عالمی سطح پر بینک دیوالیہ کیوں ہو رہے ہیں اور کیا ہم نئے عالمی مالیاتی بحران کے قریب جا رہے ہیں؟

ڈالر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

دنیا کی بڑی مالیاتی کارپوریشنز مشکل میں ہیں۔ مختلف ممالک کے مرکزی بینک جو دیوالیہ ہو جانے والے چھوٹے بینکوں کو مشکل سے نکالنے کے لیے سامنے آ رہے ہیں، وہ خود گرداب میں پھنسے نظر آتے ہیں جبکہ دنیا میں سٹاک مارکیٹوں کی صورتحال بہت غیرمستحکم ہے۔ کیا آپ کو یہ سب سنا سنایا لگ رہا ہے؟

موجودہ صورتحال نے بہت سے لوگوں کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ کیا ہم سنہ 2008 میں آنے والے عالمی معاشی بحران جیسی صورتحال سے دوبارہ دوچار ہونے کے قریب آ رہے ہیں۔

اگرچہ امریکہ اور یورپ میں سیاسی رہنما اور مرکزی بینک یہ یقین دلوا رہے ہیں کہ اُن کا مالیاتی نظام مضبوط اور مستحکم ہے مگر حالیہ دنوں میں عالمی سطح پر سرمایہ کاروں میں گھبراہٹ کے آثار واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں جس کی وجہ سے دنیا بھر کی سٹاک مارکیٹوں میں بطور خاص بینکنگ سیکٹر کے حصص میں شدید قسم کے اُتار چڑھاؤ نظر آ رہا ہے۔

تو یہ صورتحال کتنی سنگین ہے اور یہ آپ کو کیسے متاثر کر سکتی ہے؟

یو ایس بی اور کریڈٹ سوئس کا انضمام

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

یو ایس بی اور کریڈٹ سوئس کا انضمام

بینکوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟

سوئس حکومت کی حمایت کے ساتھ انوسٹمنٹ بینکنگ کمپنی ’یو بی ایس‘ نے اتوار کو کریڈٹ سوئس کی ذمہ داری سنبھال لی ہے۔ یہ دونوں بڑی بینکنگ کارپوریشنز ہیں جو دنیا بھر میں سرمایہ کاری کے کام کرتی ہیں۔

سوئس بینکنگ اپنے مالی استحکام کے لیے مشہور ہے، اس لیے کریڈٹ سوئس کے خاتمے اور یو بی ایس کے ساتھ اس کے جبری انضمام نے یورپی ملک کے اندر اور باہر لوگوں کو حیران کیا ہے۔

خیال رہے کہ اس سے قبل دو امریکی بینکوں، سلیکون ویلی بینک (ایس وی بی) اور کور سگنیچر بینک کے دیوالیہ ہونے کے بعد عالمی سطح پر گھبراہٹ میں مزید اضافہ ہوا تھا۔ یہ دونوں امریکی بینک ٹیکنالوجی کے شعبے میں سرمایہ کاری کے لیے مہارت رکھتے ہیں۔

اگرچہ سنہ 2008 کے بعد سے امریکہ میں دونوں بینک کا دیوالیہ ہونا بینکنگ کے شعبے میں بڑی ناکامیاں ہیں تاہم یہ دونوں کسی بھی طرح کریڈٹ سوئس کے سائز کے قریب کہیں بھی نہیں تھے، جو کہ دنیا کے 30 بڑے بینکوں میں سے ایک ہے۔

اگرچہ مذکورہ بینکوں کے علاوہ کوئی اور ادارہ دیوالیہ نہیں ہوا ہے تاہم مرکزی بینکوں میں خطرے کی گھنٹی بجنے لگی ہے جس کے باعث مالیاتی لین دین کے معمول کے کام کو یقینی بنانے کے لیے اضافی لیکویڈیٹی فراہم کرنے کے نئے اقدامات کا اعلان کیا ہے اور ایسا گذشتہ 23 برسوں میں صرف دو بار ایسا کیا ہے۔ پہلی بار سنہ 2008 کے مالی بحران کے دوران اور پھر وبائی امراض کووڈ کے آغاز میں۔

اس کا مقصد لوگوں کا اعتماد بڑھانا اور اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ بینک اب بھی صارفین کو قرضہ دے سکیں اور ان صارفین کی ادائیگی کر سکیں جو اپنی رقم بینکوں سے نکالنا چاہتے ہیں۔

ایس وی بی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ایسا کیوں ہو رہا ہے؟

کریڈٹ سوئس کے مسائل بہت پہلے سے چلے آ رہے ہیں جن میں سالوں سے جاری رسک مینجمنٹ کی غلطیوں سے لے کر منی لانڈرنگ جیسے سکینڈلز شامل ہیں جبکہ گذشتہ سال ہونے والے بھاری نقصانات نے پچھلے سالوں میں ہونے والے منافع کو ضائع کر دیا ہے۔

لیکن پچھلا ہفتہ انتہائی اہم تھا کیونکہ سوئس نیشنل بینک کی طرف سے فراہم کردہ 50 بلین ڈالر کی ہنگامی امداد کے باوجود بینک نے خود کو اچانک نیچے کی طرف جاتے دیکھا، اور اس کے کلائنٹس نے اپنے فنڈز کو دوسرے بینکوں میں منتقل کرنا شروع کر دیا۔

جبکہ اس سے قبل دیوالیہ ہونے والے دونوں امریکی بینکوں کے اپنے الگ ہی مسائل تھے۔

یہ عجیب بات تھی کہ وہ اثاثہ جو ایس وی بی کے لیے انتہائی محفوظ سمجھا جاتا تھا اسی نے اس کے لیے سنگین مسائل پیدا کیے۔

سالوں کی کم شرح سود کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ادارے نے بڑے پیمانے پر امریکی ٹریژری بانڈز خریدے۔

فیڈرل ریزرو (فیڈ، امریکی مرکزی بینک) کی طرف سے حالیہ مہینوں میں رقم کی قیمت میں اچانک اضافے نے بانڈز کی قدر کو کم کر دیا۔

چنانچہ بینک کو اپنے کلائنٹس کی رقم کو واپس کرنے کی ضمانت کے لیے لیکویڈیٹی حاصل کرنے پر مجبور ہونا پڑا، خاص طور پر ٹیکنالوجی کمپنیاں جو 2021 کے بلبلے کے بعد اس شعبے میں آنے والے بحران سے متاثر ہوئیں، اور صارفین کی ادائیگی کے لیے اسے اپنے بانڈز کا ایک بڑا حصہ خسارے میں اور مقررہ تاریخ سے پہلے ہی فروخت کرنا پڑا۔

شرح سود میں اضافہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

شرح سود میں اضافہ

جہاں تک سگنیچر بینک کا سوال ہے تو وہ کرپٹو کرنسیوں کی قدر میں حالیہ گراوٹ کی وجہ سے زیادہ متاثر ہوا۔

دونوں امریکی بینکوں نے پایا کہ ان کی بیلنس شیٹ اتنی مضبوط نہیں رہیں کہ وہ اپنے صارفین کے ذریعے جمع کیے جانے والے رقم کی ادائیگی کو برداشت کر سکیں۔

لیکن ایک عام فیکٹر بھی ہے جو کہ کریڈٹ سوئس سمیت تینوں اداروں کو متاثر کرتا ہے اور یہ عمومی طور پر بینکنگ سیکٹر میں آنے والے شرح سود میں تیزی کے ساتھ ہونے والا اضافہ ہے۔

دنیا بھر کے مرکزی بینکوں نے مسلسل مہنگائی کو روکنے کی کوششوں میں کرنسی کی قیمت میں اضافہ کیا ہے، جو کئی ممالک میں دوہرے ہندسوں میں اور دہائیوں میں اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔

سالوں کی کم شرح سود کے بعد، یہ اضافہ بڑے صدمے کے طور پر سامنے آیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

وہ بینک جن کے پاس سرکاری بانڈز ہیں ان کی قیمتیں شرح سود میں اضافے کی وجہ سے گر گئی ہیں اور اس طرح انھیں اچانک پتہ چلا کہ ان کے اثاثوں کی قیمت کم ہو گئی ہے۔

بی بی سی کے فنانس ایڈیٹر سائمن جیک نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ شرح سود میں اضافے نے ‘ان سب سے محفوظ سرمایہ کاری کی قدر کو بھی متاثر کیا ہے جس میں بینک اپنی کچھ رقم رکھتے ہیں۔ اس نے سرمایہ کاروں کو خوفزدہ کر دیا ہے اور تمام بینکوں کے حصص کی قیمتوں کو گرا دیا ہے، جس سے بینکوں کو بہت زیادہ نقصان پہنچا ہے۔’

وال سٹریٹ پر سب سے بڑی بینکنگ کارپوریشنوں کو سان فرانسسکو میں واقع ٹیکنالوجی کے شعبے میں مہارت رکھنے والے ایک اور بینک فرسٹ ریپبلک کے بچاؤ کے لیے لیکویڈیٹی فراہم کرنی پڑی ہے۔

اور فیڈرل ریزرو نے اعتراف کیا ہے کہ عام طور پر امریکی بینکوں کو ہنگامی قرض دینے میں اضافہ ہوا ہے۔

بینکنگ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

کیا یہ بینکنگ کا بحران ہے؟

تجزیہ کار اس بات پر متفق ہیں کہ جس مسئلے نے سنہ 2008 میں پورے بینکنگ سسٹم کو متاثر کیا تھا وہ آج موجود نہیں ہے۔

اس وقت، دنیا بھر کے بینکوں کو اچانک پتہ چلا کہ وہ امریکی ریئل سٹیٹ مارکیٹ میں ناکام سرمایہ کاری کا شکار ہیں۔

اس کی وجہ سے حکومت کو بڑے بیل آؤٹ کرنے پڑے، مالیاتی بحران پیدا ہوا اور عالمی معاشی بدحالی سامنے آئی۔

اس کے بعد سے بینکوں کو زیادہ لیکویڈیٹی رکھنے اور اس قسم کے خطرے کو محدود کرنے پر مجبور کرنے کے لیے ضوابط نافذ کیے گئے ہیں۔

زیادہ تر ماہرین کا خیال ہے کہ موجودہ مسائل کا محدود اثر پڑے گا۔

نوبل انعام یافتہ پال کرگمین نے رواں ہفتے ایک کالم میں کہا کہ ’یہ سنہ 2023 ہے، سنہ 2008 نہیں ہے۔ ہم شاید سلسلہ وار باقاعدہ مالیاتی بحران نہیں دیکھ رہے ہیں۔‘

اس کے باوجود، بینکنگ کی دنیا انتہائی پیچیدہ ہے اور نظام میں نئی کمزوریوں کی نشاندہی کرنا مشکل ہے۔ جیسا کہ موجودہ شرح سود اور سرمایہ کاروں کے اعتماد میں اتار چڑھاؤ کی موجودہ صورتحال میں دیکھا جا رہا ہے۔

اس کے علاوہ بینکوں کی صحت کے بارے میں گھبراہٹ اکثر متعدی ہوتی ہے، اور اگر گاہک اپنی جمع پونجی کے بارے میں فکر کرنے لگیں تو وہ اپنے بینک کی ویب سائٹ یا ایپ سے صرف چند سیکنڈ میں اپنی رقم نکال سکتے ہیں۔

بہر حال اعتماد کے مکمل خاتمے کے بغیر بھی جو مالیاتی بحرانوں کی عکاسی کرتا ہے، ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ریگولیٹرز قوانین کو مزید سخت کر رہے ہیں اور بینک قرض دینے کے لیے بہت زیادہ تیار نہیں ہیں۔

یہ خاص طور پر اس حساس وقت میں عالمی معیشت کو سست کر سکتا ہے، جبکہ بڑھتی ہوئی قیمتیں صارفین کی جیبوں پر اضافی دباؤ ڈال رہی ہیں۔

پیسے

،تصویر کا ذریعہGetty Images

میرے پیسوں کا کیا ہو گا؟

کم از کم امریکہ اور یورپ میں شہریوں کو اپنی بچت کے متعلق خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے۔

یہاں تک کہ کسی بینک یا بلڈنگ سوسائٹی کے ناکام ہونے کے غیر معمولی منظر نامے میں بھی، ان کی جمع پونجی کے لیے تحفظ موجود ہے۔

امریکی حکومت ڈھائی لاکھ ڈالر تک کے تمام بینک ڈپازٹس کی واپسی کی ضمانت دیتی ہے۔

امریکہ میں اثاثوں کا تحفظ مختلف قسم کی مصنوعات کا احاطہ کرتا ہے، چیکنگ اور سیونگ اکاؤنٹس سے لے کر پری پیڈ کارڈز اور ڈیپازٹ کے سرٹیفکیٹس تک۔

ایس وی بی اور سگنیچر بینک کے معاملے میں امریکی حکومت نے ایک اور قدم آگے بڑھایا اور ڈھائی لاکھ ڈالر تک کے ڈیپازٹس کی مکمل ضمانت دی، لیکن 250,000 ڈالر کی حد سے زیادہ پر اس طرح کی گارنٹی نہیں ہے۔ اور اگر مستقبل میں کوئی دوسرا بینک ناکام ہو جاتا ہے تو شاید ہی وہ دوبارہ ایسا کرے۔

دوسری جناب یورپی یونین میں ایک لاکھ یورو کی رقم پر ڈیپازٹ پروٹیکشن ہے جبکہ برطانیہ میں یہ 85 ہزار پاؤنڈ تک کی رقم پر حاصل ہے۔

دوسری طرف بہت سے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ موجودہ بحران کے دوسرے نقصانات تو ہو سکتے ہیں لیکن زیادہ منفی اثرات نہیں ہوں گے۔

بی بی سی کی بزنس نامہ نگار دھرشینی ڈیوڈ کہتی ہیں کہ ’مارکیٹ کی ہلچل کے نتائج زندگی کے بڑھتے اخراجات کے اثرات کو کم کر سکتے ہیں۔‘

مز ڈیوڈ نے خاص طور پر تیل اور گیس کی قیمتوں میں کمی کا ذکر کیا جو گذشتہ چند ہفتوں کی ہنگامہ خیزی کے دوران دیکھی گئی ہے، جس سے صارفین کی جیب پر بار کچھ کم ہوا ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ