charlotte hookup bars free hookup sites usa black gay hookup hookup Mansfield Center best hookup subredduts cctv grindr hookup tampa

بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

صومالی عورتوں کا وہ روپ جو صرف بیوٹی پارلر میں نظر آتا ہے

صومالی عورتوں کا وہ روپ جو صرف بیوٹی پارلر میں نظر آتا ہے

  • میری ہارپر
  • بی بی سی

A Somalian woman show her hands painted with Henna in Hargeisa 04 March 2001 during the 12th Hargeisa Commercial Exhibition

،تصویر کا ذریعہGetty Images

میں ایک آرام دہ کرسی پر بیٹھی تھی جب ایک عورت ایک لمبا اور تیز دھار چاقو لے کر میرے پاس آئی۔ پہلی مرتبہ تو میں گھبرا گئی تھی، لیکن اب میں اس بات کی عادی ہو گئی ہوں کہ خواتین میرے پاس بلیڈ لے کر آتی ہیں۔ یہ سب خوبصورتی کے نام پر ہوتا ہے۔ انھیں کچھ بیوٹی پارلرز میں ٹانگوں، بازوؤں اور ہاتھوں سے خشک مہندی کے نقش و نگار کے لیے استعمال ہونے والے پیسٹ کو کھرچنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، جس سے جلد پر نازک، دلکش نمونے ظاہر ہوتے ہیں جو وقت کے ساتھ آہستہ آہستہ ختم ہو جاتے ہیں۔

میں جب بھی کینیا کے دارالحکومت نیروبی جاتی ہوں، میری دوست صہیبا مجھ سے ایستالی کے صومالی اکثریتی محلے میں ملتی ہے جسے ‘لٹل موغادیشو’ کہا جاتا ہے۔ اونٹ کے گوشت کے کھانے کے بعد ہم مہندی لگوانے کے لیے جاتے ہیں۔ آخری سیلون جس میں ہم گئے وہ ایک الماری کے سائز کا تھا، جس کے باہر کی پرہجوم گلی کے درمیان ایک پھٹے ہوئے پردے کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔ اندر سب کچھ مختلف محسوس ہوتا ہے۔

ایسی کمیونٹیز میں جہاں خواتین سے پردہ کرنے اور خاموش رہنے کی توقع کی جاتی ہے، بیوٹی پارلر ان کے لیے سانس لینے اور مردوں کے زیر تسلط معاشروں کی گھٹن کم کرنے کی جگہ ہے۔ کبھی کبھی یہ حقیقتاً ایسے ہی ہوتا ہے۔ ایک حالیہ دورے پر جب میں وہاں گئی ہوئی تھی تو ایک عورت پارلر میں داخل ہوئی اور اعلان کیا کہ یہ بہت زیادہ گرم ہے۔ اس نے اپنا نقاب، اپنا لمبا لباس، اس کے پیٹی کوٹ اور اس کی چولی سمیت ہر طرح کے دیگر زیر جامے اتار دیے۔

حلال ڈیٹنگ اور مساج مراکز میں گپ شپ

صومالیہ جہاں ہر عورت سر سے پاؤں تک ڈھکی ہوئی ہے۔ بیشتر نقاب کرتی ہیں جو آنکھوں کے علاوہ پورے چہرے کو ڈھانپتا ہے۔

Mary and a friend

،تصویر کا ذریعہMary Harper

جب میں پہلی مرتبہ ایک صومالی بیوٹی پارلر گئی تو مجھے اس کا دروازہ کھولنے والی خاتون کے بارے میں بہت کچھ عجیب لگا تھا۔

مجھے یہ سمجھنے میں چند سیکنڈ لگے کہ اس نے حجاب نہیں پہنا ہوا تھا، اس کے پرتعیش سیاہ بال اس کے کندھوں سے نیچے تک ڈھلک رہے تھے۔ میں جیسے ہی اندر داخل ہوئی اس نے اپنے سر سے سکارف اور دوسرے کپڑے اتارنے میں میری مدد کرتے ہوئے کہا ‘اوہ، اس بے مقصد شہ کو اتارو’۔ جب ہم میرے لمبے ’انڈر سکرٹ‘ تک پہنچہے تو اس نے اسے اکٹھا کیا اور اسے میری نیکر میں بھر دیا تاکہ میں بغیر الجھے آزادی سے گھوم پِھر سکوں۔

یہ بھی پڑھیے

وہ مجھے ایک اور کمرے میں لے گئی جہاں خواتین اور لڑکیاں کپڑے اتارے مختلف حالتوں میں بیٹھی ہوئی تھیں۔ دوسروں نے سکن ٹائیٹ جینز اور چھوٹی چھوٹی قمیضیں پہن رکھی تھیں جو عموماً ان کی عبائیوں کے نیچے چھپی رہتی ہیں۔ میں نے وہاں ایک خوبصورت دوپہر گزاری، حلال ڈیٹنگ کے بارے میں گپ شپ لگائی۔

مردوں کے بالوں کا رنگ

جب میں نے پہلی مرتبہ صومالیہ میں مہندی لگوائی تھی تو اُس وقت بیوٹیشن نے ایک چھوٹا سا پیلے رنگ کا گتے کا ڈبہ تیار کیا۔ اس پر سیاہ بالوں والے ایک مسکراتے ہوئے آدمی کی تصویر تھی۔ یہ انڈونیشیا سے درآمد کیا گیا مردوں کے بالوں کا رنگ تھا۔ اس نے اسے مہندی کے پاؤڈر میں ڈالا، اس میں ہلایا اور اسے میری سفید جلد پر لگایا۔

: Portrait of a somali woman wearing a niqab, Woqooyi Galbeed region, Hargeisa, Somaliland on November 19, 2011 in Hargeisa, Somaliland

،تصویر کا ذریعہGetty Images

مواد پر جائیں

پوڈکاسٹ
ڈرامہ کوئین
ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

اس کا نتیجہ بالکل سیاہ رنگ (جیٹ بلیک) ڈیزائن تھا جو صومالی خواتین کی جلد پر بہت اچھے لگتے ہیں لیکن میرے لیے بہت ہی بھدا ڈیزائن تھا۔ اسے ختم ہونے میں مہینوں لگے۔

اور پھر وہاں ایک خود ساختہ جمہوریہ ہے جو صومالی لینڈ کہلاتی ہے۔ جب میں اُس کے دارالحکومت ہارجیسا جاؤں تو میرے پسندیدہ کاموں میں سے ایک یہ ہے کہ خواتین دوستوں کے ایک گروپ کے ساتھ ایک بے ڈھب سی ٹیکسی میں سوار ہو کر ’بیلا روزا ڈے سپا‘ کی طرف جاؤں۔

اس سپا کا آغاز ایک صومالی خاتون نے کیا تھا جس نے کینیڈا سے وطن واپس آنے کا فیصلہ کیا جہاں وہ پہلے خانہ جنگی سے فرار ہونے کے بعد کئی دہائیوں تک مقیم تھی۔

اس کے سپا میں بہت سے لوگوں نے خلیج میں بیوٹیشن کے طور پر کام کرنے میں وقت گزارا تھا۔

کچھ کے پاس دبئی اور دیگر جگہوں پر ان پر ہونے والے جسمانی اور نفسیاتی استحصال کی ہولناک کہانیاں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ وہ ابھی تک گھر سے دور ہیں اور تنخواہ بھی بدتر ہے، لیکن وہ صومالی شہر میں رہنے کو ترجیح دیتی ہیں۔

میں اپنے بیوٹی سیلون میں گزارے گئے وقت کے دوران کی گئی بات چیت سے بہت سی چیزیں سیکھتی ہوں۔ تھراپسٹ اور ان کے کلائنٹ کی زندگیاں، ان کی شادیاں، عدم تحفظ، مایوسی اور خوشی کے لمحات میرے لیے نت نئی کہانیوں کے انکشافات کرتے ہیں۔

Muslim woman with henna on the hands and arms, Lamu County, Lamu, Kenya on March 2, 2011 in Lamu, Kenya.

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

مہندی افریقہ، ایشیا اور مشرق وسطیٰ کی بہت سی برادریوں کی ثقافت کا حصہ ہے۔

حالیہ مہینوں میں، جب میں لندن میں اپنے پسندیدہ بیوٹی تھراپسٹ سے ملاقات کرتی ہوں تو زیادہ تر بات چیت سیاست پر ہوتی ہے۔

وہ اریٹیرین ہے اور لندن کے پرہجوم اور معروف علاقے برِکسٹن کی ایک گلی میں اُس کا ایک چھوٹا سا پارلر ہے۔

وہ مجھے بتاتی ہے کہ کس طرح برطانیہ میں پہلے سے ہم آہنگ ایتھوپیا اور اریٹیریا کے باشندوں کے رشتوں کو ایتھوپیا کے ٹائیگرے کے علاقے میں جنگ نے تباہ و برباد کردیا تھا۔ ان مظالم میں اریٹیرین فوجی بھی شامل تھے۔ جو لوگ پہلے ایک دوسرے کے دوست ہوتے تھے وہ صرف اپنی مختلف نسلوں کی وجہ سے ایک دوسرے سے میل ملاپ بحال کرنے سے گریز کرتے ہیں۔

چاقو کی تیز دھار

لیکن چاقوؤں کا استعمال کرنے والی خواتین کی طرف واپس لوٹتے ہیں۔ جب بھی وہ ان چاقوؤں کو تیار کرتی ہیں، مجھے ایک اور چاقو چلانے والی صومالی خاتون یاد آجاتی ہے جس کے چاقو کا خوبصورتی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب میں نے براؤ شہر میں اس کا انٹرویو کیا تھا۔ وہ مویشی منڈی میں ایک عارضی پناہ گاہ میں بیٹھی ایک بڑے برتن میں کھانا تیار کر رہی تھی۔ میں نے اپنی رپورٹ میں اسے غریب بتایا تھا۔ میری بات سن کر وہ غصے میں آگئی۔ اس نے غصے میں سوچا کہ میری ہمت کیسے ہوئی کہ میں اُسے غریب سمجھوں؟

اس نے وہاں جا کر اُس شخص کو تلاش کیا جس نے اُسے مجھ سے بازار میں ملایا تھا۔ میرے انٹرویو کے بعد جب وہ اس شخص سے ملی تو اس نے اپنے لباس کے نیچے سے ایک لمبا چاقو نکالا اور اعلان کیا کہ اگر اس نے مجھے دوبارہ دیکھا تو وہ مجھے اس سے مار دے گی۔

صومالیہ کو اکثر دنیا کا خطرناک ترین ملک قرار دیا جاتا ہے۔ یہ ملک بحری قزاقوں اور خودکش بمباروں کی پناہ گاہ کے طور پر مشہور ہے۔

مجھے اس بات پر حیرت نہیں ہوئی کہ وہ عورت مجھے مارنا چاہتی تھی کیونکہ میں نے اسے اپنی ایک رپورٹ میں غریب عورت بیان کیا تھا۔ صومالی حیرت انگیز طور پر بہت غیرت مند اور خود پر فخر کرنے والے لوگ ہیں۔

اور یہ وہی غیرت اور فخر ہے جس کی وجہ سے میں بیوٹی پارلرز میں صومالی خواتین سے متاثر ہوتی ہوں، جہاں پر ہیئر سٹائل اور مہندی کے شاندار ڈیزائن بنائے جاتے ہیں جو بڑی حد تک ہیڈ سکارف اور لمبے لباس کے نیچے چھپ جاتے ہیں۔

مجھے امید ہے کہ میں مویشیوں کی منڈی میں اس عورت سے دوبارہ کبھی نہیں ملوں گی اور یہ کہ میرا صرف انہی چاقوؤں سے واسطہ پڑے گا جو میری جلد پر خوبصورت نمونوں کو ظاہر کرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.