matromonial sites online sexy girl mett life thai men names asin video chinese girl sex male green eyes

بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

’عرب حکمران بہت کمزور ہیں لیکن معاشی بائیکاٹ سے انڈیا کو تکلیف ہوگی‘

آسام میں مسلمانوں کا قتل: عرب سوشل میڈیا پر آسام کی ویڈیو پر غم و غصہ اور انڈین مصنوعات کے بائیکاٹ کا مطالبہ

مظاہرہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ہمیں گذشتہ کچھ برسوں میں کئی مرتبہ مصنوعات کے بائیکاٹ کے ٹرینڈ دیکھنے کو ملے ہیں۔ ایسی مہم عام طور پر کسی ملک کے متنازع اقدام یا کسی مخصوص واقعے کے باعث چلائی جاتی ہے اور اب انھیں بطور ہتھیار استعمال کیا جانے لگا ہے۔

حالیہ عرصے میں فرانسیسی صدر ایمانوئل میخواں کے بیانات نے مسلمانوں کو ناراض کیا تھا جس کے بعد مسلمان ممالک خصوصاً عرب ممالک کی جانب سے فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم چلائی گئی تھی۔

اس وقت فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے کی مہم نے سوشل میڈیا کے ذریعے مقبولیت حاصل کی تھی۔

اسی طرح حالیہ عرصے میں امریکی ریاست ٹیکساس کی جانب سے اسقاطِ حمل مخالف قانون پاس کرنے پر ریاست پورٹ لینڈ نے اس کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے پر غور کرنا شروع کیا تھا۔ اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ سے متعلق مہم بھی گاہے بگاہے چلائی جاتی رہی ہے۔

ایسی ہی ایک مہم اس وقت عرب دنیا میں سوشل میڈیا پر انڈیا کی مصنوعات کے حوالے سے بھی چلائی جا رہی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ انڈیا کے صوبہ آسام میں ایک مسلمان شخص پر ہونے والے حملے کی ویڈیو اب دنیا بھر میں وائرل ہو چکی ہے۔

اس ویڈیو کے باعث سوشل میڈیا پر غم و غصہ پایا جاتا ہے اور خاص کر عرب ممالک میں انڈین مصنوعات کے بائیکاٹ کا مطالبہ کیا جا رہا ہے تاکہ انڈیا کو ‘مسلمانوں کا قتل بند کرنے’ پر مجبور کیا جائے۔

انڈیا میں سیاست دان اور انسانی حقوق کے کارکن حکومت پر اس تشدد میں ملوث ہونے کا الزام لگاتے آئے ہیں اور سوشل ڈیموکریٹک پارٹی نے اس معاملے میں حکومتی اقدامات کو ’نازی‘ قرار دیا ہے۔

ایسے میں عرب ممالک میں ہیش ٹیگ ’انڈیا مسلمانوں کا قتل کرتا ہے‘ بھی ٹرینڈ کرتا رہا ہے جس میں انڈیا پر نسل کشی کا الزام لگایا گیا۔ ان ٹرینڈز میں بہت سے لوگوں نے بے گھر خاندانوں کے لیے اپنی حمایت اور حکام کی جانب سے ان کے ساتھ سلوک کی مذمت کا اظہار کیا۔

کتاب ’اسلاموفوبیا‘ کے مصنف اور محقق خالد بیڈون نے اسے ’ریاستی حمایت یافتہ اسلاموفوبیا‘ اور ’ہندو قومی تشدد‘ کے طور پر بیان کیا۔

آسام میں بنائی گئی ویڈیو میں کیا ہے؟

آسام کی حکومت نے گزشتہ چند مہینوں سے کچی بستیوں کو خالی کرانے کی مہم چلا رکھی ہے۔

حکومت وہاں مقیم افراد کو ‘درانداز’ کہتی ہے۔ اس طرح کے لاکھوں بے زمین اور غریب لوگ آسام کے مختلف شہروں میں جگہ جگہ آباد ہیں۔

ایسی ہی ‘غیر قانونی تجاوزات’ کے خلاف حکومتی کارروائی کے دوران ضلع درانگ کے علاقے سیپا جھار میں گذشتہ ہفتے ہونے والے تصادم میں ہلاک ہونے والے شخص کی لاش کی بےحرمتی کی ویڈیو منظر عام پر آئی اور پھر اس حوالے سے سوشل میڈیا پر شدید مذمت بھی کی گئی۔

یہ بھی پڑھیے

بی بی سی ہندی کے مطابق جھونپڑیوں پر مشتمل اس بستی کے ہزاروں لوگوں نے زمین خالی کرانے کی اس مہم کے خلاف مزاحمت کی تھی اور اس موقع پر پولیس کی فائرنگ سے دو افراد ہلاک اور کئی زخمی ہوگئے تھے۔

ہلاک ہونے والوں کی شناخت صدام حسین اور شیخ فرید کے نام سے ہوئی ہے۔

اس تصادم کی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ہاتھ میں کیمرا لیے ایک شخص ہلاک ہونے والے شخص کی لاش پر کود رہا ہے۔

عبداللہ

،تصویر کا ذریعہTwitter/@Abdulla_Alamadi

بعد میں سامنے آنے والی اطلاعات سے معلوم ہوا کہ کودنے والا شخص ایک مقامی فوٹوگرافر ہے جس کی خدمات ضلعی انتظامیہ نے صورتحال کو ریکارڈ کرنے کے لیے حاصل کی تھیں۔

اس حوالے سے سوشل میڈیا پر ردِ عمل دیتے ہوئے تجزیہ نگار عبداللہ العمادی کا کہنا تھا کہ ’ہم فوجی اور سیاسی طریقوں سے تو کچھ نہیں کر سکتے لیکن ہمارے پاس بائیکاٹ کا ہتھیار موجود ہے۔ ایک طرف ہمارے بھائیوں کو ہندو انتہا پسندوں کی طرف سے مارا جا رہا ہے اور ان کو واضح طور پر حکومتی معاونت دی جا رہی ہے۔ اور ہمیں یاد ہے کہ بائیکاٹ فرانس ٹرینڈ کی کتنی اہمیت تھی۔‘

ایک اور صارف نے لکھا کہ ’مسلمان انڈیا کو فرانس کی طرح گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیں گے۔ اس لیے یہ مہم جاری رکھیں۔‘

ٹوئٹر

،تصویر کا ذریعہTwitter/@drassagheer

محمد الصغیر نے لکھا کہ ’بائیکاٹ کرنے کا آئیڈیا برائی کو روکنے کا سب سے نچلا درجہ ہے اور یہ ایسے افراد کے لیے اپنی آواز اٹھانے کا طریقہ ہے جن کے ہاتھ میں کچھ نہیں ہوتا اور یہ یکجہتی کے اظہار کا بہترین ذریعہ ہے۔‘

احمد قسیم نامی ایک صارف نے لکھا کہ عرب حکمران بہت کمزور ہیں، وہ انڈیا کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کر سکتے، لیکن معاشی بائیکاٹ سے انڈیا کو تکلیف ہو گی اور ان کو بھی جو مسلمانوں کا قتل کرتے ہیں۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.