ماہرین اس پر بٹے ہوئے ہیں کہ کیا اس قانون کا اطلاق ڈونلڈ ٹرمپ پر ہونا چاہیے یا نہیں۔

BBCUrdu.com بشکریہ