’مجھے امید دلوائی گئی کہ یہ علاج مجھے نابینا ہونے سے بچا لے گا‘: مریضوں کو جھوٹی امیدیں بیچنے والے ڈاکٹر

آنکھ
،تصویر کا کیپشن

’میں نے اس علاج کے لیے 13 ہزار ڈالر جمع کیے جس کے بارے میں مجھے بتایا گیا تھا کہ یہ علاج میری بینائی کو بہتر بنا سکتا ہے‘

  • مصنف, رمضان یونس
  • عہدہ, بی بی سی نیوز، عربی

دنیا بھر میں ڈاکٹر لاکھوں ایسے لوگوں کو جھوٹی امید اور جعلی علاج کی پیشکش کر رہے ہیں جنھیں آنکھوں کے ایک ایسے مرض کا سامنا ہے جس کی وجہ سے وہ بینائی سے محروم ہو سکتے ہیں۔ بی بی سی کے نامہ نگار رمضان یونس خود اسی عارضے کا شکار ہیں اور انھوں نے ایک خفیہ تحقیق میں ایسے ڈاکٹروں کا پردہ چاک کیا ہے جو اب تک کئی مریضوں کا نام نہاد علاج کر چکے ہیں۔

’میں پانچ دن تک مکمل اندھیرے میں ہسپتال میں لیٹا رہا، میری آنکھوں پر پٹیاں بندھی ہوئی تھیں اور میں سوچ رہا تھا کہ بینائی بہتر ہونے کے بعد میری زندگی کیسی ہو گی۔‘

یہ 2013 کی بات ہے جب میں نے آنکھوں کی ایک بیماری، ریٹیناٹِس پِگمنٹوسا (آر پی) کے علاج کے بارے میں پڑھنے کے بعد چین کے شہر بیجنگ جانے کا فیصلہ کیا تھا۔ چین کے سفر پر روانہ ہونے سے چھ سال پہلے مجھ میں اس مرض کی تشخیص ہو چکی تھی، جس کا مطلب یہ تھا کہ میں آہستہ آہستہ اپنی بینائی کھو رہا ہوں اور ایک دن میری بینائی مکمل طور پر ختم ہو سکتی ہے۔

میں نے اس علاج کے لیے 13 ہزار ڈالر جمع کیے جس کے بارے میں مجھے بتایا گیا تھا کہ یہ علاج میری بینائی کو بہتر بنا سکتا ہے اور اسے مزید خراب ہونے سے روک سکتا ہے۔ مجھے بتایا گیا تھا کہ یہ علاج میری زندگی کو بدل دے گا۔

بیجنگ سے علاج کروانے کے بعد جب میں مصر میں اپنے گھر واپس آیا، تو میں نے دوستوں اور اہلخانہ کو بتایا کہ میری بینائی بہتر ہو رہی ہے، لیکن یہ سچ نہیں تھا کیونکہ کچھ بھی تبدیل نہیں ہوا تھا۔

اس علاج کو کئی برس گزر چکے ہیں لیکن مجھے ہر ماہ یہی محسوس ہو رہا ہے کہ گذشہ ماہ کی نسبت میری نظر مزید کمزور ہو گئی ہے اور یہ آہستہ آہستہ ختم ہو رہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ’آر پی‘ کی وجہ سے میری آنکھ کے پیچھے واقع روشنی کے لاکھوں حساس خلیے آہستہ آہستہ مر رہے ہیں۔

فی الحال اس مرض کا کوئی علاج نہیں ہے، سوائے جین تھراپی کے جو اس مرض کو بڑھنے سے روک سکتی ہے۔ یہ منظور شدہ علاج صرف کچھ مریضوں کے لیے ہی کارگر ہوتا ہے جن میں ایک مخصوص جین ناقص ہوتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود کئی ممالک میں ڈاکٹر یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ وہ اس ناقابل علاج بیماری کا علاج کر سکتے ہیں۔ اکثر لوگوں کو اس علاج پر بھاری رقم خرچ کرنا پڑتی ہے۔

آر پی کے اس مبینہ علاج پر تحقیق کے تین برس میں، میں نے اپنے جیسے درجنوں مریضوں سے بات کی جنھیں میری طرح جھوٹی امید دی گئی تھی۔ اس کے لیے میں امریکی ریاست فلوریڈا کے شہر میامی، روس اور غزہ جیسی مختلف جگہوں پر معجزاتی علاج کا دعویٰ کرنے والے بہت سے ڈاکٹروں سے ملا۔

غزہ میں میری ملاقات پناہ گزین کیمپوں میں رہنے والے ان لوگوں سے بھی ہوئی جنھوں نے دوستوں اور اہلخانہ سے ہزاروں ڈالر جمع کیے تھے تاکہ وہ اس طریقہ علاج کے تحت گلوکوز اور وٹامنز کے انجکشن لگوانے کے ساتھ ساتھ آلات کے ذریعے آنکھوں کی مالش کروا سکیں۔

آنکھ

،تصویر کا کیپشن

اپنی تحقیق کے دوران رمضان یونس نے درجنوں ایسے افراد سے بات کی جنھیں نے علاج کی جھوٹی امید دلائی گئی تھی

میں سوڈان میں بھی کچھ مریضوں سے ملا جنھیں ڈاکٹروں نے پرزور مشورہ دیا تھا کہ وہ ہر سال روس جا کر ہزاروں ڈالر کے وٹامن کے ٹیکے لگوایا کریں۔ان ٹیکوں کے بارے میں حتیٰ کہ اس روسی ہسپتال کے عملے کے ایک فراد نے مجھے خود فون پر بتایا کہ یہ ٹیکے شاید کام نہیں کرتے۔

لیکن میامی کے ڈاکٹر جیفری ویس کا معاملہ مختلف ہے کیونکہ وہ اپنی اشتہاری ویڈیوز میں کہتے ہیں کہ ’میں ناقابل علاج لوگوں کا علاج کر رہا ہوں۔ میں ان لوگوں کا علاج کر رہا ہوں جن کے پاس کبھی امید نہیں تھی۔‘

میری لیے یہ چیز بڑی پریشان کن تھی کیونکہ ڈاکٹر جیفری ایک ایسے ملک میں بیٹھ کر یہ دعویٰ کر رہے تھے جہاں صحت کا نظام بہت منظم ہے اور سرکاری منطوری سے پہلے ہر طریقہ علاج اور دوا کی خوب جانچ پڑتال کی جاتی ہے۔

میری تحقیق کے مطابق ڈاکٹر جیفری اور ان کی ٹیم میں شامل سرجن، ڈاکٹر سٹیون لیوی اور دیگر افراد جس طریقہ علاج پر عمل کر رہے ہیں وہ دراصل کلینیکل ٹرائل یا تجرباتی مراحل میں ہے۔

امریکہ میں زیادہ تر ٹرائلز میں حکومت یا نجی دواساز اور طبی آلات بنانے والی کمپنیوں کی طرف سے مالی اعانت فراہم کی جاتی ہے، لیکن ڈاکٹر جیفری اور ان کی ٹیم جس تجرباتی علاج پر کام کر رہی ہے اس میں حصہ لینے والے مریضوں کو خود 20 ہزار ڈالر ادا کرنا پڑتے ہیں۔

امریکن سوسائٹی آف ریٹینا سپیشلسٹس کی صدر ڈاکٹر جوڈی کم نے بی بی سی کو بتایا کہ کسی بھی کلینیکل ٹرائل کے لیے مریضوں سے پیسے لینا مروجہ اخلاقی رہنما اصولوں کے خلاف ہے اور یہ چیز ’اخلاقی طور پر قابل مذمت‘ ہے۔

میں نے ڈاکٹر سٹیون لیوی کو فون کیا اور خود کو ایک مریض کے طور پر پیش کرتے ہوئے ان کی خفیہ ریکارڈنگ کی۔ میرا مقصد یہ دیکھنا تھا کہ وہ اپنے مریضوں کو ٹرائل کے بارے میں کیا بتاتے ہیں۔

انھوں نے مجھے بتایا کہ اس طریقہ علاج میں مریض کی ہڈیوں کے گودے سے سٹیم سیلز لیے جاتے ہیں اور پھر ان سیلز کو انجیکشن کے ذریعے مریض کی پلکوں کے نیچے اور آنکھوں کے ساکٹ کے پچھلے حصے میں داخل کیا جاتا ہے۔

آنکھ

،تصویر کا کیپشن

ڈاکٹر سٹیون لیوی ( بائیں) نے اس علاج کے بارے میں بڑے بڑے دعوے کیے لیکن ان کے مریض ان دعوؤں کی تردید کرتے ہیں

ڈاکٹر سٹیون لیوی نے مجھے بتایا کہ ڈاکٹر جیفری نے تقریبا 700 مریضوں کا علاج کیا ہے جن میں ’کوئی طبی پیچیدگی نہیں‘ دیکھی گئی اور ’زیادہ تر مریضوں‘ کو اس علاج سے فائدہ ہوا۔

لیکن ڈاکٹر لیوی کے سابق مریضوں نے مجھے ایک مختلف کہانی سنائی۔ مثلاً احمد فاروقی نامی ایک شخص نے مجھے بتایا کہ اس عمل کے بعد انھیں معلوم ہوا کہ وہ اپنی بائیں آنکھ سے نہیں دیکھ سکتے۔

احمد فاروقی کا کہنا تھا کہ وہ لوگوں کو سوشل میڈیا پر اپنی کہانی سُنا رہے ہیں اور دوسروں کو خبردار کر رہے ہیں کہ وہ یہ علاج نہ کروائیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ کہا کہ اگر وہ ڈاکٹر لیوی سے بات کر سکتے تو وہ ان سے کہیں گے کہ ’لوگوں کے مستقبل کو تباہ کرنا بند کریں۔ بس بہت ہو چکی۔‘

کئی دوسرے مریضوں نے بھی مجھے یہی بتایا کہ انھیں اس عمل کے بعد پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑا، جس میں آنکھ میں کچرا جمع ہونا بھی شامل ہے۔

میں نے امریکہ میں جن مریضوں سے بات کی ان سب کو اس علاج کے بارے میں ایک سرکاری ویب سائٹ ’کلینیکل ٹرائلز ڈاٹ گوو‘ سے معلوم ہوا تھا۔

اس ویب سائٹ پر چار لاکھ سے زیادہ ایسی ادوایات اور طریقہ علاج کی فہرست موجود ہے جن پر ٹرائلز یا تجربات ہو رہے ہیں، لیکن آپ کو بالکل معلوم نہیں ہوتا کہ کون سی دوا یا علاج منظور ہو چکا ہے کون سا نہیں۔

محض ایک مختصر ڈسکلیمر صارفین کو بتاتا ہے کہ ’اس سائٹ پر موجود کسی بھی تحقیق (تجرباتی دوا یا علاج) کو درج کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ امریکی وفاقی حکومت نے اس کا جائزہ لے لیا ہے۔‘

لہٰذا امید کی کرن تلاش کرنے والے مریضوں کے پاس اس بارے میں بہت کم رہنمائی رہ جاتی ہے کہ آیا وہ کسی منظور شدہ تجربے میں شامل ہو رہے ہیں یا نہیں۔

مجھے یہ یقین کرنے میں بہت مسئلہ ہو رہا تھا کہ امریکہ میں بیٹھا ہوا ایک ڈاکٹر کھلے عام کوئی ایسا آپریشن کیسے کر سکتا ہے جس کا کوئی سائنسی ثبوت نہ ہو۔ لہٰذا میں نے اس گفتگو کی ریکارڈنگ آنکھوں کے امراض کے تین پروفیسروں کو سنائی۔

آنکھ

،تصویر کا کیپشن

احمد فاروقی کہتے ہیں کہ علاج کے بعد ان کی بائیں آنکھ میں بینائی ختم ہو چکی ہے

یہ ریکارڈنگ سن کر میامی کے باسکام پامر آئی انسٹیٹیوٹ کے ڈاکٹر بائرن لام نے ڈاکٹر لیوی کے دعوؤں کو ’واقعی پاگل پن‘ قرار دیا اور کہا کہ انھیں یقین نہیں ہے کہ اس خیال میں کوئی سائنسی صداقت ہے کہ ہڈیوں کے گودے کے سٹیم سیلز کے انجکشن لگانے سے اس مرض کا علاج ہو سکتا ہے۔

اسی طرح باسکام پامر آئی انسٹیٹیوٹ سے تعلق رکھنے والے ایک اور ڈاکٹر تھامس البینی نے ان دعوؤں کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ان کے لیے بھی اس پر یقین کرنا انتہائی مشکل ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس نام نہاد طریقہ علاج میں ’بے ہوشی کے خطرات ہیں، ہڈیوں کے گودے کی بائیوپسی کے خطرات ہیں اور آنکھوں کے لیے بھی اس میں یقینی خطرات موجود ہیں۔‘

تیسرے ماہر امراض چشم، آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر رابرٹ میک لارن کا کہنا تھا کہ ’یہ کلینیکل ٹرائل درست نہیں ہے۔ یہ ایک بہت ہی پریشان کن علاج ہے جو ممکنہ طور پر مریضوں کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے اور اسے روکنے کی ضرورت ہے۔‘

اس کے بعد جب میں نے ڈاکٹر لیوی کو بتایا کہ میں ایک صحافی ہوں جو اس علاج کی تحقیقات کر رہا ہے اور ڈاکٹر جیفری ویس کا انٹرویو کرنے کی درخواست کی تو ڈاکٹر لیوی نے جواب میں لکھا کہ ’میں ایک دھوکہ باز شحص ہوں۔‘

انھوں نے لکھا کہ ’ہماری تحقیق کو نقصان پہنچا کر آپ جو چند لمحوں کی شہرت حاصل چاہتے ہیں اس کی کوئی حد نہیں ہے۔‘

’آپ اپنے خاندان اور ان لاکھوں لوگوں کے لیے کلنک کا ٹیکہ ہیں جو آنکھوں کےاس لاعلاج مرض کا شکار ہیں۔‘

’نیک خواہشات، سٹیون لیوی، ایم ڈی۔‘

میں ان کا جواب پڑھ کر حیران ہو گیا کہ یہ سب کچھ امریکہ جیسے انتہائی منظم ملک میں کیسے ممکن ہے، خاص طور پر جب دونوں ڈاکٹروں کے طریقوں کے بارے میں اتنے خدشات پائے جاتے ہیں۔

سنہ 2021 میں امریکن اکیڈمی آف اوپتھالمولوجی نے اس ٹرائل کے طریقہ کار کی تحقیقات کے بعد ڈاکٹر جیفری ویس کی رکنیت مستقل طور پر ختم کر دی۔

یہ تنظیم اس نتیجے پر پہنچی کہ اس تحقیق میں ان قواعد کی خلاف ورزی کی گئی ہے جن کا مقصد عوام کو ’جھوٹی، غلط اور گمراہ کن معلومات‘ فراہم کرنے اور ’لوگوں میں غلط توقعات‘ پیدا کرنے سے روکنا ہے۔

لیکن میڈیکل کے شعبے میں غفلت کے مقدمے لڑنے والے ایک وکیل اینڈریو یافا نے مجھے بتایا کہ مروجہ قواعد کی خلاف ورزی کے باوجود دونوں ڈاکٹروں کو علاج سے روکنا مشکل کام ہے۔

آنکھ

،تصویر کا کیپشن

ایک ویڈیو میں ڈاکٹر جیفری ویس کا کہنا تھا کہ وہ ایک ’لاعلاج مرض کا علاج‘ کر رہے ہیں

مسٹر یافا کے بقول ان سے 15 سے زیادہ ایسے مریضوں نے رابطہ کیا تھا جو ان ڈاکٹروں کے خلاف مقدمہ کرنا چاہتے تھے جو اس طریقہ علاج پر کاربند تھے۔ لیکن مسٹر یافا نے ان افراد کو بتایا کہ ریاست فلوریڈا میں اس قسم کا مقدمہ کرنا ایک پیچیدہ اور مہنگا کام ہے۔

’کیونکہ اس علاج سے پہلے بھی مریضوں کی نظر بری طرح متاثر ہو رہی تھی، اس لیے عدالت سے اتنا زیادہ ہرجانہ نہیں ملے گا کہ جس سے مقدمے پر اٹھنے والے اخراجات پورے ہو سکیں۔‘

مسٹر یافا کے مطابق ریاست فلوریڈا میں اگر آپ کسی شخص کو اپنے گھر کے باغ کی گھاس کاٹنے کے لیے بلاتے ہیں اور وہ کام ٹھیک نہیں کرتا تو آپ کو اس رقم سے زیادہ انشورنس مل جاتی ہے جو کسی ڈاکٹر کے خراب آپریشن کرنے کے ہرجانے میں ملتی ہے۔

امریکہ میں کلینیکل ٹرائلز کی نگرانی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) کا ادارہ کرتا ہے اور مجھے لگتا تھا کہ ڈاکٹر لیوی کے ساتھ میری گفتگو کی وجہ سے ڈاکٹر لیوی کو ادارے کے قوائد و ضوابط کی خلاف ورزی کا مرتکب پایا گیا ہو۔ لیکن مسٹر یافا کہتے ہیں کہ اس ادارے کے پاس عملے کی کمی ہے اور اس کے قوائد و ضوابط بھی زیادہ واضح نہیں ہیں۔

جب میں نے ایف ڈی اے سے ڈاکٹر جیفری اور ڈاکٹر لیوی کے بارے میں سوال کیے تو ادارے نے ان سوالات کے جواب نہیں دیے۔

تاہم ایک بیان میں ادارے کا کہنا تھا کہ ایسی کمپنیاں جو سیل تھیراپی کے حوالے سے غیر مصدقہ دعوے کر رہی ہیں وہ ’ان لوگوں کے ساتھ زیادتی کر رہی ہیں جو اس میدان میں زیادہ محفوظ طریقہ علاج دریافت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘

ایف ڈی اے کا مزید کہنا تھا کہ ایسی سیل تھیراپیز جو ابھی تک ثابت نہیں ہوئیں اور حکومت نے ان کی منظوری نہیں دی وہ نہ صرف ’بہت غیر محفوظ ہیں بلکہ ان کی وجہ سے آنکھوں کے مریض انفیکشنز، نابینا پن اور موت کا شکار ہو سکتے ہیں۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ