site to chat online tiny little asian assian women singles video chat almaty photos

بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

القاعدہ ایک سال کے اندر امریکہ کے لیے خطرہ بن سکتی ہے: امریکی جنرل مارک ملے

القاعدہ ایک سال کے اندر امریکہ کے لیے خطرہ بن سکتی ہے: امریکی جنرل مارک ملے

Gen Mark Milley

،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشن

ریپلکن جنرل ملی کی برطرفی کا مطالبہ کر رہے ہیں

اعلیٰ امریکی جنرل مارک ملے نے خبردار کیا ہے کہ افغانستان میں موجود القاعدہ کے دہشتگرد 12 ماہ کے اندر اندر امریکہ کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔

جنرل ملے کا کہنا ہے کہ اب افغانستان سے ہونے والے شدت پسند حملوں سے امریکیوں کو بچانا مشکل ہوگا۔

انھوں نے کہا ’طالبان ایک شدت پسند تنظیم تھی اور ہیں اور انھوں نے القاعدہ سے روابط ختم نہیں کیے ہیں۔‘

جنرل ملے اور وزیر دفاع کو سخت سوالات کا سامنا

امریکی پارلیمان میں گذشتہ ماہ افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا پر اعلیٰ امریکی جنرل اور وزیر دفاع کو سخت سوالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

کابل میں طالبان کی تیزی سے پیش قدمی کے باعث وہاں حکومت کا خاتمہ ہوگیا تھا۔

سینیٹر اور کمیٹی لیڈر جیک ریڈ کا کہنا تھا کہ امریکی قانون ساز یہ سمجھنا چاہتے ہیں کہ کیا امریکہ کابل میں حکومت گرنے سے متعلق ’اشاروں سے بے خبر‘ رہا۔

امریکہ کا کہنا ہے کہ اب اس کا دھیان انسداد دہشتگردی جیسے اہداف پر ہوگا۔

سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کی جانب سے اس سماعت کا انعقاد کابل ایئرپورٹ پر ہنگامی انخلا کے چند ہفتوں بعد کیا جا رہا ہے جہاں غیر ملکی طاقتیں اپنے شہریوں کو گھر واپس لانے کی کوشش کرتی رہیں اور ہزاروں مایوس افغان خود کو ریسکیو کیے جانے کی اپیلیں کرتے رہے۔

انخلا کے اس آپریشن کے دوران 26 اگست کو کابل ایئرپورٹ کے گیٹ پر ایک خودکش حملے میں 182 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ ان ہلاک ہونے والوں میں 169 افغان شہری جبکہ 13 امریکی فوجی شامل تھے۔

کمیٹی کی منگل کو کارروائی کا آغاز ہوا تو پہلے وزیر دفاع لائیڈ آسٹن اور پھر اس کے بعد جنرل مارک ملے نے اپنی گواہیاں دیں۔

اس کمیٹی کے سامنے ایک اور امریکی جنرل کینیتھ مکینزی بھی پیش ہوں گے۔ یو ایس سینٹرل کمانڈ کے سربراہ کے طور پر جنرل مکینزی نے افغانستان سے انخلا کے آپریشن کے بھی نگران تھے۔

9/11 کے حملوں کے فوراً بعد امریکی افواج 2001 کے اواخر میں افغانستان میں داخل ہوئیں۔ جب امریکی افواج افغانستان سے نکلیں تو اس وقت تک امریکہ افغان جنگ پر تقریباً 985 ارب ڈالر خرچ کر چکا تھا۔ جنگ کے دوران وہاں دسیوں ہزاروں فوجیوں کو تعینات کیا گیا اور سنہ 2011 میں امریکی فوجیوں کی سب سے بڑی تعداد ایک لاکھ دس ہزار افغانستان میں تعینات تھی۔

طالبان کے کابل پر قبضے اور 31 اگست کی انخلا کی ڈیڈلائن کے درمیان چند ہفتوں میں امریکہ نے افغانستان سے اپنے چار ہزار فوجی واپس بلائے۔ اس دوران امریکہ نے فضائی آپریشن کے دوران 50 ہزار سے زائد افغان پناہ گزینوں کا بھی کابل سے انخلا یقینی بنایا۔

2px presentational grey line

جنرل مارک ملے کون ہیں؟

  • جنرل مارک ملے امریکی صدر جو بائیڈن کے اعلیٰ فوجی مشیر بھی ہیں۔ وہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف ہیں۔ اس کمیٹی میں امریکہ کے آٹھ سینیئر ترین فوجی افسران شامل ہوتے ہیں۔
  • جنرل مارک ملے فوج کی ’چین آف کمانڈ‘ کا حصہ نہیں ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ افواج کو براہ راست کوئی حکم نہیں دیتے۔
  • تاہم وہ وائٹ ہاؤس اور پینٹاگون کے درمیان رابطہ کار ہیں۔
  • سنہ 2019 میں جوائنٹ چیفس آف سٹاف بننے سے قبل جنرل مارک ملے فور سٹار جنرل تھے اور آرمی چیف آف سٹاف کے عہدے پر تعینات تھے۔

2px presentational grey line

یہ بھی پڑھیے

جنرل ملے کو ریپبلیکنز کی جانب سے سخت سوالات کا سامنا ہے جو یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ انھیں عہدے سے ہٹا دیا جائے۔

جنرل مارک ملے اور جنرل مکینزی کو کابل میں 29 اگست کو کیے جانے والے ڈرون حملے کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ اس حملے میں ایک ہی خاندان کے دس افراد مارے گئے تھے۔

US soldiers at Kabul airport, 26 August

،تصویر کا ذریعہEPA

اس حملے کے بعد جنرل میکینزی نے کہا تھا کہ امریکی انٹیلیجنس نے ایک کار کا پتہ چلایا جس کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا تھا کہ وہ نام نہاد دولت اسلامیہ کے گروپ سے منسلک ایک خاندان کے رکن کی ہے۔

جنرل مارک ملے نے پہلے اس حملے کو ایک درست قدم قرار دیا تھا۔ جب امرکی وزارت دفاع نے اس کی تصدیق کر دی کہ مرنے والے معصوم افراد تھے تو اس کے فوراً بعد انھوں نے یہ تسلیم کرتے ہوئے اپنا بیان واپس لے لیا تھا کہ اس میں جلد بازی کی گئی تھی۔

غداری کا الزام

خیال رہے کہ حال ہی میں جنرل مارک ملے نے ایک کتاب میں یہ دعویٰ سامنے آنے کے بعد اپنا دفاع کیا تھا کہ انھوں نے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں خدشات سے متعلق چین کو ‘خفیہ’ ٹیلی فون کالیں کی تھیں۔

جنرل ملے نے کہا تھا کہ گذشتہ جنوری اور اکتوبر میں کی جانے والی کالیں چینی فوج کو یقین دہانی کے لیے تھیں۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ردعمل میں کہا تھا کہ یہ دعوے من گھڑت ہیں جبکہ ریپبلکنز نے جنرل کی برطرفی کا مطالبہ کیا ہے۔

تاہم امریکہ کے موجودہ صدر جو بائیڈن نے کہا تھا کہ انہیں جنرل ملے پر ‘بھر پور اعتماد’ ہے۔

جنرل ملے کے ترجمان کا کہنا تھا کہ یہ کالیں ان کے ‘فرائض اور ذمہ داریوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کی گئی تھیں تاکہ سٹریٹجک استحکام برقرار رکھا جا سکے۔’

ریپبلکنز سے تلعق رکھنے والے سینیٹر مارکو روبیو نے اسے ‘غداری’ قرار دیا تھا۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.