سندھ میں میٹرک امتحانات سے 3 روز قبل صوبائی تعلیمی بورڈز کے افسران کو اچانک ان کے اصل محکموں میں واپس بھیج دیا، امتحانات متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔
ذرائع کے مطابق محکمہ بورڈز و جامعات نے سندھ کے تعلیمی بورڈز میں مستقل چیئرمین، سکریٹریز اور ناظم امتحانات لگانے کی بجائے امتحانات سے 3 روز قبل دوسرے محکموں اور بورڈز سے آئے ہوئے افسران کو فارغ کرکے ان کے اصل محکموں میں واپس بھیجنے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا، جس کی وجہ سے میٹرک کے امتحانات کے متاثر ہونے کا خدشہ ہے ۔
تاہم دوسری جانب محکمہ بورڈز و جامعات نے عدالتی احکامات کے برخلاف او پی ایس، ایڈشنل چارج اور ڈیپوٹیشن پر دوسرے محکموں سے آئے ہوئے 18 افسران اور ملازمین جو غیر قانونی طور پر کام کررہے ہیں، کو بچالیا ہے۔
نوٹفکیشن کے مطابق بورڈ آف سیکینڈری ایجوکیشن کراچی میں بطور اسسٹنٹ پروگرامر تعینات افتخار ابڑو کو ان کے اصل محکمہ زراعت میں رپورٹ کرنے کی ہدایت کی گئے ہے۔
بورڈ آف انٹرمیڈیٹ ایجوکیشن کراچی میں قائم مقائم تعینات انجینئر انور علیم خانزادہ کو میرپور خاص بورڈ بھیج دیا گیا ہے۔
بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن شہید بینظیر آباد میں بطور اسسٹنٹ سیکریٹری تعینات اشفاق احمد شیخ کو لاڑکانہ بورڈ رپورٹ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
سکندر علی میر جت قائم مقام ناظم امتحانات سکھر بورڈ کو اصل محکمہ لاڑکانہ بورڈ بھیج دیا گیا ہے، قائم مقام سیکریٹری نوابشاہ بورڈ جان محمد ملک کو محکمہ اسکول ایجوکیشن بھیج دیا گیا ہے۔
الہی بخش بھٹو آڈٹ آفیسر بورڈ آف نوابشاہ کو لوکل گورنمنٹ ڈیپارٹمنٹ میں رپورٹ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے، عبد الجبار ڈپٹی کنٹرولر نوابشاہ بورڈ کو محکمہ کالج ایجوکیشن رپورٹ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
مظہر میرجت ڈیٹا پروسیسنگ آفیسر نوابشاہ بورڈ کو لاڑکانہ بورڈ بھیج دیا گیا ہے، قائم مقائم سکریٹری حیدرآباد بورڈ شوکت علی خانزادہ کو محکمہ کالج ایجوکیشن رپورٹ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
تاہم دلچسپ امر یہ ہے کہ محکمہ بورڈز و جامعات میں دوسرے محکموں اور او پی ایس، ایڈشنل چارج اور ڈیپوٹیشن پر 18 افسران غیر قانونی طور پر کام کررہے ہیں۔
جن میں نواز علی تنیو اور محمد یونس بلوچ کا تعلق ایس ٹیوٹا سے ہے، کمال این ای ڈی یونیورسٹی کا ریٹائرڈ ملازم ہے، منیر سندھ یونیورسٹی کا اکاؤنٹ افسر ہے، شیر محمد میٹرک بورڈ کراچی کا ملازم ہے، جبار کا تعلق لاڑکانہ بورڈ سے ہے، ریحان کا حیدرآباد بورڈ سے ، فیاض کا سندھ بورڈ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن سے ، عقیل رائیڈراور منظور کا انٹر بورڈ کراچی سے، بابر نامی کلرک کا تعلق بینظیر ڈویلپمنٹ بورڈ سے ہے۔
علی گل نامی ڈرائیور سندھ یونیورسٹی سے تنخواہ لیتا ہے اور گاڑی محکمہ بورڈز و جامعات کی چلاتا ہے۔ نوابشاہ بورڈ سے مومل نامی خاتون ڈیٹا انٹری آپریٹر کا کام کررہی ہے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ محکمہ بورڈز و جامعات میں محمد سلیم ڈائچ نامی شخص بطور پی ایس کام کررہا ہے، اسے حال ہی میں ڈائو یونیورسٹی میں بھرتی کرواکر خاص سمریاں بورڈز یا جامعات کے سیکشن افسر ان کی بجائے اس سے اس کے کمپیوٹر میں ٹائپ کروائی جاتی ہیں اور متعلقہ افسران سے سمری تیار ہونے کے بعد صرف دستخط کرائے جاتے ہیں۔
اس سے قبل خلاف ضابطہ پراسکیوشن ڈپارٹمنٹ سے بیرو مل کو محکمہ بورڈز و جامعات میں بطور ڈپٹی ڈائریکٹر لایا گیا تھا جس کا تبادلہ سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن ہوگیا ہے۔
تاہم ابھی بھی اس کے پاس محکمہ بورڈز و جامعات میں ڈپٹی ڈائریکٹر کے عہدے کا چارج موجود ہے۔جب کہ سکریٹری بورڈ مرید راحموں گریڈ 18 کے فرحان غنی کو 19؍ گریڈ کا اضافی چارج دے کر انٹر بورڈ کراچی کے معاملات سے متعلق سہ رکنی کمیٹی کا چیئرمین مقرر کر رکھا ہے۔
اس کے علاوہ جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی کا ایک ملازم ادہر محکمہ بورڈز و جامعات کی نئی عمارت میں منتقلی، عمارت کی تزئین و آرائش اور فرنیچر کی خریداری میں کروڑوں روپے کے خرچ کا معاملہ بھی ایک معمہ بنا ہوا ہے، کیونکہ نہ تو محکمہ کے پاس فنڈز تھے نہ ہی ٹینڈر کیا گیا تھا۔
خیال کیا جاتا ہے کہ ایک میڈیکل یونیورسٹی کے ڈائریکٹر فنانس نے سہولت کاری کی ہے۔
Comments are closed.