رفح کراسنگ: غزہ کے باشندوں کے لیے ’فرار کا واحد راستہ‘ مگر مصر اس سرحدی گزرگاہ کو کیوں نہیں کھول رہا؟
رفح کراسنگ: غزہ کے باشندوں کے لیے ’فرار کا واحد راستہ‘ مگر مصر اس سرحدی گزرگاہ کو کیوں نہیں کھول رہا؟
،تصویر کا ذریعہGetty Images
رفح کراسنگ پر اس وقت ہزاروں افراد موجود ہیں جو اس سرحدی گزرگاہ کے کھلنے کے منتظر ہیں
یہ غزہ کی پٹی کے اُن باشندوں کے لیے فرار ہونے کا واحد راستہ ہے جو اسرائیلی بمباری سے خوفزدہ ہیں اور یہاں سے نکل بھاگ جانا چاہتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ اسرائیلی کی جانب سے غزہ کی پٹی پر زمینی حملے کے خدشات میں گھرے فلسطینی شہری فرار ہونے کے لیے جنوب میں واقع رفح کراسنگ پر پہنچ رہے ہیں۔
امریکی میڈیا میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق یہ کراسنگ دوہری شہریت کے حامل افراد کو غزہ سے نکالنے کے ساتھ ساتھ امدادی سامان غزہ پہنچانے کے لیے کھولی جا سکتی ہے۔ تاہم ان رپورٹس میں کراسنگ کھولنے کے ممکنہ وقت کا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔
رفح کراسنگ کیا ہے؟
رفح کراسنگ ایک سرحدی گزر گاہ ہے جو غزہ کی پٹی کے جنوب میں واقع ہے۔
یہ غزہ کی پٹی کو مصر کے صحرائے سینا سے ملاتی ہے۔ اس کے علاوہ غزہ کی پٹی میں دو اور سرحدی گزرگاہیں بھی ہیں جن کا نام ’ایریز‘ اور ’کریم شالوم‘ ہے۔
ان میں سے ایریز کراسنگ شمالی غزہ کو اسرائیل سے ملاتی ہے جبکہ کریم شالوم بھی اسرائیل اور غزہ کے درمیان ایک گزرگاہ ہے لیکن اسے صرف تجارتی سرگرمیوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
یہ دونوں سرحدی گزرگاہیں اس وقت بند ہیں۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
رفح کراسنگ کی 15 اکتوبر کو بنائی گئی سیٹلایٹ تصویر
رفح کراسنگ اتنی اہم کیوں ہے؟
فلسطینی شدت پسند تنظیم حماس نے 7 اکتوبر کو اسرائیل پر ہونے والے حملے کے دوران ایریز کراسنگ کو بھی بُری طرح نقصان پہنچایا تھا۔
حماس کے حملہ میں 1300 سے زیادہ اسرائیلی شہری مارے گئے۔
اس حملے کے چند دن بعد اسرائیل نے اعلان کیا کہ ایریز اور کریم شالوم کراسنگ بند رہیں گی۔ ایسے میں جب اسرائیل نے غزہ پر فضائی حملوں کا آغاز کیا تو عام فلسطینیوں کے لیے غزہ کی پٹی سے نکلنے کا واحد راستہ رفح کراسنگ بچ گیا۔
غزہ کی پٹی کو انسانی امداد فراہم کرنے کی کوشش کرنے والے بین الاقوامی ادارے بھی اس گزرگاہ کے ذریعے امدادی سامان سے لدے اپنے ٹرک غزہ کے اندر لے جا سکتے ہیں۔
مصر کی وزارت خارجہ نے گذشتہ ہفتے کہا تھا کہ وہ بین الاقوامی تنظیموں کی طرف سے غزہ کے لیے امدادی سامان لے جانے والی پروازوں کو شمالی سینائی کے العریش ہوائی اڈے کی طرف موڑ رہا ہے۔
ایسی صورتحال میں غزہ کی پٹی تک ایندھن اور امدادی سامان پہنچانے کے لیے درجنوں ٹرک رفح کراسنگ کے باہر قطار میں کھڑے ہیں۔
،تصویر کا ذریعہReuters
غزہ کی پٹی کے باشندوں کے لیے امدادی سامان سے لدے سینکڑوں ٹرک اس وقت رفح کراسنگ پر موجود ہیں تاہم انھیں سرحد عبور کرنے کی اجازت نہیں دی جا رہی
رفح کراسنگ پر کیا ہو رہا ہے؟
اسرائیل پر حماس کے تازہ حملے کے بعد رفح کراسنگ سے متعلق خبروں میں تضاد دیکھا جا رہا ہے۔
اس سے پہلے یہ گزرگاہ حماس اور مصر کے کنٹرول میں تھی۔ مصر اور حماس اس گزرگاہ سے آنے اور جانے والوں کی نقل و حرکت کو کنٹرول کرتے تھے۔ لیکن اسرائیل کی جانب سے شدید بمباری کے بعد رفح کراسنگ کو بھی بند کر دیا گیا تھا۔
مصری میڈیا میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق 9 اکتوبر کے بعد سے یہ گزرگاہ بند ہے۔ اس کی وجہ اسرائیل کی جانب سے ہونے والے فضائی حملے بتائے جاتے ہیں جن میں سرحد کے دونوں اطراف لوگ زخمی ہوئے۔
12 اکتوبر کو مصری حکومت نے اسرائیل سے کہا تھا کہ وہ رفح کراسنگ کے قریب بمباری بند کرے تاکہ غزہ میں لوگوں کو ریلیف فراہم کیا جا سکے۔
لیکن اس کے ساتھ ہی مصر نے واضح کیا ہے کہ وہ اس گزرگاہ کو اس وقت تک نہیں کھولے گا جب تک اس کے ملازمین کی حفاظت کی ضمانت نہیں دی جاتی۔
مغربی ممالک اس بات کو بھی یقینی بنانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ رفح کراسنگ غزہ میں غیر ملکی پاسپورٹ رکھنے والوں کے لیے انسانی امداد کے ساتھ ساتھ ایک محفوظ راستہ بن جائے۔
برطانوی وزیر خارجہ جیمز کلیورلی اور امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا ہے کہ وہ اس گزرگاہ کو کھولنے کے لیے اسرائیل اور مصر کے ساتھ ساتھ خطے کے اہم سیاسی رہنماؤں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔
گذشتہ ہفتے امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہا تھا کہ اس کے شہریوں سے کہا جا رہا ہے کہ وہ رفح کراسنگ کی طرف بڑھیں کیونکہ ’اگر یہ کراسنگ کھلتی ہے تو یہ بہت محدود وقت کے لیے کُھلے گی اور وہاں پہنچنے کے لیے بہت کم وقت ہو گا۔‘
،تصویر کا ذریعہReuters
’مصر نے واضح کیا ہے کہ وہ اس گزرگاہ کو اس وقت تک نہیں کھولے گا جب تک اس کے ملازمین کی حفاظت کی ضمانت نہیں دی جاتی‘
ان افواہوں کی وجہ سے غزہ میں رہنے والے لوگ اس گزرگاہ کے کھلنے کی امید میں رفح کراسنگ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
گذشتہ پیر کو کچھ رپورٹس سامنے آئی تھیں جن میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ جنگ بندی کا معاہدہ طے پانے کے بعد رفح کراسنگ کو کچھ عرصے کے لیے کھول دیا جائے گا۔
یہ خبر سُن کر پیر کے روز اس کراسنگ کے پاس لوگوں کی بھیڑ جمع ہوتی نظر آئی۔
رفح کراسنگ کیوں بند ہے؟
اسرائیل چاہتا ہے کہ حماس کے شدت پسند کسی طرح غزہ سے فرار ہونے میں کامیاب نہ ہوں۔ اس کے لیے وہ غزہ میں داخل ہونے والے تمام ٹرکوں کی تلاشی لینا چاہتا ہے تاکہ ان کے ذریعے ہتھیار غزہ تک نہ پہنچ سکیں۔
اس سب کے درمیان ایک طرف مصر رفح کراسنگ کو کھولنے کے لیے دوسرے ممالک کے ساتھ بات چیت میں تعاون کرتا دکھائی دے رہا ہے۔
لیکن مصری حکومت کو یہ خدشہ بھی لاحق ہے کہ فلسطینی شہری غزہ کی پٹی سے فرار ہو کر صحرائے سینا میں پناہ لے سکتے ہیں۔
اس بات کا امکان نہیں ہے کہ مصری حکومت اپنی سرحدیں تمام فلسطینیوں کے لیے کھول دے گی۔
اس کے ساتھ مصری حکومت اسلامی شدت پسندوں کی آمد کے امکان سے بھی پریشان ہے۔
،تصویر کا ذریعہReuters
عام دنوں میں رفح کراسنگ کیسے کام کرتی ہے؟
عام دنوں میں بھی فلسطینیوں کے لیے رفح کراسنگ کے ذریعے غزہ کی پٹی سے باہر نکلنا آسان نہیں ہوتا۔
اس کے لیے فلسطینیوں کو دو سے چار ہفتے قبل مقامی فلسطینی تنظیم کو درخواست دے کر رجسٹریشن کروانا ہوتی ہے۔
ایسی درخواستوں کو فلسطینی یا مصری حکام کی طرف سے مسترد بھی کیا جا سکتا ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق مصر نے 2023 میں 19608 افراد کو غزہ چھوڑنے کی اجازت دی۔ ساتھ ہی 314 لوگوں کو باہر جانے سے روک دیا گیا تھا۔
مصر رفح کراسنگ کیوں نہیں کھولتا؟ سبیسچیئن اشر کا تجزیہ
مصر نے گذشتہ کئی برسوں سے رفح کراسنگ کے ذریعے انسانوں اور مال بردار ٹرکوں کی نقل و حرکت پر سخت پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ یہ پابندیاں اس حد تک سخت نوعیت کی ہیں کہ بعض اوقات فلسطینی شہری مصر پر اسرائیل کی جانب سے غزہ کی ناکہ بندی اور محاصرے کو تقویت دینے کا الزام عائد کرتے ہیں۔
مصر نے یہ پابندیاں سنہ 2007 میں اُس وقت سے عائد کر رکھی ہیں جب حماس نے غزہ کی پٹی کا مکمل کنٹرول سنبھالا تھا۔
رفح کراسنگ کو لے کر مصر کے زیادہ تر سکیورٹی خدشات شمالی سینائی (مصر کا سرحدی علاقہ) کے حوالے سے ہیں جہاں مصری حکام طویل عرصے سے القاعدہ سے منسلک جہادی تنظیموں سے نبرد آزما ہیں۔
واضح شرائط اور ضمانتوں کے بغیر رفح کراسنگ کھولنے میں مصر کی حالیہ ہچکچاہٹ غزہ سے فلسطینیوں کے بڑے پیمانے پر اخراج اور مصر میں نقل مکانی سے بچنے کی کوشش کے بارے میں زیادہ ہوسکتی ہے۔
مصر بظاہر یہ نہیں چاہتا کہ جنگ سے بھاگ کر غزہ سے ہزاروں فلسطینی مستقل آباد کاری کے لیے مصر منتقل ہوں۔
اگرچہ یہ امکان ہے کہ غیر ملکیوں اور دوہری شہریت کے حامل فلسطینیوں کو رفح کراسنگ کے ذریعے غزہ سے نکلنے کی اجازت دی جائے، لیکن مصر چاہتا ہے کہ ایسا اس وقت ممکن ہو جب غزہ میں انسانی امداد لے جانے کی بھی اجازت دی جائے۔
اس سے آگے کسی بھی چیز کے لیے، مصر اپنی بیمار معیشت کی مدد کے لیے مغرب سے کافی اقتصادی مراعات کی توقع کر سکتا ہے۔
Comments are closed.