تارکین وطن کی بڑی تعداد کینیڈا کا انتخاب کیوں کر رہی ہے؟

canada border

،تصویر کا ذریعہELOISE ALANNA/BBC

،تصویر کا کیپشن

پناہ کے متلاشی تارکین وطن سخت سردی کے موسم میں کینیڈا کی سرحد پر پہنچ رہے ہیں

  • مصنف, نادین یوسف
  • عہدہ, بی بی سی نیوز، مونٹریال

گذشتہ برس چالیس ہزار تارکین وطن افراد نے پناہ کے لیے کینیڈا کی سرحدوں سے اس کی سرزمین پر قدم رکھا۔

ان میں سے بعض تارکین وطن اس خیال سے کینیڈا کا رخ کر رہے ہیں کہ کینیڈا کا امریکہ کے مقابلے میں تارکین وطن کے ساتھ رویہ نرم ہے۔

تاہم کیا کینیڈا اس تارکین وطن افراد کی بڑھتی تعداد سے نمٹ سکتا ہے۔

سردی کے موسم میں راکسم روڈ بہت خاموش اور ٹھنڈی ہوتی ہے۔ یہ خاموشی برف پر چلتی ہوئی گاڑی کے ٹائروں سے اٹھنے والی آواز سے ٹوٹ جاتی ہے۔

یہاں ہر روز 150 تارکین وطن کو لایا جاتا ہے جو پیدل چل کر کینیڈا کی سرزمین پر پاؤں رکھنا چاہتے ہیں۔ ان میں سے کئی افراد نے اپنا سفر برازیل سے شروع کیا اور پھر نیویارک تک پہنچے۔

روکسم روڈ سرکاری سرحدی مقام نہیں ہے۔ یہاں کوئی سرحدی ایجنٹ نہیں ہے۔ یہاں صرف پولیس افسران ہیں جو سرحد پار کرنے والوں کو گرفتار کرتے ہیں۔

تاہم یہ پناہ کے متلاشی افراد کے لیے امریکہ سے کینیڈا میں داخل ہونے کے لیے ایک مقبول مقام کے طور پر جانا جاتا ہے۔

گذشتہ برس تارکین وطن کی بڑی تعداد اسی راستے سے ہی کینیڈا میں داخل ہوئی۔ تارکین وطن کی کینیڈا پہنچنے کی وجہ کینیڈا کی وہ ساکھ ہے کہ وہ جنگ اور تنازعات سے متاثرہ افراد کے لیے نرم رویہ رکھتا ہے۔

سرحد کے دونوں جانب راکسم روڈ سے تارکین وطن کی آمد اور اس راستے پر آنے والوں کے مستقبل کے حوالے سے مایوسی میں اضافہ ہوا ہے۔

راکسم روڈ 2017 میں قومی توجہ کا مرکز بنی تھی جب پناہ کے متلاشی افراد کی بڑی تعداد نے اس روڈ پر سفر کرنا شروع کیا تھا۔

کچھ لوگوں کے خیال میں تارکین وطن افراد میں کینیڈا کی اچانک مقبولیت ٹرمپ انتظامیہ کے زمانے میں امریکہ سے تارکین وطن افراد کو ملک بدر کرنے کے خوف کی وجہ سے ہوئی۔

کچھ لوگ وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کی ایک ٹویٹ کو بھی اس کا ذمہ دار قرار دیتے جس میں کہا گیا تھا کہ کینیڈا ظلم، دہشت گردی اور جنگ سے فرار ہونے والوں کا خیر مقدم کرے گا۔

تارکین وطن افراد میں کینیڈا کی مقبولیت نے کنیڈین حکام کو چوکنا کر دیا ہے۔

مونٹریال کے اولمپک سٹیڈیم کو نئے آنے والے تارکین وطن افراد کے لیے رہائش گاہ میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔

وفاقی حکومت نے تارکین وطن کی اس لہر کو روکنے کی غرض سے انتباہ دیا ہے کہ کینیڈا پہنچنا وہاں رہنے کی ضمانت نہیں۔

کووڈ کی وبا کے دوران وفاقی حکومت کی طرف سے نافذ کردہ ہنگامی صحت کے اقدامات کے تحت راستہ بند کر دیا گیا ہے لیکن محفوظ پناہ گاہ کا مطالبہ کبھی ختم نہیں ہوا۔

canada border

،تصویر کا کیپشن

کینیڈا کی سرحد پر پہنچنے والے تارکین وطن کو بتایا جاتا ہے کہ انھیں گرفتار کر لیا جائے گا

کووڈ وبا کے دوران اٹھائے گئے اقدامات جو تقریباً 16 ماہ قبل اٹھائے گئے تو ہزاروں پناہ گزینوں نے کینیڈا کا رخ کیا۔

ان میں سے زیادہ تر کا تعلق ہیٹی سے ہے جو حالیہ مہینوں میں سیاسی اور پرتشدد واقعات کا شکار رہا ہے۔

وینزویلا اور کولمبیا جیسے لاطینی امریکی ممالک یا افغانستان جیسے دور دراز علاقوں سے آنے والے لوگوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

اس کے ساتھ ہی بائیڈن انتظامیہ نے ٹرمپ دور کی وبائی پالیسیوں میں توسیع کر دی ہے، جنھیں امریکہ اور میکسیکو کی سرحد پر تارکین وطن کو روکنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔

کیوبیک میں بی بی سی سے بات کرنے والے تارکین وطن کا کہنا تھا کہ وہ امریکہ کو پناہ کے لیے اچھا ملک کے طور پر نہیں دیکھتے، جہاں پناہ کی درخواستوں پر فیصلے میں کئی سال لگ جاتے ہیں اور انھیں محسوس ہوتا ہے کہ ان کی آمد کو پسند نہیں جاتا ہے۔

جوشوا (فرضی نام) کرسمس سے دو روز بعد مونٹریال پہنچے ہیں اور ایک تارکین وطن کے ساتھ کرائے کے فلیٹ میں رہائش پذیر ہیں۔ انھیں اپنی پناہ کی درخواست کو سننے جانے کا انتظار ہے۔

وینزویلا کے شہری جوشوا پانچ برسوں سےچلی میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے، جب انہوں نے کینیڈا جانے کا فیصلہ کیا۔

جوشوا کا کہنا تھا کہ ‘دیگر ممالک غیر قانونی تارکین وطن کے ساتھ اتنے دوستانہ نہیں ہیں، لیکن کینیڈا نے ان کا خیر مقدم کیا ہے۔‘

پناہ گزینوں کی آمد کے پیچھے امریکہ کے ساتھ بیس سال پرانا معاہدہ ہے جس کا نام ’سیف تھرڈ کنٹری ایگریمنٹ‘ ہے جس کے تحت تارکین وطن کو اپنے پہلے ‘محفوظ’ ملک میں پناہ کے لیے درخواست دینا ہوتی ہے۔

اس معاہدے کی روز امریکہ سے کینیڈا آنے والے تارکین وطن کو سرحد سے ہی واپس بھیج دیا جائے گا لیکن روکسم روڈ ایک غیر سرکاری راستہ ہے اور پناہ کےمتلاشی اسی خامی کو استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے روکسم روڈ کی گزر گاہ کو بند کرنے کے مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ کے ساتھ ہزاروں کلومیٹر طویل سرحد ہے جس کی نگرانی نہیں کی جاتی ہے۔ انھوں نے کہا اس کراسنگ کو بند کرنا بیکار ہوگا اور تارکین وطن خطرناک راستوں کے ذریعے کینیڈا کی سرزمین پر پہنچنے کی کوشش کریں گے۔

جوشوا

،تصویر کا ذریعہELOISE ALANNA/BBC

،تصویر کا کیپشن

جوشوا جیسے تارکین وطن کے لیے کینیڈا آخری محفوظ جگہ ہے.

وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کی توجہ ’سیف تھرڈ کنٹری ایگریمنٹ‘ پر نئے سرے سے بات چیت پر مرکوز ہے۔

توقع ہے کہ وہ اس ہفتے کے آخر میں صدر بائیڈن کے کینیڈا کے دورے کے دوران اس مسئلے کو اٹھائیں گے۔

تاہم وزیراعظم پر دباؤ ہے کہ وہ تارکین وطن کی غیر قانونی آمد کو روکنے کے لیے اقدامات اٹھائیں کیونکہ نئے آنے والوں نے شہری سہولیات کو متاثر کیا ہے خاص طور پر کیوبیک میں، جہاں بہت سے تارکین وطن آباد ہیں۔

کیوبیک کے وزیراعظم فرانسوا لیگولٹ نے صوبے کی صورتحال کو غیر مستحکم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ سماجی خدمات کو ’تباہی کے دہانے پر دھکیل دیا گیا ہے‘ اور اس کے نتیجے میں کچھ تارکین وطن کو بے گھری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

تارکین وطن کی پناہ کی درخواستوں میں اضافے کی وجہ سے پناہ کی درخواستوں پر فیصلوں میں تاخیر ہو رہی ہے۔

جنوری 2022 میں تارکین وطن افراد کی درخواستوں کی کل تعداد 56،300 تھی جو دسمبر تک 71،000 ہو گئی ہے یعنی اس میں 26 فیصد اضافہ۔

تارکین وطن افراد کی درخواستوں پر کارروائی میں اب دو سال تک کا وقت لگ سکتا ہے۔ گذشتہ سال پناہ کی 28 فیصد درخواستوں کو مسترد کردیا گیا تھا، جس کا مطلب ہے کہ کینیڈا میں پہنچنا وہاں پناہ کی ضمانت نہیں ہے۔

ورک پرمٹ کے لیے بھی طویل انتظار کرنا پڑتا ہے۔

ایک نئے پناہ گزین کے لیے سوشل انشورنس نمبر حاصل کرنے میں ایک ہفتہ لگتا تھا۔

مونٹریال میں نئے آنے والوں کی مدد کرنے والی تنظیم ویلکم سینٹر میں کام کرنے والی میریز پوسن کا کہنا ہے کہ اب شناختی کارڈ کی دستاویز کے لیے ملاقات کا انتظار تقریباً دو سال ہے۔

وکیلوں نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ تارکین وطن افراد کی درخواستوں پر فیصلے میں تاخیر کے نتیجے میں بہت سے تارکین وطن افراد کو اپنی ضروریات پوری کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے اور فوڈ بینکس اور وہ دیگر سماجی امداد تک رسائی حاصل کر رہے ہیں۔

مونٹریال سے تعلق رکھنے والی امیگریشن کی وکیل سوزین ٹافوت کا کہنا ہے کہ ’ان میں سے کچھ ایسے حالات میں ہیں جہاں ان کا استحصال ہو رہا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم واقعی فکرمند ہیں کہ سب سے زیادہ کمزور افراد، جن کو ٹراما ہے، جن کو مقامی زبان پر عبور نہیں، انھیں وہ مدد نہیں ملتی جس کی انھیں ضرورت ہے۔‘

امریکی سرحدی ایجنٹوں نے کینیڈا سے واپس آنے والے لوگوں کی تعداد میں اضافہ نوٹ کیا ہے۔

جنوری میں امریکی بارڈر پٹرول نے شمال سے جنوب کی طرف جانے کی کوشش کرنے والے 367 افراد کو گرفتار کیا تھا جو گذشتہ 12 سالوں میں اس طرح کے کراسنگ کی مجموعی تعداد سے زیادہ ہے۔

اس کے بعد سے ریپبلکن قانون سازوں نے شمالی سرحد پر پیدا ہونے والے ’بحران‘ کے بارے میں بات کی ہے۔

مونٹریال میں پناہ گزینوں کے ساتھ کام کرنے والے افراد کا کہنا ہے کہ واپس آنے والے کچھ افراد نے کینیڈا میں کام نہ ملنے یا اہل خانہ سے ملاقات نہ ہونے کی وجہ سے ایسا کیا ہے۔

 Tyler Tambini

،تصویر کا ذریعہELOISE ALANNA/BBC

،تصویر کا کیپشن

ٹیکسی ڈرائیو ٹائلر تمبینی کا کہنا ہے کہ وہ اکثر لوگوں کو پلیٹسبرگ بس اسٹیشن سے سرحد تک لے جاتے ہیں

کینیڈا میں بڑھتے ہوئے چیلنجز کے باوجود، تارکین وطن ریکارڈ تعداد میں کینیڈا کی سخت سردی میں راکسم روڈ کو عبور کر رہے ہیں۔

نیو یارک میں ٹیکسی ڈرائیورز ٹیری پرووسٹ اور ٹائلر تمبینی کا کہنا ہے کہ وہ اکثر لوگوں کو پلیٹسبرگ بس سٹیشن سے سرحد تک لے جاتے ہیں۔

مسٹر پرووسٹ نے افغانستان سے ایک پناہ گزین کو ٹیکسی سے اتارتے ہوئے کہا ’اس آدمی کے پاس پیسے نہیں تھے۔ یہ ایک موٹل میں مسلسل انتظار کر رہے تھے۔‘

جب تارکین وطن سرحد عبور کرتے ہیں تو رائل کینیڈین ماؤنٹڈ پولیس کے ارکان ان کا استقبال کرتے ہیں، جو انھیں متنبہ کرتے ہیں کہ اگر وہ آگے بڑھتے ہیں تو انھیں گرفتار کر لیا جائے گا۔

سنہ 2017 کے بعد سے کینیڈا کی سرحد کا حصہ ایک چھوٹے سے پولیس کمپاؤنڈ میں تبدیل ہو چکا ہے، جس میں پار کرنے والوں کو پراسیس کرنے کے لیے ٹریلرز اور بسیں موجود ہیں جو نئے آنے والوں کو قریبی ہوٹلوں میں لانے کا انتظار کرتی ہیں۔

مسٹر پرووسٹ نے کہا کہ انھوں نے لوگوں کو آخری قدم اٹھانے سے پہلے ہچکچاتے ہوئے دیکھا ہے۔ انھیں یقین نہیں ہوتا کہ ان کے ساتھ کیا ہو گا۔

تاہم جوشوا جیسے تارکین وطن کے لیے، کینیڈا آخری محفوظ جگہ ہے۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’امریکی خواب کئی سال پہلے دم توڑ گیا تھا۔ مونٹریال میرا نیا گھر ہے۔ میرا واحد گھر ہے۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ