بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

پاکستان میں امریکی کارروائی کو ’آخری وقت پر منسوخ‘ کروانے والے رمزفیلڈ کون تھے؟

ڈونلڈ رمزفیلڈ: عراق جنگ کے معمار سابق امریکی وزیرِ دفاع ڈونلڈ رمزفیلڈ کون تھے؟

رمزفیلڈ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

جب سنہ 2003 مارچ میں امریکہ نے القاعدہ کے ساتھ روابط اور ’بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار‘ بنانے کے الزام میں عراق کو اس وقت کے صدر صدام حسین سے چھٹکارا دلانے کے لیے حملہ کیا تو اس کے صرف دو ہفتے بعد امریکی سیکریٹری دفاع ڈونلڈ رمزفیلڈ نے اپنے مشیر کو ایک مختصر سا نوٹ تحریر کیا۔

اس نوٹ کا عنوان تھا: ’مختلف ممالک کے ساتھ مسائل‘۔ اس نوٹ میں انھوں نے لیبیا، شام، عراق اور شمالی کوریا کے بارے میں اپنے خدشات کے بارے میں لکھا۔

اور اس نوٹ میں ایک سطر تھی: ’ہمیں پاکستان کے مسئلے کو حل کرنا ہے۔‘

پاکستان کو ’مسئلہ‘ قرار دینے والے اور سنہ 2003 میں شروع ہونے والی عراق جنگ کی منصوبہ سازی میں کلیدی کردار ادا کرنے والے سابق امریکی سیکریٹری دفاع ڈونلڈ رمزفیلڈ 30 جون کو 88 سال کی عمر میں وفات پا گئے۔

آج سے 18 برس قبل لکھے گئے اس نوٹ کے صرف دو سال بعد ڈونلڈ رمزفیلڈ نے پاکستان کے حوالے سے ایک اور اہم قدم اٹھایا جب امریکی عسکری حکام کے مطابق سنہ 2005 کے اوائل میں پاکستان کے قبائلی علاقوں سے القاعدہ کے سینیئر رہنماؤں کو پکڑنے کے ایک فوجی آپریشن کو آخری لمحات پر منسوخ کر دیا گیا تھا۔

نیویارک ٹائمز کی ایک خبر کے مطابق یہ آپریشن منسوخ کرنے والے اس وقت کے امریکی وزیرِ دفاع ڈونلڈ رمزفیلڈ تھے۔

یہ ایک ایسا آپریشن تھا جس کا مقصد القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کے نائب ایمن الزواہری کو پکڑنا تھا۔

آپریشن کس کے خلاف تھا اور منسوخ کیوں ہوا؟

امریکی حکام نے خفیہ معلومات کے ذریعے یہ پتا لگایا کہ القاعدہ کے سینئیر حکام پاکستان کے قبائلی علاقے میں ایک میٹنگ کرنے والے ہیں جہاں اسامہ بن لادن کے نائب ایمن الزہراوی بھی موجود ہوں گے، جو امریکہ کو مطلوب تھے۔

امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے ڈائریکٹر پورٹر جے گوس نے نیوی سیلز کے یونٹ کو تیار کر دیا تھا اور وہ افغانستان میں کارگو جہاز پر اپنے ساز و سامان کے ساتھ بیٹھ چکا تھا جب ڈونلڈ رمزفیلڈ نے اس آپریشن کو منسوخ کرنے کا حکم دیا۔

اس آپریشن کی منصوبہ بندی کے مطابق یہ آپریشن ایک مختصر نوعیت کا تھا جس میں فوج اور سی آئی اے کے بہت کم تعداد میں اہلکار ملوث ہوتے لیکن وہ منصوبہ پھیلتے پھیلتے 100 سے زیادہ افراد پر مشتمل ہو گیا تھا جس کے بعد امریکی سیکریٹری دفاع رمزفیلڈ نے یہ کہہ کر اس کی اجازت نہیں دی کہ بہت ساری امریکی جانیں خطرے میں پڑ جائیں گی۔

پاکستان

،تصویر کا ذریعہGetty Images

رپورٹ کے مطابق اس وقت کے امریکی مشیران یہی کہتے ہیں کہ ڈونلڈ رمزفیلڈ کے رائے یہ تھی کہ امریکہ پاکستان میں اتنا بڑا آپریشن پاکستانی صدر پرویز مشرف کے علم میں لائے بغیر نہیں کر سکتا تھا۔ ان کا یہ بھی خیال تھا کہ اتنے بڑے آپریشن کی اگر پاکستان کو اطلاع کی گئی تو وہ راضی نہیں ہو گا۔

اس کے علاوہ ڈونلڈ رمزفیلڈ کو اس بات کا بھی خدشہ تھا کہ یہ معاملہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کو خراب کر سکتا ہے جو کہ امریکہ کا اس جنگ میں اتحادی ملک تھا۔

اس آپریشن کی منصوبہ بندی کرنے والے اہلکاروں میں سے ایک اہلکار نے بعد میں نیو یارک ٹائمز کو بتایا کہ یہ آپریشن ایسے تھا جیسے ’امریکہ پاکستان پر حملہ کرنے والا تھا۔‘

واضح رہے کہ اپریل 2005 میں ہی ڈونلڈ رمزفیلڈ نے پاکستان کا دورہ کیا تھا جہاں انھوں نے اس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف سے ملاقات بھی کی تھی۔

طویل عرصے تک امریکی حکومتوں سے منسلک رہنے والے ڈونلڈ رمزفیلڈ کے کریئر اور ان سے منسوب تنازعات کی تفصیلات اس رپورٹ میں پیش کی جا رہی ہیں۔

ڈونلڈ رمزفیلڈ کون تھے؟

صدر جارج ڈبلیو بش کی انتظامیہ میں خدمات سرانجام دینے والے رمزفیلڈ حکومت کی ’دہشتگردی کے خلاف جنگ‘ کی پالیسی کے حامیوں میں سے تھے۔

خیال رہے کہ امریکی افواج نے 9/11 کے حملوں کے بعد افغانستان میں جنگ کا آغاز کیا تھا جبکہ سنہ 2003 میں امریکی افواج نے عراق پر حملہ کیا تھا۔

رمزفیلڈ نے سنہ 2006 میں جنگ کے بعد عراق میں پیدا ہونے والے بحران کے دوران استعفیٰ دے دیا تھا تاہم اس کے بعد سے وہ اپنے ریکارڈ کا دفاع کرتے آئے ہیں۔

مارچ سنہ 2003 میں عراق پر حملے سے قبل رمزفیلڈ نے حملے کی واضح حمایت کی تھی۔

انھوں نے کہا تھا کہ عراق میں موجود بڑے پیمانے پر تباہی کی صلاحیت رکھنے والے ہتھیار دنیا کے لیے خطرہ ہیں، تاہم بعد میں ایسا کوئی ہتھیار برآمد نہیں ہوا تھا۔

ان کا کریئر کئی دہائیوں پر محیط تھا، رمزفیلڈ کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ واشنگٹن کی سیاست کے باریکیوں کے بارے میں جانتے تھے اور وہ ایسے سیاست دان تھے جو اپنے حریفوں سے ہمیشہ ایک قدم آگے ہوتے تھے۔ تاہم ان کے ناقدین کے نزدیک وہ انتہائی چالاک اور سفاک کردار تھے اور جنگ کروانے والوں میں سے تھے۔

رمزفیلڈ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ان کی سب سے یادگار لمحات سنہ 2002 میں سامنے آئے جب ان سے سنہ 2002 میں صدام حسین کے پاس مبینہ بڑے پیمانے پر تباہی کی صلاحیت رکھنے والے ہتھیاروں کے حوالے سے شواہد نہ ہونے سے متعلق سوال پوچھا گیا تو انھوں نے ایک گول مول جواب دیتے ہوئے ‘ایسی معلومات جن کے بارے میں پتا ہو کہ وہ حقیقی ہیں’ اور ‘ایسی معلومات جن کے بارے میں علم ہو کہ وہ نامعلوم ہیں’ کا تذکرہ کیا، جس پر ان پر عوامی سطح پر خاصی تنقید کی گئی۔

ڈونلڈ ہینری رمزفیلڈ کے ابتدائی سال

ڈونلڈ ہینری رمزفیلڈ نو جولائی 1932 کو امریکی ریاست شکاگو میں پیدا ہوئے تھے۔ بچپن میں رمزفیلڈ ایک ایگل سکاؤٹ تھے جنھیں بعد میں جا کر کشتی سے خاصا لگاؤ ہو گیا تھا۔

اپنے والد کی بحریہ سے وابستگی کے باعث انھیں پرنسٹن یونیورسٹی سے سیاسیات پڑھنے کا موقع ملا اور وہ اپنے والد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے بطور پائلٹ اور فلائٹ انسٹرکٹر بحریہ سے سنہ 1954 اور 1957 کے درمیان منسلک ہو گئے۔ کی جانب سے

جب انھیں ریزروز میں منتقل کیا گیا تو وہ واشنگنٹن ڈی سی آ گئے اور ایک کانگریس رہنما کے اسسٹنٹ کے طور پر کام کرنے لگے۔ تاہم 1962 میں وہ الانوئے سے امریکی ایوان نمائندگان کے لیے منتخب ہو گئے۔

رمزفیلڈ نے اس عہدے سے استعفیٰ دے کر سنہ 1969 میں صدر رچرڈ نکسن کے دفتر برائے معاشی مواقع کو سنبھال لیا اور وہ انتظامیہ میں متعدد عہدوں پر فائز رہے جن میں 74-1973 میں بطور سفیر نیٹو میں تعیناتی خاصی اہم تھی۔

نکسن کی جانب سے واٹرگیٹ سکینڈل پر استعفے کے بعد رمزفیلڈ کو پہلے صدر جیرالڈ فورڈ کی انتظامیہ کے لیے اقتدار کی منتقلی کی نگرانی کے لیے چیئرمین بنایا گیا اور پھر وہ ان کے چیف آف سٹاف بنے۔

سنہ 1975 میں انھوں کابینہ میں تبدیلیوں کے باعث وزیر دفاع تعینات کیا گیا یوں 43 کی عمر میں وہ ملک کے سب سے کم عمر سیکریٹری دفاع بنے۔

وہ ایک ایسے دور میں وزیر دفاع تعینات ہوئے تھے جب امریکی پالیسی سرد جنگ سے جڑے اضطراب کے گرد گھومتی تھی۔ رمزفیلڈ نے اپنے دور میں ٹراڈینٹ جوہری آبدوز منصوبہ اور ‘امن کو یقینی بنانے والے’ ایم ایکس بین البراعظم بیلسٹک میزائل پروگرامز کی بنیاد رکھی۔

رمزفیلڈ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

جب 1977 میں رچرڈ فورڈ کو جمی کارٹر سے الیکشن میں شکست ہوئی تو رمزفیلڈ نے نجی سیکٹر کا رخ کیا اور ساتھ ہی چند پارٹ ٹائم وفاقی ذمہ داریاں بھی نبھائیں اور ایک موقع پر وہ صدر رونلڈ ریگن کے مشرقِ وسطیٰ کے لیے خصوصی مندوب بھی تعینات ہوئے۔

انھوں نے ایک دہائی تک دواساز کمپنی جی ڈی سیئرل اینڈ کو کی سینئر مینیجمنٹ عہدے سنبھالے رکھے اور وہ الیکٹرانکس بنانے والی کمپنی جنرل انسٹرومینٹس کے سی ای او اور چیئرمین بھی رہے۔ تاہم کچھ عرصے بعد وہ دوا ساز انڈسٹری میں واپس آئے اور جلیئیڈ سائنسز میں بطور چیئرمین تعینات ہوئے۔

اس سب کے دوران وہ کبھی بھی سیاست سے زیادہ دور نہیں رہے اور 1998 میں انھیں ایک کمیشن کا سربراہ مقرر کیا گیا جس کا کام امریکہ کو بیلسٹک میزائلوں سے لاحق خطرے کی جانچ کرنا تھا۔ ان تحقیقات کی وجہ کلنٹن انتظامیہ کی جانب سے کی گئی انٹیلیجنس تجزیے پر ہونے والی تنقید تھی کیونکہ انتظامیہ کی جانب سے سوویت یونین کے خاتمے کے بعد شمالی امریکہ کو درپیش سکیورٹی خطرات کو اہمیت نہیں دی گئی تھی۔

رمزفیلڈ رپورٹ میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ امریکہ کو تین مشتعل ممالک شمالی کوریا، عراق اور ایران سے خطرات لاحق ہیں۔ اس میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ یہ ممالک میزائل صلاحیت حاصل کرنے کا ارادہ کرنے کے پانچ برس میں امریکہ پر ‘بڑی تباہی’ کی وجہ بن سکتے ہیں۔ اس سے قبل، خفیہ اداروں کی رپورٹ میں پیشگوئی کی گئی تھی کہ یہ دورانیہ 15 برس ہو گا۔ اس رپورٹ کے باعث ملک کے میزائل سے منسلک دفاعی نظام اور پالیسیوں سے متعلق خاصی گرما گرم بحث ہوئی تھی۔

رمزفیلڈ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

کابینہ میں واپسی

سنہ 2000 کے انتہائی سنسنسی خیز انتخابات کے بعد رمزفیلڈ کو ایک مرتبہ پھر وزیرِ دفاع کے عہدے کے لیے منتخب کیا گیا۔ اس مرتبہ وہ یہ عہدہ سنبھالنے والے سب سے عمر رسیدہ شخص بنے۔

پارٹی میں موجود کنزرویٹوز نے رمزفیلڈ کی شمولیت کو خوش آئند قرار دیا اور وہ پہلے جارج ڈبلیو بش کی الیکشن مہم میں ان کی خارجہ پالیسی کے مشیر بھی رہے۔ بش نے اس وقت ان کے بارے میں کہا تھا کہ وہ ‘بہترین فیصلے کرنے والے’ اور ‘دوراندیش’ شخص ہیں۔

صدر کی کابینہ میں رمزفیلڈ کو وزیر خارجہ کالن پاول اور نائب صدر ڈک چینی جیسے طاقت ور کردار ملے جو 70 کی دہائی میں فورڈ کے چیف آف سٹاف کے عہدے پر ان کی جگہ تعینات ہوئے تھے۔

بش انتظامیہ کی ترجیحات میں سے ایک یہ بھی تھی کہ وہ پینٹاگون کو نئے اور بدلتے سکیورٹی خطرات کے لیے تیار کرے۔ رمزفیلڈ کو اس حوالے سے ذمہ داری سونپی گئی تھی کہ وہ عام حالات میں تبدیلی کی مخالفت کرنے والی فوج میں مثبت تبیدیلیاں لائیں۔

انتظامیہ کے شروع کے دنوں میں ان کی جانب سے سویلین کنٹرول کو باورکروانے کا بے تکلف انداز فوج کے اہم عہدیداروں کو برا محسوس ہوا تھا۔

تاہم پھر وہ ہوا، جس کا کسی کو گمان بھی نہ تھا، بش کی صدارت کے نو ماہ کے اندر اندر، امریکہ ایک بہت بڑے حملے کی زد میں آ گیا۔

رمزفیلڈ

،تصویر کا ذریعہAFP

11/9 اور امریکی ردِ عمل

رمزفیلڈ اس وقت پینٹاگون کی ایک میٹنگ میں ہی شرکت کر رہے تھے تاکہ میزائل دفاعی نظام سے متعلق حمایت حاصل سکیں کہ 11 ستمبر 2001 کی صبح امریکہ کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر کو نشانہ بنا دیا گیا۔

انھوں نے اپنی معمول کی بریفنگز جاری رکھنے پر زور دیا لیکن رمزفیلڈ اس وقت دفاعی ہیڈکوارٹرز کی عمارت میں ہی تھے جب ایک اور ہائی جیک کیا گیا جہاز اس سے ٹکرایا۔

انھوں نے بعد میں بتایا تھا کہ اس وقت انھیں عمارت میں لرزش محسوس ہوئی اور وہ اس طرف بھاگے جہاں جہاز گرا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ حکام کو انھیں تلاش کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور اس حوالے سے افراتفری مچ گئی۔

انھوں نے اس بارے میں لکھا ہے: ‘باہر مجھے تازہ ہوا میسر آئی اور انتہائی بے ہنگم مناظر بھی دیکھنے کو ملے۔ مجھے عمارت کے مغربی کونےسے دھوئیں کے سیاہ بادل اٹھتے دکھائی دیے۔ میں پینٹاگون کی دیوار کے ساتھ ساتھ بھاگ کر اس کی جانب بڑھا تو مجھے شعلے نظر آئے۔

سی این این پر دکھائی گئی فوٹیج میں رمزفیلڈ کو کسی زخمی کو سٹریچر پر ڈال کر محفوظ مقام کی جانب جاتا دیکھا جا سکتا ہے جس کے بعد وہ اس حوالے سے ملکی ردِ عمل تیار کرنے کے لیے واپس عمارت میں چلے گئے۔

بعد میں سامنے آنے والے شواہد کے مطابق اس حملے کے کچھ گھنٹوں بعد ہی رمزفیلڈ نے نہ صرف یہ منصوبہ پیش کر دیا تھا کہ امریکہ کو ناصرف اسامہ بن لادن پر حملے کرنے چاہییں بلکہ صدام حسین کے عراق پر بھی۔

رمزفیلڈ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

عراق اور افغانستان

امریکہ کی جانب سے سامنے آنے والا ابتدائی ردِ عمل آئندہ کارروائیوں کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔

حملے کے ایک ماہ سے بھی کم عرصے کے بعد سات اکتوبر کو امریکی فورسز کی جانب سے القائدہ اور طالبان کے خلاف افغانستان میں فضائی حملوں کا آغاز کر دیا گیا۔

اس کے کچھ ہی عرصے بعد زمینی حملوں کا آغاز بھی کر دیا گیا اور اس سے رمزفیلڈ کی شہرت بھی بڑھنے لگی کیونکہ وہ اس حوالے سے مسلسل بریفنگز دے رہے تھے اور عوام کو تازہ ترین صورتحال سے آگاہ کر رہے تھے۔

تاہم سنہ 2002 تک بش انتظامیہ کی نظریں عراق پر تھیں۔ صدر کی جانب سے اس ملک پر خاصی تنقید کی جا رہی تھی اور وہ عراق، شمالی کوریا اور ایران کو ’ایکسز آف ایول‘ یعنی فتنے کا محور قرار دے رہے تھے کیونکہ ان کے مطابق ان ممالک کے باعث عالمی سلامتی کو خطرات لاحق ہیں کیونکہ یہ ایسے ہتھیار بنانا چاہتے ہیں جو بڑی تباہی کا باعث بن سکتے ہیں۔

امریکی صدر کی جانب سے یہ بات سٹیٹ آف دی یونین کی تقریب سے خطاب میں کہی گئی تھی اور اس سے کچھ ہفتوں بعد جب رمز فیلڈ سے یہی سوال پوچھا گیا تو انھوں نے اس کےجواب میں ‘ایسی معلومات جن کے بارے میں پتا ہو کہ وہ حقیقی ہیں’ اور ‘ایسی معلومات جن کے بارے میں علم ہو کہ وہ نامعلوم ہیں’ کا تذکرہ کر کے سب کو الجھا دیا۔

یہ بات رمزفیلڈ کی اپنی اختراع نہیں تھی تاہم اس کے ردِ عمل میں ان پر خاصی تنقید ہوئی کیونکہ بش انتظامیہ پر جنگ کے حوالے سے ان کے موقف پر تنازع بنا ہوا تھا۔

اقوام متحدہ سے طاقت کے استعمال کی اجازت لینے کی کوششیں چھوڑ کر امریکہ اور برطانیہ نے خود ہی آپریشن عراقی قریڈم مارچ 2003 میں شروع کر دیا چاہے اس کی حمایت میں شواہد پر متواتر سوال اٹھائے گئے۔

کابینہ میں رمزفیلڈ کو ایک ہاکش رکن کے طور پر دیکھا گیا اور وہ اس جنگ کے ایک اہم معمار تھے۔

انھوں نے اپنے ایک میمو میں لکھا تھا کہ یہ جنگیں طویل اور مشکل ہوں گی، جس بات کو آج تاریخ نے سچ ثابت کر دیا ہے۔

مگر رمزفیلڈ اس کے بعد بھی تنازع سے کبھی دور نہ تھے۔ بے تکلف بیانات ان کی پہچان بن گئے۔ صدر بش نے ابو غریب جیل کے تنازع میں ان کا ساتھ دیا جب امریکی فوجیوں کی عراقی قیدیوں کی بے حرمتی کرتے تصاویر منظرِ عام پر آگئیں تھیں۔

اس وقت تک واضی ہو چکا تھا کہ بش انتظامیہ نے جو کچھ بھی کہا تھا، عراق کے پاس بائیو لوجیکل، کیمیائی، یا جوہری ہتھیاروں کے کوئی سٹاک نہیں تھے۔ آہشتہ آہشتہ رمزفیلڈ کے استعفیٰ کے مطالبات زور پکڑنے لگے۔

آخر کار 2006 میں جب مڈٹرم انتخابات میں ریپبلکنز کو شکست ہوئی تو بش انتظامیہ کو احساس ہوا کہ ان جنگوں پر ایک نئے زاویے سے سوچنا ہوگا۔ صدر بش آحر تک رمزفیلڈ کے حامی رہے۔

2011 میں اپنی آپبیتی میں رمزفیلڈ نے جنگ کے حوالے سے اپنے طور طریقے کا دفاع تو کیا تاہم انھوں نے اپنے کچھ بیانات پر افسوس کا اظہار ضرور کیا اور کہا کہ انھیں عراق میں زیادہ امریکی فوجی بھیجنے چاہیے تھے۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.