تیل اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ: سعودی کمپنی آرامکو کو 161 ارب ڈالر کا ریکارڈ منافع

Aramco

،تصویر کا ذریعہGetty Images

سعودی عرب کی سب سے بڑی تیل کمپنی آرامکو نے بتایا ہے کہ اسے سنہ 2022 میں 161.1 ارب ڈالر کا منافع ہوا۔ گذشتہ سال کے مقابلے میں یہ 46.5 فیصد زیادہ اضافہ ہے۔

فروری 2022 میں روس کے یوکرین پر حملے کے بعد توانائی کے شعبے میں قیمتوں میں اضافے کے بعد آرامکو کمپنی اپنے ریکارڈ منافع کے بارے میں بتانے والی پہلی فرم بھی بن گئی ہے۔

امریکہ کی ایکسون موبل کمپنی نے 55.7 ارب ڈالر جبکہ برطانیہ کی شیل کمپنی نے39.9 ارب ڈالر منافع کے بارے میں بتایا ہے۔

آرامکو نے سنہ 2022 میں اکتوبر تا دسمبر کی سہ ماہی کے لیے 19.5 ارب ڈیویڈینڈ یعنی منافع کی تقسیم کا اعلان کیا ہے، جو اس سال کی پہلی سہ ماہی میں شیئرہولڈرز کو ادا کیا جائے گا۔

اس منافع کی زیادہ تر رقم سعودی عرب کی حکومت کو جائے گی، جو کمپنی کے تقریباً 95 فیصد حصص کی مالک ہے۔

خام تیل کی قیمت اب تقریباً 82 ڈالر فی بیرل پر ہے حالانکہ روس کے یوکرین پر حملے کے بعد مارچ میں قیمتیں 120 ڈالر فی بیرل سے تجاوز کر گئی تھیں۔

واشنگٹن میں عرب گلف سٹیٹس انسٹیٹیوٹ کے رابرٹ موگیلنکی نے کہا ہے کہ ’آرامکو نے سنہ 2022 میں توانائی کی بلند قیمتوں سے بے پناہ فائدہ اٹھایا۔ ‘

ان کے مطابق ’سنہ 2022 میں آرامکو کا اتنی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہ کرنا مشکل ہوتا۔‘

یہ بھی پڑھیے

اتوار کو ایک بیان میں آرامکو نے کہا ہے کہ کمپنی کی یہ بہتر کارکردگی ’خام تیل کی مضبوط قیمتوں، زیادہ فروخت اور بہتر مصنوعات کے مارجن کی بنیاد پر‘ ہے۔

آرامکو کے صدر اور چیف ایگزیکٹیو امین نصر نے کہا کہ ’اس بات کو دیکھتے ہوئے ہم توقع کرتے ہیں کہ تیل اور گیس مستقبل قریب کے لیے ضروری رہیں گے، ہماری صنعت میں کم سرمایہ کاری کے خطرات حقیقی ہیں۔۔۔ جس میں توانائی کی بلند قیمتوں کی وجہ بننا بھی شامل ہے۔‘

ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے انھوں نے کہا کہ کمپنی نہ صرف تیل، گیس اور کیمیکلز کی پیداوار کو بڑھانے پر توجہ دے گی بلکہ نئی کم کاربن ٹیکنالوجیز میں بھی سرمایہ کاری کرے گی۔

آرامکو امریکہ کی کمپنی ’ایپل‘ کے بعد دنیا کی دوسری سب سے امیر کمپنی ہے جو گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کے ذریعے موسمیاتی تبدیلی میں اپنا حصہ ڈالتی ہے۔

آرامکو کے اعلان پر اپنے ردعمل میں ایمنیسٹی انٹرنیشنل کی سیکریٹری جنرل انیس کیلمارڈ نے کہا ہے کہ ’ایک کمپنی کا فوسل فیول کی فروخت کے ذریعے ایک ہی سال میں 161 ارب ڈالر کا منافع حیران کن ہے۔ یہ فیول ماحولیاتی بحران کا سب سے بڑا واحد ذریعہ بھی ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’یہ سب سے زیادہ اس وجہ سے بھی چونکا دینے والا ہے کیونکہ یہ عالمی سطح پر قیمتوں میں اضافے کے بحران اور روس اور یوکرین تنازع میں توانائی کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے ممکن ہو سکا۔‘

واضح رہے کہ سعودی عرب تیل پیدا کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک کا سب سے بڑا پیداواری ملک ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ