سعودی عرب، ایران کا ’غیرمتوقع‘ معاہدہ: کیا سعودی عرب اپنی سلامتی کے لیے اب فقط امریکہ پر انحصار نہیں کر رہا؟

سعودی عرب

،تصویر کا ذریعہGetty Images

مشرق وسطیٰ کے دو حریف ممالک ایران اور سعودی عرب نے چین کی ثالثی کے نتیجے میں گذشتہ ہفتے کئی برسوں سے منقطع سفارتی تعلقات بحال کرنے اور ایک دوسرے کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھانے کا غیرمتوقع اعلان کیا ہے۔

سنہ 2016 میں پیش آنے والے چند واقعات کے بعد ایران اور سعودی عرب نے اپنے سفارتی تعلقات منقطع کر لیے تھے۔ سفارتی تعلقات اس وقت منقطع ہوئے تھے جب سعودی عرب میں ایک معروف شیعہ عالم کو پھانسی دیے جانے کے بعد ایرانی مظاہرین نے سعودی سفارت خانے پر دھاوا بول دیا تھا۔

اس واقعے کے بعد سے سنی اکثریتی سعودی عرب اور شیعہ اکثریتی ایران کے درمیان کافی کشیدگی پائی جاتی تھی۔ مشرق وسطیٰ میں بالادستی کے لیے مقابلہ کرنے والے یہ دونوں ممالک ایک دوسرے کو اپنے لیے خطرہ سمجھتے رہے ہیں اور اس مقابلے میں دونوں ممالک لبنان، شام، عراق اور یمن سمیت مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک میں جاری تنازعات میں حریف دھڑوں کی حمایت کرتے آئے ہیں۔

ایران جہاں یمن میں حوثی باغیوں کی حمایت کرتا ہے وہیں سعودی عرب ان باغیوں کے خلاف فضائی حملے کرتا ہے۔

مگر ان تمام تر تنازعات کے باوجود اب ان دونوں ممالک نے ایک دوسرے کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھانے کے عزم کا غیرمتوقع اعلان کیا ہے۔ مگر اس اہم پیش رفت کا مطلب کیا ہے؟ اس سوال کا جواب جاننے سے قبل سعودی عرب اور ایران کے سرد مہری اور دشمنی پر مبنی تعلقات کا جائزہ لینا ضروری ہے۔

سعودی عرب

،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشن

چین کی ثالثی میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان معاہدے کا اعلان گذشتہ جمعہ کے روز کیا گیا

سعودی عرب اور ایران کے درمیان دشمنی

سعودی عرب تسلسل کے ساتھ یہ الزام عائد کرتا آیا ہے کہ یمن کے حوثی باغی ایران کی پشت پناہی کے باعث سعودی سرزمین پر حملے کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔

سعودی عرب جن بڑے حوثی حملوں کی بات کرتا ہے اُن میں سب سے سنگین حملہ 2019 میں تیل تنصیبات پر ڈرون اور میزائل کی مدد سے ہونے والا حملہ تھا۔ اس حملے میں جانی نقصان کے علاوہ آئل پلانٹس کو بھی شدید نقصان پہنچا تھا اور اس کی وجہ سے سعودی تیل کی پیداوار بڑی حد تک متاثر ہوئی تھی۔

سعودی عرب نے اس حملے کا الزام براہ راست ایران پر عائد کیا تھا لیکن ایران نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس میں اس کا کوئی ہاتھ نہیں ہے۔

سفارتی تعلقات کی عدم موجودگی میں گذشتہ سات برسوں کے دوران ایران اور سعودی عرب کے درمیان کشیدگی کم کروانے کے معاہدے تک پہنچنے کی متعدد کوششیں کی گئیں تاہم اس میں کامیابی گذشتہ جمعہ کو چین کی ثالثی کے نتیجے میں حاصل ہوئی۔

اس معاہدے کے مطابق دونوں ممالک نے کہا ہے کہ وہ دو ماہ کے اندر اپنے اپنے سفارت خانے کھول دیں گے اور اس کے ساتھ ساتھ کاروباری اور سیکورٹی تعلقات کو دوبارہ قائم کریں گے۔

امریکہ نے اس پیشرفت کا خیرمقدم کیا ہے لیکن احتیاط کا اظہار بھی کیا ہے۔ وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے کہا ہے کہ ’بائیڈن انتظامیہ خطے میں کشیدگی کو کم کرنے کے لیے ایسے کسی بھی اقدام کی حمایت کرتی ہے۔‘ تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’یہ دیکھنا باقی ہے کہ آیا وہ (سعودی عرب، ایران) اس معاہدے کے لیے ضروری اقدامات اٹھائیں گے یا نہیں۔‘

اقوام متحدہ کے سربراہ انتونیو گوتریس نے بھی سعودی عرب اور ایران کے درمیان معاہدے کی ثالثی پر چین کا شکریہ ادا کیا ہے۔

اسرائیلی حکومت نے ابھی تک اس معاہدے پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے تاہم اسرائیل کے سابق وزیر اعظم نفتالی بینیٹ نے اس فیصلے کو اسرائیل کے لیے ’خطرناک‘ قرار دیا ہے۔

ایران کے مبینہ جوہری پروگرام کی وجہ سے اسرائیل ایران پر زیادہ سے زیادہ بین الاقوامی دباؤ ڈالنے کا حامی رہا ہے۔

سعودی عرب

،تصویر کا ذریعہEPA

،تصویر کا کیپشن

سعودی عرب کی جانب سے معروف شیعہ عالم کو پھانسی دیے جانے کے بعد تہران میں مظاہرین نے سعودی سفارتخانے پر حملہ کیا تھا جس کے بعد سفارتی تعلقات منقطع کر لیے گئے تھے

بی بی سی کے دفاعی نامہ نگار فرینک گارڈنر کا تجزیہ

ایران اور سعودی عرب کے درمیان ہونے والے اس معاہدے نے مشرق وسطیٰ سمیت پوری دنیا کو حیران کر دیا ہے کیونکہ اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ یہ دونوں ممالک ایک دوسرے کو پسند نہیں کرتے۔

دونوں کے درمیان تاریخی طور پر گہرا عدم اعتماد پر مبنی رشتہ رہا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں دونوں ممالک ایک دوسرے کے سخت مخالف رہے ہیں۔

سعودی عرب نے یمن میں جلاوطن حکومت کی حمایت کی ہے اور ایران نے حوثی باغیوں کی حمایت کی۔ نہ صرف یمن بلکہ لبنان، شام اور عراق جیسے ممالک میں بھی دونوں ایک دوسرے کے خلاف کھڑے دیکھے گئے ہیں۔

ایران اور سعودی عرب 2015 میں اس وقت آمنے سامنے آئے تھے جب مکہ میں حج کے دوران بھگدڑ مچنے سے 139 ایرانی زائرین ہلاک ہو گئے تھے۔

ایران نے سعودی عرب کی حکومت پر ’بے حسی‘ کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اس معاملے کو عالمی عدالت انصاف میں لے جائے گا۔ اس کے اگلے ہی برس یعنی 2016 میں سعودی عرب نے ممتاز شیعہ عالم نمر النمر سمیت 47 افراد کو دہشت گردی کے الزام میں پھانسی دے دی۔

اس اقدام کے نتیجے میں مظاہرین تہران میں سعودی عرب کے سفارت خانے میں گھس گئے۔ اور اس واقعے کے بعد سعودی عرب اور ایران کے سفارتی تعلقات ختم ہو گئے تھے۔

واضح رہے کہ اس سے پہلے جس طرح کے واقعات ہو چکے ہیں اس کے تناظر میں ان دونوں ممالک کو ایک دوسرے پر بھروسہ نہیں ہے۔ لیکن دونوں کے درمیان حالیہ معاہدے کے بعد ہم یہ فرض کر رہے ہیں کہ وہ خطے کی اصل سیاسی حقیقت کو سمجھتے ہیں۔

دونوں جانتے ہیں کہ وہ ایک خطرناک علاقے میں رہ رہے ہیں اور بہتر ہے کہ اگر وہ یہاں اپنا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں تو باہمی دشمنی چھوڑ دیں۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ کاغذ پر کیا گیا یہ معاہدہ زمینی سطح تک کہاں تک پہنچ پاتا ہے۔

حوثی

،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشن

سعودی عرب ایران پر حوثی باغیوں کی پشت پناہی کا الزام عائد کرتا ہے

اس معاملے میں چین کا عمل دخل بہت دلچسپ ہے۔ یہ معاہدہ چین کے اعلیٰ سفارتکار کی ثالثی میں کیا گیا ہے اور اسے مشرق وسطیٰ میں چین کے بڑھتے ہوئے کردار کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

تاہم خلیجی خطے سے امریکی فوجیوں کے انخلا کو خطے میں امریکہ کی کم ہوتی ہوئی دلچسپی کے طور پر نہیں دیکھا جا سکتا۔ لیکن سعودی عرب اور خطے کے کچھ دوسرے ممالک محسوس کرتے ہیں کہ وہ اپنی سلامتی کی ضروریات کے لیے اب فقط امریکہ پر انحصار نہیں کر سکتے (یعنی انھیں اپنے طور بھی چند اقدامات کرنے ہوں گے)۔

اس خطے کے ممالک نے دیکھا ہے کہ کس طرح امریکہ نے مصر کی حسنی مبارک کی حکومت کو عرب سپرنگ کے دوران اپنا دفاع کرنے کے لیے اکیلا چھوڑ دیا۔ عرب ممالک نے یہ بھی دیکھا کہ کس طرح روس نے شام کی اسد حکومت کی حمایت کی جب کہ ان کے خلاف انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے مقدمات بھی تھے۔

اس کے علاوہ جب سابق امریکی صدر براک اوباما نے امریکی خارجہ پالیسی میں مشرقی خطے اور ایشیا پیسفک خطے کو اہمیت دینے کا اعلان کیا تو عرب ممالک نے محسوس کیا کہ وہ اپنی سلامتی کی ضروریات کے لیے امریکہ پر مزید اعتماد نہیں کر سکتے۔

حالانکہ امریکہ اب بھی وہ ملک ہے جو سعودی عرب کی سلامتی کا ضامن ہے اور ہتھیاروں کے معاملے میں اس کا اہم سپلائر بھی ہے۔ لیکن اب عرب ممالک اپنے سفارتی تعلقات کو متنوع بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

BBCUrdu.com بشکریہ