کیا 80 سالہ جو بائیڈن کی عمر ان کے دوبارہ امریکی صدر بننے کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی ہے؟

g

،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, اینتھونی زرکر
  • عہدہ, نامہ نگار، شمالی امریکہ

کہاوت ہے کہ وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا اور 80 سالہ بوڑھے جو بائیڈن کے لیے یہ ایک مسئلہ ہو سکتا ہے۔ کیا امریکی صدر ووٹروں کو قائل کر سکتے ہیں کہ ان کی زیادہ عمر کوئی بڑی بات نہیں ہے۔

منگل کو انھوں نے اعلان کیا کہ وہ مزید چار سال وائٹ ہاؤس میں خدمات انجام دینا چاہتے ہیں۔ این بی سی کےحاالیہ سروے کے مطابق امریکی اس بارے میں اتنے پُراعتماد نظر نہیں آتے۔

سروے سے پتہ چلتا ہے کہ 70 فیصد امریکی اور 51 فیصد ڈیموکریٹس سمجھتے ہیں کہ انھیں دوبارہ انتخاب نہیں لڑانا چاہیے۔ اور جو چاہتے ہے کہ وہ انتخاب نہ لڑیں ان لوگوں میں سے تقریباً نصف کے لیے سب سے بڑی تشویش ان کی عمر ہے۔

بائیڈن پہلے ہی امریکی تاریخ کے معمر ترین صدر ہیں۔ اگر وہ دوبارہ انتخاب جیتے تو وہ 82 سال کی عمر میں صدر بنیں گے اور 86 سال کی عمر میں اپنی دوسری چار سالہ مدت پوری کریں گے۔

امریکہ میں کسی شخص کی اوسط عمر کے مطابق بنائے گئے حکومتی ایکچوریل ٹیبل کے مطابق، ایک 82 سالہ شخص کی اوسط عمر 6.77 سال ہوتی ہے اور اگلے 12 مہینوں میں ان کی موت کا امکان آٹھ فیصد ہوتا ہے۔

Getty Images

،تصویر کا ذریعہGetty Images

وہ ویڈیو جس میں ’ذاتی آزادیوں‘ کے تحفظ کے لیے ان کے منصوبے کا خاکہ پیش کیا گیا ہے اور ان کے ریپبلکن مخالفین کی طرف سے لاحق خطرات کے خلاف انتباہ دیا گیا ہے، اس میں وہ عمر کے مسئلے سے نمٹتے نظر نہیں آ رہے۔ اس کے بجائے اس میں صدر کے مختلف اینیمیٹڈ کلپس کو آپس میں جوڑا گیا ہے، کسی میں وہ جاگنگ کر رہے ہیں تو کہیں وہ کام کرتے مصروف نظر آتے ہیں اور کہیں لوگوں سے مل رہے ہیں۔

ویڈیو میں بار بار نائب صدر کملا ہیرس کو بھی نمایاں طور پر دکھایا ہے، جو بائیڈن کے نااہل ہونے کی صورت میں صدارت سنبھالیں گی۔ شاید بائیڈن کی ٹیم کو امید ہو گی کہ 54 سالہ ہیرس کی موجودگی صدارتی مہم میں تھوڑی انرجی ڈالے گی۔ یہاں یہ یاد رہے کہ اس وقت کے نائب صدر بائیڈن خود براک اوباما کے 2012 کے دوبارہ انتخابات لڑنے والی ویڈیو سے غائب تھے۔

سنٹر فار پولیٹیکل فیوچر کے ڈائریکٹر اور ڈیموکریٹس ال گور اور جان کیری کی صدارتی مہم کے سابق سینئیر مشیر باب شرم کے مطابق یہ ویڈیو کافی نہیں ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ زیادہ عمر کے متعلق سوالوں کا جواب آپ ایک کیمپین ویڈیو سے دینے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ آپ کو اس کے بارے میں بات کرکے جواب دینا چاہیے۔

ر

،تصویر کا ذریعہReuters

انھوں نے مزید کہا کہ عمر تب ہی ایک مسئلہ بنے گی جب بائیڈن کی انتخابی مہم میں ان سے کوئی ’سنگین‘ غلطی ہو یا انتخابی مہم میں وہ کہیں لڑکھڑا جائیں۔ اور اگر ایسا ہوتا ہے تو ریپبلکن جو پہلے ہی بائیڈن کی عمر کو اچھالنے کی کوشش کر رہے ہیں وہ یہ کہنے کو تیار بیٹھے ہوں گے کہ بائیڈن اب صدارت کے لیے موزوں نہیں ہیں۔

پچھلے سال ایوان نمائندگان میں 54 ریپبلکنز نے وائٹ ہاؤس کو بھیجے ایک خط پر دستخط کیے تھے جس میں بائیڈن کی ذہنی صحت کے بارے میں ’تشویش‘ کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا گیا تھا کہ بائیڈن کا ڈیمینشیا ٹیسٹ کروایا جائے۔

اس خط میں بائیڈن کے دورِ صدارت میں ہونے والی متعدد غلطیوں اور غلط بیانیوں کی فہرست دی گئی تھی۔

خط میں لکھا گیا ’حالیہ واقعات کوئی نئی بات نہیں بلکہ یہ لمبے عرصے سے چلتے آ رہے ہیں اور یہ ان کی ذہنی صحت کی عکاسی کرتے ہیں۔‘

سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے بھی جو بائیڈن کے بارے میں ایسے خدشات کا اظہار کیا گیا ہے۔ ٹرمپ اس وقت ریپبلکنز کی جانب سے 2024 کی صدارتی نامزدگی کے دعویدار ہیں۔

پچھلے سال کانگریس کے وسط مدتی انتخابات سے قبل سیاسی ریلیوں کے دوران ٹرمپ نے اکثر بائیڈن کی ایک ویڈیو چلائی جس میں انھیں مختلف مقامات پر بے تکی باتیں کرتے اور ٹھوکریں کھاتے دکھایا گیا۔

ٹرمپ نے ایریزونا میں اکتوبر میں ہونے والی ایک ریلی میں ویڈیو چلاتے ہوئے کہا ’جو بائیڈن ٹھیک سے بات نہیں کر سکتے، وہ ٹھیک سے سوچ بھی نہیں سکتے۔‘

یہ بھی پڑھیے

g

،تصویر کا ذریعہGetty Images

باراک اوباما کی 2012 کے دوبارہ انتخابی مہم چلانے والے جم میسینا کے مطابق ڈیموکریٹس شاید ٹرمپ پر اعتماد کر رہے ہیں جو بائیڈن سے صرف چار سال چھوٹے ہیں۔

میسینا نے بی بی سی امریکہ پوڈ کاسٹ کو بتایا ’ووٹرز کہتے ہیں دیکھو وہ دونوں بوڑھے ہیں۔ وہ پوچھتے ہیں کہ بتائیں کون میری زندگی کو بہتر بنائے گا؟‘

وہ کہتے ہیں کہ ’ڈیموکریٹس ہر روز رات کو گھٹنوں کے بل جھک کر خدا سے دعا مانگتے ہیں کہ صدارت کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ ریپبلکن کی جانب سے امیدوار ہوں۔‘

بائیڈن کو چار سال قبل بھی اپنی عمر کے بارے میں بھی سوالات کا سامنا کرنا پڑا تھا، حالانکہ کووڈ کے وبائی امراض کے دوران صدارتی دوڑ کی نوعیت ایسی نہیں تھی کہ امیدواروں کو ووٹروں کے بیچ زیادہ جانا پڑے۔ اور آخر میں ٹرمپ کے مقابلے میں بائیڈن جیت گئے اور عمر کوئی مسئلہ نہیں بنی تھی۔

اس بار بائیڈن موجودہ صدر کی حیثیت سے انتخابی مہم چلانے کے فوائد حاصل کر پائیں گے۔ اس میں سیاسی تقریبات میں شرکت کے لیے ائیر فورس ون کا سفر شامل ہے جس کی منصوبہ بندی پیشہ ورانہ مہم چلانے والا عملہ کرتا ہے اور صدر کی وسیع حفاظتی سکیورٹی ٹیم بھی اس کا حصہ ہوتی ہے۔

یہ ایک بالکل مختلف قسم کا تجربہ ہے۔ ان کے حریفوں کو نیو ہیمپشائر اور آئیووا کی برفباری میں پرائمری کا انتخابات لڑنا ہوں گے۔۔۔ اکثر ان امیدوراوں کا بجٹ بھی بہت محددود ہوتا ہے۔

اس سے بائیڈن کو اپنے ریپبلکن حریف کے مقابلے میں عیش و آرام ملے گا کیونکہ 2024 کے دوسرے نصف میں مہم کا دورانیہ ہفتوں سے لے کر مہینوں تک جا سکتا ہے۔

اور اگر این بی سی کے پول میں بائیڈن کے دوبارہ انتخاب لڑنے کے بارے میں قومی سطح پر ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا گیا تھا تو وہیں کچھ مثبت چیز بھی نظر آتی ہے اور وہ یہ کہ اگر بائیڈن دوبارہ انتخاب لڑتے ہیں تو اس صورت میں 88 فیصد ڈیموکریٹس کا کہنا ہے کہ وہ یقینی طور پر یا شاید اپنے امیدوار کی حمایت کریں گے۔

شرم کا کہنا ہے کہ ہمیشہ سے بائیڈن کے بارے میں غلط اندازے لگائے گئے ہیں۔ 2020 میں ان کے بارے میں غلط اندازہ لگایا گیا۔ پرائمری انتخابات کے ابتدائی راؤنڈ سے قبل لوگوں نے کہنا شروع کر دیا کہ ان کا چانس نہیں۔۔۔ مگر پھر وہ شاندار مارجن سے پرائمری جیت گئے۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ