وہ برطانوی افسر جس نے بیواؤں کو شوہر کے ساتھ زندہ جلانے کی رسم ستی کو غیر قانونی قرار دیا
- مصنف, سوتک بسواس
- عہدہ, نامہ نگار بی بی سی انڈیا
انڈیا پر برطانیہ کی حکمرانی کے دور کے پہلے گورنر جنرل لارڈ ولیم بینٹنک نے دسمبر 1829 میں ہندوؤں کی قدیم مذہبی رسم ستی پر پابندی عائد کی تھی۔
لارڈ بینٹک نے 49 اعلیٰ فوجی افسران اورپانچ ججوں سے اس معاملے پر رائے طلب کی اور اپنے اس یقین کا اظہار کیا کہ ’برطانوی حکمرانی کے دوران اب ایک گندے داغ کو دھونے کا وقت آ گیا ہے۔‘
ان کے پیش کیے گئے ضابطے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ’ستی انسانی فطرت کے جذبات سے بغاوت ہے۔‘
ستی کے عمل کوغیر قانونی اور ظالمانہ قرار دیے جانے کے لارڈ بیٹنک کے اس بیان نے بہت سے ہندوؤں کو چونکا کر رکھ دیا۔
واضح رہے کہ ستی کی رسم میں قدیم ہندو رواج کے مطابق شوہر کے مر جانے پر اس کی بیوہ اپنے شوہر کی آخری رسومات کے دوران چتا پر خود کو جلا دیتی ہے۔
لارڈ بینٹک کے ضابطے میں کہا گیا تھا کہ ’بیوہ کو جلانے میں مدد گار اور اس کی حوصلہ افزائی میں مرتکب افراد کو مجرم قرار دیا جائے گا، چاہے یہ عمل رضاکارانہ ہو یا جبر کے ساتھ کیا گیا ہو، ایسے افراد اقدام قتل کے مرتکب قرار دیے جائیں گے۔‘
1829 میں لارڈ ولیم بینٹک نے ستی کی رسم کوغیر قانونی قرار دیا تاہم بعد میں اس قانون کو کمزور کر دیا گیا
انھوں نے عدالتوں کو یہ اختیار دیا کہ ’طاقت کا استعمال کر کے ایک بیوہ خاتون کو زندہ جلانے میں مدد کے مرتکب افراد کو سزائے موت دی جا سکے گی جو اس عمل کے لیے خاتون کو کسی نشہ آور محلول کے زیر اثر بھی لے آتے ہیں جس سے اس خاتون کی اپنی آزاد مرضی کا استعمال بھی ظاہر نہیں ہوتا۔‘
لارڈ بینٹنک کے پیش کیے گئے ضابطوں پر جب قانون سازی عمل میں آ گئی تو راجہ رام موہن رائے کی قیادت میں 300 سے زائد نامور ہندوؤں نے ان کا شکریہ ادا کیا کہ ’اس قانون نے ہمیں ہمیشہ کے لیے اس سنگین بدنامی سے نجات دلا دی، جس میں ہمارا کردار عورتوں کے جان بوجھ کر قتل کیے کے طور پر جڑا ہوا تھا۔‘
تاہم قدامت پسند ہندوؤں نے لارڈ بینٹک کے اس اقدام کو چیلینج کرتے ہوئے کہا کہ ستی کی رسم مذہب کے تحت لازمی یا فرض نہیں‘ تاہم لارڈ بیٹنک اپنے مؤقف سے نہیں ہٹے۔
درخواست گزار برطانوی کالونیز کے تحت آخری حربے کے طور پر پریوی کونسل کے پاس اپنی پٹیشن لے گئے تاہم 1832 میں کونسل نے اس ضابطے کو برقرار رکھتے ہوئے کہا کہ ستی معاشرے کے خلاف برملا اور واضح جرم ہے۔‘
انڈیا میں ذات پات کے نظام سے متعلق قانونی تاریخ کا جائزہ لینے والی کتاب کاسٹ پرائیڈ کے مصنف منوج میتا نے لکھا ہے کہ ’ 1829 کے ضابطے کی یہ غیر معمولی جنگ شاید نوآبادیاتی دور کے 190 سال میں واحد مثال تھی جہاں سماجی قانون سازی کے دوران مذہنی روایات کے تناظر میں کوئی رعایت نہیں دی گئی۔‘
منوج میتا کے مطابق ’ گاندھی کے برطانوی سلطنت کے خلاف اخلاقی دباؤ ڈالنے سے بہت پہلے ہی لارڈ بینٹنک نے ستی کی رسم میں موجود ذات پات اور صنفی تعصبات کے خلاف بھی یہی طاقت استعمال کی تھی۔ نوآبادیات کے نظام کو زنگ آلود بنانے والی مقامی رسم کو جواز بنا کر انھوں نے ایک اخلاقی نکتہ اٹھانے کی جرات کی تھی۔‘
تاہم 1837 میں لارڈ بینٹنک کے قانون کو ایک اور برطانوی تھامس میکالے کی جانب سے کمزور کرنے کی کوشش کی گئی۔
انڈین پینل کوڈ کے مصنف تھامس میکالے کے مطالعے میں کہا گیا کہ ’اگر کوئی اپنے دعویٰ میں یہ ثبوت پیش کرے کہ اس نے بیوہ کے کہنے پر اسے چتا کے ساتھ جلایا تو اسے بری کیا جا سکتا ہے۔‘
انھوں نے اپنے ایک مسودہ نوٹ میں یہ بھی کہا کہ ’خود کو جلانے والی خواتین مذہبی فرض اور بعض اوقات غیرت کے مضبوط احساس سے جڑی ہوتی ہیں۔‘
منوج میتا کے مطابق ’ستی کی رسم کے بارے میں میکالے کی ہمدردانہ سوچ نے دہائیوں بعد برطانوی راج کو متاثر کیا۔‘
وہ لکھتے ہیں ’یہ مسودہ 1857 کی بغاوت کے بعد سپرد خاک کر دیا گیا جب مقامی ہندو اور مسلمان سپاہیوں نے برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف اس خدشے پر بغاوت کی کہ بندوق کے کارتوسوں پر جانوروں کی چربی چڑھائی گئی تھی جو ان کے مذاہب کی طرف سے حرام ہے۔‘
’قانون کی کتاب کے ان کمزور ضوابط نے اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کو خوش کرنے کی حکمت عملی میں اہم کردار ادا کیا جس میں نوآبادیاتی دور میں حکمرانوں کے خلاف کی جانے والی بغاوت میں اہم کردار ادا کیا تھا۔‘
1862 کے ضابطے میں کہا گیا تھا کہ ستی کرنے والوں کو مجرمانہ قتل کا مرتکب ٹہراتے ہوئے سزا دی جائے گی اور دوسرا یہ کہ سنگین معاملات میں سزائے موت دی جائے گی۔
اس کا مطلب یہ بھی تھا کہ اب اس میں ملزم کو یہ دعویٰ کرنے کی اجازت دے دی گئی کہ متاثرہ خاتون نے اپنے شوہر کی آخری رسومات میں اپنی زندگی ختم کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی، اس لیے یہ قتل کے بجائے خودکشی کا معاملہ تھا۔
منوج مہتا لکھتے ہیں کہ ’ستی کی رسم کے اصول کو کمزور کرنا ان تمام سماجی قانون سازی کے خلاف شکایات کا رد عمل تھا، جس میں ستی کو غیر قانونی قرار دینا، ہندوؤں کی خاندانی جائیداد کے وارث ہونے کا اختیار سے متعلق 1850 کا قانون اور تمام بیواؤں کی دوبارہ شادی کی اجازت دینے والا 1856 کا قانون شامل تھا۔
لیکن اس قانون کو کمزور کرنے کا فوری محرک اونچی ذات کے ہندو سپاہیوں کا وہ غم و غصہ بھی بنا، جس میں کارتوسوں میں گائے کی چربی کے استعمال کی اطلاعات تھیں۔
’اگرچہ 1829 کے بعد سے ستی کرنے کا رواج نسبتا کم پایا گیا تاہم انڈیا کے بعض حصوں خاص طور پر اونچی ذات کے ہندووں میں یہ رسم فروغ پاتی رہی۔‘
راجستھان میں ایک قلعے کی دیواروں پر ستی کرنے والی خواتین کی یاد میں ہاتھ بنائے گئے ہیں
موتی لال نہرو کی 1913 میں ستی میں ملوث افراد کے دفاع میں عدالت میں پیشی
انڈین نیشنل کانگریس میں شمولیت اختیار کر کے برطانوی راج سے آزادی کی مہم میں کلیدی کردار ادا کرنے والے انڈین وکیل اور سیاستدان موتی لال نہروکی 1913 میں عدالت میں پیشی کو بھی ایک دلچسپ موڑ کے طور پر دیکھا جاتا ہے جب وہ اتر پردیش میں ستی کرنے سے متعلق ایک مقدمے میں چھ اعلیٰ ذات کے مردوں کا دفاع کرتے ہوئے پیش ہوئے۔
اس مقدمے کا سامنا کرنے والے مردوں کا بیان تھا کہ ’مرنے والے کی چتا مذہب پسند بیوہ کے اس اقدام سے خود ہی معجزانہ طور پر بھڑک اٹھی۔‘
ججوں نے اس معجزاتی عمل کے نظریہ کو مسترد کرتے ہوئے اس پر پردہ ڈالنے کی مذمت کی اور مردوں کو اس خاتون کی خودکشی پر اکسانے کا قصوروار ٹھہرایا۔
اس کیس میں ملوث دو ملزمان کو چار سال قید کی سزا سنائی گئی۔
یہ بھی پڑھیے:
موتی لال نہرو نے 1913 میں ستی کرنے سے متعلق ایک مقدمے میں چھ اعلیٰ ذات کے مردوں کا دفاع کیا
راجیو گاندھی کے دور حکومت میں ستی کی حوصلہ افزائی کرنے والوں کے لیے سزائے موت متعارف کروائی گئی
ان واقعات کے 70 سال بعد بیواؤں کو زندہ جلائے جانے کی رسم میں ایک آخری موڑ آیا۔
1987 میں موتی لال نہرو کے پڑ پوتے راجیو گاندھی کی زیرقیادت حکومت نے ایک قانون نافذ کیا جس میں ستی کے عمل میں شامل افراد کو پہلی بار باقاعدہ مجرم قرار دیا گیا اور کہا گیا کہ اس عمل کو جائز قرار دینے والے، ستی کی حمایت، جواز فراہم کرنے والے یا پروپیگنڈہ کرنے والے تمام افراد کو سات سال کی سزا ہو سکتی ہے۔
راجیو گاندھی کی حکومت میں بنائے جانے والے اس قانون میں ستی کے عمل کو اقدام قتل گردانا گیا اور اس کی حوصلہ افزائی کرنے والوں کے لیے سزائے موت متعارف کروائی گئی۔
یہ اقدام انڈیا کی شمالی ریاست راجستھان کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں ستی کا واقعہ رپورٹ ہونے کے شدید عوامی رد عمل کے بعد سامنے آئے تھے۔
اس واقعہ میں راجھستان میں ایک کم عمر دلہن روپ کنور کو اس کے شوہر کے مرنے کے بعد اس کے ساتھ ستی کر دیا گیا تھا اور اس پر عوام میں شدید غم و غصہ پایا جا رہا تھا۔
منوج میتا لکھتے ہیں کہ ’1947 میں آزادی کے بعد باضابطہ طور پر درج کیا جانے والا ستی کا یہ 41واں مقدمہ تھا۔
منوج میتا کے مطابق راجیو گاندھی کے قانون کی تمہید لارڈ بینٹنک کے ضابطے سے ہی مستعار لی گئی۔
Comments are closed.