صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کا کہنا ہے کہ میں صدر نہیں بننا چاہتا تھا، کہا گیا تھا اسپیکر بنائیں گے۔ کسی وجہ سے خان صاحب نے کہا آپ صدر بن جائیں۔
صدر مملکت عارف علوی نے ایک انٹرویو میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف سے ان کی وزارتِ عظمیٰ کے دور میں عمران خان کے ہمراہ ملاقات ہوئی، اس وقت نواز شریف کا کہنا تھا کہ سینیٹ الیکشن میں بےانتہا پیسا چلتا ہے، جسے مل کر روکنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ کہتے ہیں واضح مینڈیٹ آنا چاہیے جو معیشت کے لیے اچھا ہے، سب سے اپیل ہے کہ ملک کا ماحول ایسا ہو کہ معاملہ حل کی طرف جائے۔
عارف علوی نے کہا کہ ایوان صدر میں پریشان کن وقت گزر رہا ہے۔ ملک میں سیلاب، سیاسی و معاشی بحران ہو تو ذہنی پریشانی بڑھ جاتی ہے۔
صدر مملکت کا کہنا تھا کہ حکومت کی تبدیلی پر چیف جسٹس سپریم کورٹ کو لکھے گئے خط کا جواب نہیں آیا۔ چیف جسٹس کو خط میں لیاقت علی خان کی شہادت کا ذکر کیا کہ آج تک تحقیقات کا پتہ نہیں چلا۔
صدر نے کہا کہ بیگم رعنا لیاقت علی خان نے میرے والد کو سمری دی تھی جس میں تحقیقات تھیں۔
انہوں نے کہا کہ صدر ایوب خان کی کتاب کا ٹائٹل تھا ہمیں دوست چاہئیں ماسٹر نہیں۔ بھٹو نے بھی کتاب لکھی کہ ہم حقیقی طور پر آزاد نہیں ہیں، بھٹو نے بھی خط لکھا تھا کہ ان کے خلاف سازش ہوئی ہے۔
صدر عارف علوی نے کہا کہ ضیا الحق کا طیاہ گرایا گیا کس نے سازش کی؟ ضیا الحق کا طیارہ گرنے کی تحقیقات کابھی کچھ پتہ نہیں چلا، ایران کے وزیراعظم مصدق کی حکومت کو گرایا گیا، امریکی پیپرز منظر عام پر آنے سے پتہ چلا مصدق کی حکومت گرانے کیلئے 2 لاکھ ڈالردیےگئے تھے۔
صدر مملکت نے کہا کہ انتخابات اچھا راستہ ہے جس میں دوبارہ سے مینڈیٹ مل جائے تو اچھا ہے، شیڈول پر ہو یا خواہش پر، انتخابات میں چند ماہ کا فرق رہ گیا ہے، آج بھی الیکشن کا اعلان ہوجائے تو چند ماہ تو لگیں گے، کسی کے ذہن میں یہ بات ہو کہ انتخابات نہیں کرانے یہ خطرناک ہوگا۔
صدر عارف علوی نے کہا کہ آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے کام کرلیا جائے تو پاکستان کی جمہوریت مستحکم ہوگی، میں آئینی صدر ہوں کسی آمر کے ذریعے صدر نہیں بنا۔
انہوں نے کہا کہ ایسی باتوں کا ذکر ہونے لگا ہے کہ آئین میں ایسی شقیں ہیں طول دے دیا جائے۔ ان شقوں کو استعمال کرنے سے مجھے خطرہ ہے معاشرے میں مزید مایوسی نہ بڑھے، میرا کام ہے سب کو بیٹھ کر بات چیت کرنے کیلئے حوصلہ افزائی کروں، سیاستدانوں سے کہتا ہوں بحران آنے کے باوجود جمہوریت کا پاس رکھو، اہمیت دو۔
صدر مملکت نے کہا کہ بہت سے ملکوں نے جیب میں ہاتھ ڈال کر تیل بحران کو حل کیا، ہماری جیب ہی نہیں، 75 سال سے چھید رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کہتے رہے ہیں بات چیت ہونی چاہیے، عمران خان نے بھی کہا ہے الیکشن کی تاریخ اور ان چیزوں پر بات کرنے کو تیار ہیں، شاید یہ بات کہی گئی پہلے تاریخ کا اعلان ہو پھر بات کریں گے، میرے خیال میں پہلے تاریخ کا اعلان کرنےکا بھی دباؤ نہیں، اس چیز کو جلد کرانے کی کوشش کروں گا، بات شروع کرانے کی نیت رکھ رہا ہوں کہ بات کروں، بجائے اس کے کہ بہانے تلاش کرو نہ ملنے کے۔
صدر عارف علوی نے مزید کہا کہ جو مطالبہ عمران خان نے کیا ہے کہ الیکشن کی تاریخ پر بات کرنی ہے تو کرلو، معیشت پر بھی بات کرلیتے ہیں، دیر کیے بغیر اور محاذ آرائی کے بغیر یہ بات کرنے میں کوئی ہرج نہیں، حکومت یا عمران خان کو نہیں کہتا کہ اپنے معمول سے ہٹ جاؤ۔
انہوں نے مزید کہا کہ عمران خان جلسہ جلوس کرکے عوام کو آگاہ رکھنا چاہتے ہیں تو کرتے رہیں، حکومت سے بھی کہتا ہوں اپنے معمول کے کام جاری رکھیں، میں تیار ہوں کہ پہلے چند لوگوں کی ملاقات کرالوں کہ پہلے بڑے لوگ ملیں۔
صدر عارف علوی نے کہا کہ پریشانی ہوتی ہے تو ہر کسی سے مشورہ کیا جاتا ہے، معاملہ ہائی ٹائیڈ میں آیا ہوا ہے اس میں ضروری ہے کہ اشتراک ہو، میں پاکستان میں بہت بڑے کمپرومائز کا نہیں کہہ رہا، میں یہ کہ رہا ہوں آئین جو کہتا ہے اس پر گفتگو کرلو، میں کوشش میں انتہائی حد تک جاؤں گا، میرا فرض بھی بنتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں شفاف انتخابات کیلئے ووٹنگ مشین کا بہت اہم کردار ہے، ووٹنگ مشین میں پیپر بیلٹ بھی تھا، کاؤنٹنگ مشین بھی تھی اور کیلکو لیٹر بھی تھا، اوورسیز پاکستانیوں کی ووٹنگ کیلئے سب سے زیادہ میں نے کوشش کی۔ پاکستان میں ہمیشہ یہ گفتگو ہوتی ہے سلیکٹڈ، الیکٹڈ، امپورٹڈ، یہ اس طرح سے آیا، ووٹنگ مشین اس کا جب حل ہے تو اس پر راضی نہ ہوں۔
انہوں نے کہا کہ نواز شریف کے واپس آنے میں رکاوٹ نہیں ہے، نواز شریف کا کیس پاناما پیپرز سے متعلق تھا کسی حکومت نے نہیں کیا تھا، پارلیمنٹ اتفاق رائے سے نااہلی کو ختم کرناچاہے تو اس کا حق ہے، پارلیمنٹ کے بنائے گئے قوانین کے تحت ہی یہ نا اہلی ہوئی تھی، پارلیمنٹ دوتہائی سےنا اہلی پر ترمیم کرنا چاہتی ہے تو بات چیت میں ہرج نہیں۔
عارف علوی نے مزید کہا کہ خوش خبری کی بات کیلئے اسٹیک ہولڈرز سے کی جائے، اسٹیک ہولڈرز میں وزیراعظم خود ہیں، عمران خان ہیں، عدلیہ کی طرف سے فیصلوں کےذریعےجو میسیجنگ آتی ہے وہ بھی خوش خبری ہے۔
Comments are closed.