بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

میانمار میں فوجی بغاوت کے خلاف مظاہروں کا ’خونی دن‘، 38 افراد ہلاک

میانمار میں فوجی بغاوت کے خلاف مظاہروں کا ’خونی دن‘، 38 افراد ہلاک

میانمار

میانمار میں فوج کے اقتدار پر قبضے کے خلاف جاری احتجاج میں بدھ کے روز کم از کم 38 افراد ہلاک ہو گئے ہیں، جسے اقوام متحدہ نے ایک ماہ قبل ہونے والی بغاوت کے بعد سے اب تک کے سب سے ’خونی دن‘ کے طور پر بیان کیا ہے۔

میانمار میں اقوام متحدہ کی مندوب کرسٹین شرنر نے کہا ہے کہ ملک سے چونکا دینے والی فوٹیجز سامنے آ رہی ہیں۔

عینی شاہدین نے بتایا ہے کہ سکیورٹی فورسز نے مظاہرین پر ربڑ اور اصلی گولیوں سے فائرنگ کی تاہم فوج نے اموات کی اطلاع پر ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔

واضح رہے کہ میانمار میں فوج کے اقتدار پر قبضے کے خلاف سینکڑوں افراد ملک بھر میں مظاہرے کر رہے ہیں۔ مظاہرین فوج کی حکمرانی کے خاتمے اور بغاوت کے دوران معزول اور نظربند کیے جانے والے آنگ سان سوچی سمیت ملک کے منتخب حکومتی رہنماؤں کی رہائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

بدھ کے روز ہونے والی ہلاکتوں پر ردعمل دیتے ہوئے برطانیہ نے جمعے کے روز اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس طلب کیا ہے جبکہ امریکہ نے کہا کہ وہ میانمار کی فوج کے خلاف مزید کارروائی پر غور کر رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا ہے کہ بدھ کے روز ہونے والے تشدد نے امریکہ کو ’خوفزدہ‘ کر دیا ہے۔

انھوں نے صحافیوں کو بتایا: ’ہم تمام ممالک سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ برمی فوج کے اپنے عوام کے خلاف ہونے والے وحشیانہ تشدد کی مذمت کے لئے ہم آواز ہو جائیں۔‘

انھوں نے تاریخی طور پر میانمار کے قریبی اتحادی چین پر زور دیا کہ وہ برما کی فوج پر اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کرے۔

’وہ بس باہر آئے اور گولیاں برسانا شروع کر دیں‘

کرسٹین شرنر نے کہا ہے کہ میانمار میں فوجی بغاوت کے بعد سے اب تک کم از کم 50 افراد ہلاک اور ’متعدد زخمی‘ ہو چکے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ایک ویڈیو کلپ میں دیکھا گیا ہے کہ پولیس طبی عملے کے ایک غیر مسلح رضاکار کو مار رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ایک اور ویڈیو میں دیکھا گیا ہے کہ احتجاج کرنے والے ایک شخص کو گولی کا نشانہ بنایا گیا اور ممکنہ طور پر وہ سڑک پر ہی مارا گیا۔

میانمار

انھوں نے مزید کہا: ’میں نے کچھ ہتھیاروں کے ماہرین سے پوچھا ہے اور وہ اس کی تصدیق کرسکتے ہیں، یہ واضح نہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ پولیس ہتھیاروں میں نائن ایم ایم سب میشین بندوقیں اور گولہ بارود شامل ہے۔‘

میانمار کے اندر سے موصول ہونے والی اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ سکیورٹی فورسز نے ینگون سمیت متعدد شہروں میں بڑے ہجوم پر فائرنگ کی جس کے بارے میں بہت کم وارننگ جاری کی گئی تھی۔

بین الاقوامی امدادی ادارے ’سیو دا چلڈرن‘ کے مطابق 14 اور سترہ برس کے دو بچے بھی مارے گئے ہیں۔ ایک 19 برس کی خاتون کے مارے جانے کی بھی اطلاعات ہیں۔

ایک مقامی صحافی نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ مبینہ طور پر میانمار کے علاقے مونوا میں ایک مظاہرے کے دوران چھ افراد کو فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا گیا جبکہ کم از کم 30 افراد زخمی ہیں۔

ایک رضاکار ڈاکٹر نے اے ایف پی نیوز ایجنسی کو بتایا کہ میاںگیان میں کم از کم 10 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ انھوں نے بتایا ’انھوں نے آنسو گیس، ربڑ کی گولیاں اور براہ راست راؤنڈ فائر کیے۔‘

احتجاج کرنے والے ایک شخص نے روئٹرز کو بتایا: ’انھوں نے واٹر کینن سے ہم پر پانی نہیں پھینکا، منتشر ہونے کی کوئی وارننگ جاری نہیں کی، انھوں نے بس اپنی بندوقیں چلائیں۔‘

منڈالے میں ایک طالب علم نے بی بی سی کو بتایا کہ کچھ مظاہرین کو ان کے گھر کے قریب مارا گیا۔

انھوں نے بتایا: ’دس ساڑھے دس کے قریب پولیس اور فوجی اس علاقے میں آئے اور لوگوں پر گولیاں برسانا شروع کر دیں۔ انھوں نے کوئی واننگ نہیں دی۔‘

’وہ بس باہر آئے اور گولیاں برسانا شروع کر دیں۔ انھوں نے ربڑ کی گولیوں کا استعمال کیا لیکن شہریوں کو پرتشدد طریقے سے مارنے کے لیے اصلی گولیوں کا بھی استعمال کیا گیا۔‘

میانمار

میانمار کے بارے میں

  • میانمار کو برما بھی کہا جاتا ہے اور اس نے سنہ 1948 میں برطانیہ سے آزادی حاصل کی۔
  • اپنی جدید تاریخ کا زیادہ تر عرصہ اس نے فوجی حکومت کے تحت گزارا ہے۔
  • سنہ 2010 کے بعد سے پابندیوں میں نرمی کی گئی جس سے 2015 میں آزادانہ انتخابات ہوئے اور اگلے سال تجربہ کار اپوزیشن رہنما آنگ سان سوچی کی قیادت میں حکومت قائم ہوئی۔
  • سنہ 2017 میں روہنگیا برادری کے جنگجوؤں نے پولیس پوسٹس پر حملہ کیا جس کے جواب میں میانمار کی فوج اور مقامی بدھسٹ مشتعل گروہوں نے ہلاکت خیز کریک ڈاؤن کا آغاز کر دیا جس میں اطلاعات کے مطابق ہزاروں روہنگیا افراد ہلاک ہوئے۔ پانچ لاکھ سے زیادہ روہنگیا افراد سرحد پار کر کے بنگلہ دیش چلے گئے اور اقوامِ متحدہ نے اسے ‘نسلی طور پر صفایا کرنے کی واضح ترین مثال’ قرار دیا۔
BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.