جمعہ9؍ شوال المکرم 1442ھ21؍مئی 2021ء

فرانس اپنی ڈبل روٹی کو عالمی ثقافتی ورثے میں کیوں شامل کروانا چاہتا ہے؟

بیگیٹ: فرانس اپنی ڈبل روٹی کو عالمی ثقافتی ورثے میں کیوں شامل کروانا چاہتا ہے؟

بیگیٹ

،تصویر کا ذریعہEPA

جب آپ اقوام متحدہ کے عالمی ثقافتی ورثے کا درجہ حاصل کرنے والی چیزوں کا سوچتے ہیں تو سٹون ہنج، تاج محل، یا گریٹ بیریئر ریف کا خیال آتا ہو گا۔

عام طور پر لوگوں کے ذہن میں بیگیٹ (ایک لبمی شکل کی فرانسیسی روٹی) کا خیال نہیں آتا مگر فرانس نے اپنی اس مقبول روٹی کو اقوام متحدہ کے کلچرل ہیریٹیج رجسٹر میں شامل کیے جانے کے لیے نامزد کیا ہے۔

اس فہرست میں شامل ہونے اور یہ درجہ حاصل ہونے سے کسی بھی چیز کے حوالے سے پھر روایات، معلومات اور ہنر کو محفوظ کیا جاتا ہے تاکہ وہ وقت کے ساتھ غائب نہ ہو جائیں۔

فرانس میں ہر سال 10 ارب بیگیٹ کھائے جاتے ہیں مگر 1970 سے لے کر اب تک 20000 بیکریاں بند ہو چکی ہیں کیونکہ صارفین اب بڑی بڑی سپر مارکیٹوں میں شاپنگ کرنے لگے ہیں جہاں بیگیٹ روایتی انداز میں تیار نہیں کی جاتی۔

فرانسیسی بیکرز کا کہنا ہے کہ اس کو یہ درجہ دیے جانے سے یہ ہنر جو نسل در نسل چلا آ رہا ہے، محفوظ ہو جائے گا۔

یہ بھی پڑھیے

آٹھ بیکریوں کے مالک مائیکل ریڈلے نے خبر رساں ادارے روئٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ ٹائٹل ملنے سے موجودہ بیکرز کو ذہنی سکون ملے گا اور آئندہ نسلوں کی حوصلہ افزائی ہوگی۔‘

بیگیٹ

،تصویر کا ذریعہEPA

فرانس میں یہ خدشہ بڑھتا جا رہا ہے کہ فرانس کی بیکریوں میں روایتی انداز میں تیار کردہ اس بریڈ کی جگہ سپر مارکیٹوں میں بکنے والی بڑی بڑی فیکٹریوں میں اسمبلی لائنز پر تیار کردہ بریڈ نے لے لی ہے۔

روئٹرز سے بات کرتے ہوئے بیکر فیڈریشن کے صدر ڈومنیق انریکٹ کا کہنا تھا کہ ’بچے کو جو ہم پہلا کام کہتے ہیں وہ قریبی بیکری سے بیگیٹ لانا ہوتا ہے۔ ہم پر لازم ہے کہ ہم یہ روایات محفوظ رکھیں۔‘

ایران اور قازقستان کی فلیٹ بریڈ اور پیزا بنانے کا جنوبی اٹلی کا روایتی طریقہ پہلے ہی اقوام متحدہ کی عالمی ورثے کی فہرست پر ہے۔

فرانس کی جانب سے نامزد ہونے کے لیے بیگیٹ کا مقابلہ پیرس کی روایتی زنک کی بنی چھتوں اور ملک میں جورا خطے کے وائن فیسٹیول سے تھا۔ یونسکو کا فیصلہ 2022 کے آخر میں آنا ہے۔

یونسکو کی گذشتہ فہرست میں جنوبی کوریا کا لالٹین فسٹیول، فن لینڈ کا سؤئنا کلچر اور بوسنیا میں گھاس کانٹے کے مقابلے شامل کیے گئے تھے۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.